عراق تقسیم کی راہ پر گامزن

عراق کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ان میں سے 80فیصد عرب ہیں اور باقی پندرہ فیصد کے قریب کرد اور دوسری نسلوں (ترک ، اسیریائی وغیرہ) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مسلمان97فیصد ہیں جن میں سے ساٹھ فی صد کے قریب شیعہ مسلمان ہیں ، اہلسنت کی اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے ، تین فیصد میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن میں زیادہ عیسائی ، کچھ یہودی ، بہائی وغیرہ ہیں۔مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ فتح کیا تھا ، مسلمانوں کے خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اس کے شہر کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا ، اس کے بعد عربوں نے اموی اور عباسی سلطنت کی صورت میں عراق پر حکومت کی ، عباسیوں نے بغداد کو پہلی دفعہ دارالحکومت بنایا ۔1258ء عیسوی میں منگولوں نے ہلاکو خان کی قیادت میں بغداد کو تاراج کیا اور 16ویں صدی عیسویں میں عثمانی سلطنت کا حصہ بنا جس کی یہ حیثیت جنگ عظیم اول تک برقرار رہی۔ جنگ عظیم اول کے بعد برطانیہ نے اس پر قبضہ کرلیا اور فرانس کے ساتھ ملکر برطانیہ نے بندر بانٹ کرکے مشرق وسطی کے حصے بخرے کردئیے۔ 1932ء میں انگریزوں نے اسے آزادی دی ۔لیکن عراق میں برطانیہ کے فوجی اڈے برقرار رہے۔14جولائی 1958ء کو عراقی فوج نے معاہدہ بغداد کو قبول کرنے سے انکار کرکے بریگیڈئر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف کی قیادت میں انقلاب برپا کرکے عراقی بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ لیکن بعد میں مصر کی وجہ سے ان دونوں قائدین میں اختلاف پیدا ہوگیا۔کرنل عبدالسلام عارف مصر سے گہرے تعلقات کے خواہاں تھے لیکن بریگیڈئر جنرل عبدالکریم قاسم ایسا نہیں چاہتے تھے۔1963ء میں ایک اور فوجی بغاوت کے بعد بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور کرنل عبدالسلام کو صدر بنادیاگیا ، صدام حسین اسی پارٹی کے رکن تھے جو بعد میں عراق کے صدر بنے ،2003ء امریکی قبضے تک بعث پارٹی کی حکومت قائم رہی۔

ایک بار پھر دیکھا جائے تو عملی طور پر عراق تقسیم ہورہا ہے تو شائد غلط نہ ہوگا ، کیونکہ عراق کے ایک حصے پر کرد ، دوسرے پر دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) اور تیسرے پر عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی کا قبضہ ہے۔ عراق کے نائب وزیر اعظم ڈاکٹر صالح المطلک کا حالیہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ "اگر اہل سنت مسلک کے لوگوں کا استحصال اور ان کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رہا تو عراق کو متحد رکھنا مشکل ہوجائے گا، شیعہ مسلک مالکی کی پالیساں سنیوں کو علیحدہ صوبہ بنانے پر مجبور کر رہی ہیں۔"جبکہ عراق کے وزیر اعظم نورالمالکی نے بدھ کو ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں ہنگامی حکومت بنانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ" ایسا کرنا ملک کے آئین اور30اپریل کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے خلاف ہوگا۔"اہم بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ و برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے ہی نہیں آیا بلکہ عراق کے اہم ترین شیعہ رہنما آیت اﷲ علی سیستانی نے بھی کیا کہ نو منتخب پارلیمان ملک کے نئے وزیر اعظم ، پارلیمان کے اسپیکر اور صدر کے عہدوں کیلئے افراد کا چناؤ کرلیں۔

آیت اﷲ سیستانی کے اس بیان سے قبل انتخابات میں کامیاب ہونے والی شیعہ جماعتوں ، بشمول نوری المالکی کی سربراہی میں قائم سیاسی اتحاد"اسٹیٹ آف لا "کے مشترکہ اجلاس میں وزارت عظمی کیلئے متفقہ امیدوار لانے پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔آٹھ سال تک وزیر اعظم رہنے کے بعد چار سال کی تیسری مدت کیلئے وزیراعظم بننے کے خوائش مند نوری المالکی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی سنی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے سے اب بھی انکاری ہیں ۔شائد یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں تشکیل پانے والے نئے سیاسی نظام کے تحت ملک کا وزیر اعظم شیعہ ہوتا ہے جب کہ پارلیمان کا سپیکر سنی اقلیت کی نمائندگی کرتا ہے، ملک کے صدر کو برائے نام اختیارات حاصل ہیں اور یہ عہدہ کرد شخصیت کیلئے مخصوص ہے ، سنی مسلک جماعتوں کے ساتھ اس بار عراق کے نیم مختار کرد علاقے کے صدر بھی نوری المالکی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔

آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ عراق و سیریا) نے ملک کے پانچ بڑے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے ۔ان اضلاع کا مجموعی رقبہ عراق کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔اب ان جنگجوؤں کی نظریں بغداد پر ہیں۔ انتظامی طور پر بغداد کے دفاعی پوائنٹس میں "محمودیہ"عراق کے جنوب میں واقع ہے پانچ لاکھ نفوس کی اس علاقے کے راستے سے ہی4اپریل2003ء امریکی فوج بغداد میں داخل ہوئیں اور پانچ روز کی لڑائی کے بعد دارالحکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔بدنامازمانہ ابوغریب جیل سے شہرت پانے والا علاقہ "ابو غریب"کے ساڑھے سات لاکھ آبادی والے اس علاقے میں بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی موجود ہے۔'التاجی"شمالی بغداد میں واقع ہے شہر میں ایک بڑا فوجی اڈا بھی ہے جوپچاس لاکھ ونفوس کی آبادی والی شہر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔جنوب مشرقی بغداد میں واقع '"مدائن" واقع ہے سلمان بک اس کا اہم ترین دفاعی مرکز ہے۔جبکہ آبادی ایک لاکھ ہے ۔" الطارمیہ"شمالی بغداد کا اہم ترین مقام اور آبادی نصف ملین ہے۔"استقلال"اس کا دوسرا نام"حسینہ"ہے یہ مقام مشرقی بغداد میں واقع اور اس میں الراشدیہ گنجاب آباد شہر اور مجموعی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے۔

اہم بات یہی ہے کہ مذکورہ تمام مقامات کسی نہ کسی دور میں شیعہ ، سنی فسادات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بھی رہے ہیں، جس علاقے میں جس مکتب فکر کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہ انہی کی بالادستی کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور تما م اہم مقامات میں مسلح جنگجو گروپ موجود ہیں۔آئی ایس آئی ایس (سلامک اسٹیٹ عراق سیریا) یا دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کی جانب سے موصل کی فتح کے بعد تیزی سے بغداد کی جانب پیش قدمی کے سبب نوری المالکی نے دارالحکومت کو بچانے کیلے "اسی دفاعی لائن"کو مضبوط بنانے کیلئے سخت ترین حفاظتی انتظامات کئے ہیں لیکن عراق میں آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ عراق وسیریا) یا دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش)کے سامنے عراقی فوج کی پسپائی کے رجحان کے تحت اہم انتظامات کو بھروسہ مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں موجود ایک تنظیم" انجمن حیدری (رجسٹرڈ) دہلی کی جانب سے عراق بھیجنے کیلئے دس لاکھ افراد کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے ، خوائش مند افراد سے رجسٹریشن کے لئے پاسپورٹ کی کاپی اور دو فوٹو گراف بھی طلب کرتے ہوئے بھارتی اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات بھی جاری کئے گئے ہیں۔

عراق میں برائے نام حکومت ہے اور اصل طاقت امریکہ کے پاس ہی ہے ، تیل کی عراقی دولت کو برطانیہ اور امریکہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں عراق کی تیل کی دولت کو پہلے برطانوی کمپنیوں نے خوب لوٹا ، بعث پارٹی نے برطانوی کمپنیوں سے جان چھڑائی تو فرانسیسی چنگل میں پھنس گئے پھر عالمی طاقتوں نے عراق کو ایران جنگ میں پھنسا کر خوب برباد کیا اور امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اسرائیل نے عراق کو بے تحاشا اسلحہ بیچا اور عراق کے قرضے ایک سو بیس ارب دالر تک پہنچ گئے ۔عراق میں تعمیر نو کے نام پر نوے فیصد ٹھیکے امریکی کمپنیوں اور باقی برطانوی اور کچھ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کو مل رہے ہیں جو مہنگا کام کرنے میں مشہور ہیں اور یوں لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار عراق میں گرم ہے اس کے علاوہ یہ دور ایک خون آلود دور کے طور پر یاد کیا جائے گا کیونکہ ان چند سالوں میں اتنی عراقی عوام قتل ہوئی ہے جو پچھلے پچاس سال میں نہیں ہوئی ، استعماری طاقتیں سنی ، شیعہ اور کرد مسلمانوں میں اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ عراق کی تقسیم کی صورت میں نکل سکتا ہے اس کے علاوہ امریکہ کی نظریں پاکستان اور افغانستان پر لگی ہوئی ہیں جو اس وقت ہر طرف سے امریکی افواج کے درمیان گھری ہوئی ہے ۔جو کھیل عراق ، شام میں کھیلا جا رہا ہے ، اب افغانستان میں بھی کھیلا جائے گا اور پاکستان میں پہلے ہی فرقہ وارانہ عدم برداشت کو ہوا دیکر عراق کی صورتحال پیدا کرنے کی منصوبہ بندی پرعالمی استعماری قوتیں مصروف ہیں۔

اتحادی افواج نے مختلف طریقوں سے شیعہ سنی تفرقہ پھیلا کر اپنی موجودگی کا جواز پیدا کیا ہوا ہے اور اب فرقہ وارنہ تشدد کی ہوا مزید ممالک کو مسلک کے نام پر موجودگی کا جواز دے رہی ہیں۔حال ہی میں عراقی پولیس نے چندنقاب پوشوں دہشت گردوں کو پکڑا جو ایک مسجد میں دہماکہ کرنا چاہتے تھے یہ انگریز تھے ، انھیں ایک جیل میں رکھنے کے تھوڑی دیر بعد برطانوی افواج نے جیل پر حملہ کرکے دیوارا توڑ کر قیدی رہا کروالئے، ایک پرانی غیر استعمال شدہ تیل کی پائپ لائن بھی بحال کی گئی جو اسرائیل تک جاتی ہے ۔ یقینی طور پر عراق میں ایک کمزور حکومت قائم ہے جو نہ امریکہ کے خلاف کچھ کرسکتی ہے اور نہ علاقائی خانہ جنگی کرسکتی ہے۔بہرحال عراق کی صورتحال کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا کیونکہ پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ عدم برداشت کی فضا گھمبیر ہے اور عراق کی تمام تر داخلی صورتحال سے پاکستان کی عوام صرف ِ نظر نہیں کرسکتی۔عراق اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ عراق ایک بار پھر تقسیم ہو رہا ہے جس سے خطے میں اثرات بھی پڑیں گے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666543 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.