ایک عام سا ڈائیلاگ جوہمیں روز سننے کو ملتا ہے محض اِک
لطیفہ بن کے رہ گیا ہےـ’’میں اپنے ملک کے لیے مر مِٹ جاؤں گا،یہ کرلوں گا
وہ کرلوں گا ‘‘ واہ! کیا بات ہے جوش و جذبہ کی بات ہوتو ہمارے مقابلے میں
دور دورتک کوئی نہیں الفاظ کہنے میں تو ہم بہت ماہر ہیں ،آسمان کو چھْو تو
لیا لیکن صرف باتوں باتوں میں، گفتار کے غازی توبن گئے لیکن کردار؟؟؟بس
اِسی بات پہ پرکچھ دن سے سوچ بچار کر رہا تھا کہ اچانک علامہ ڈاکٹرطاہر
القادری صاحب نے ملک میں ایک نئے سیاسی موڑ کو جنم دیاجس پر ہمیں نا قابلِ
تلافی نقصان بھی اٹھانا پڑ ااور اسی واقعہ نے میرے سامنے کچھ ایسی امثال
پیدا کیں جنہوں نے مجھے پریشان نامی بیماری لاحق کردی۔اْن میں سے ایک مثال
میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔اکیڈمی میں تشریف فرماں تھے سب لیکن کسی
وجہ کے باعث استاد جی لیٹ تھے تو ہم نے سیاست کواپنا موضوعِ گفتگو بنایااور
آ پ سب یہ تو جانتے ہیں کے سیاست اِک بحث و مباحثہ کے علاوہ کچھ نہیں ۔اس
بحث میں کچھ ایسے چہرے جن کی آواز میں نے کبھی کلاس میں نہیں سنی مطلب یہ
نہیں کہ کبھی شورنہیں کیا بلکہ استادسے کبھی سوال نہیں کیا جو پڑھا یا گیا
بے شک سر کے اوپر سے گزرا یا دماغ کے اندر بیٹھا کبھی سوال کرنے کی جراٗت
نہیں کی شایداسی لیے سوال نہیں کرتے کہ بولتے وقت انسان کے 72اعضاء ہلتے
ہیں اور سب سے زیادہ انرجی لگتی ہے یا پھر اُنہیں اِن کا ڈر سوال نہیں کرنے
دیتا لیکن مجھے میرے پہلے خیال کی صحت پر ذراشک ہے ۔آج ہمارا المیہ ہی یہ
ہے کہ ہمارا ڈر ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتا ۔آپ خود ہی سوچیں کہ وہ شخص جو
اپنے حق کے لیے آواز نہیں بلند کرسکتا وہ کیا خاک ملک کی تقدیر سنوارے گا
وہ کسی انگریزنے کہا تھا نا کہWell Done is Better Than Well Said؛ میرے ہم
جماعت ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے آج یہ ملک کی تقدیر بدل کر ہی سانس لیں
گے لیکن افسوس اپنی تقدیر نہیں بدل سکتے ۔کہنے کو ہم اقبال کے شاہیں ہیں
لیکن اقبال کے شاہین ہونے کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم بزدلوں کی طرح چُپ رہیں
یا صرف زبان کو حرکت دیں۔اقبا ل کا شا ہین اپنی تقدیر خود لکھتا ہے ، اپنے
آپ کو پہچانتا ہے، خودی پہ یقین رکھتا ہے ، اس کی پرواز آ سمان سے بھی پرے
ہے ، وہ منزل کی جستجو میں نہیں کھوتا بلکہ اپنے آپ کو ایسا بناتا ہے کہ
منزل اسے پکارتی ہے، بہار کا سورج اُسے جھک کر سلام کرتا ہے ۔حیف صد حیف!آ
ج اگر ہم بحرِتدبر میں غوطہ زنی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عوجِ ثریاپر قدم
جمانے والے آج پاتال کے بھی آخر ی د رجے پر ہیں۔اس کی وجہ اور کچھ نہیں
بلکہ ہم خود ہیں حکومت کا رونا تو اِک عارضی شے ہے لیکن کیا کبھی ہم نے
اپنے یندر جھانک کے دیکھا؟؟؟ ہمارا ڈر ہی ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتا ہماری
قوم کے 90%جوانوں میں Confidenceکی کمی ہے جو اُن کی ناکامی کا سبب بنتی ہے
اور کسی بھی ملک کی ترقی یا تنزلی اس کے جوانوں کی مرہونِ منت ہے ۔اے میرے
ہم وطنو کب تک ڈرڈر کے جیو گے کب تک ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہوگے
یہ ملک وہ ملک ہے جس کی بنیادوں میں اینٹیں یا پتھر نہیں بلکہ شہیدوں کا
لہو ہے آج ہم اپنے لیے نہیں جی رہے تو ملک کے لیے کیا کریں گے دوستو اٹھو
اور کچھ کر دکھاوٗملک نہیں تو کم سے کم اپنے آپ کو ٹھیک کرلواگر ہم سب صرف
اپنے آپ کو ہی ٹھیک کر لیں تو یقین کرہ ہمارا ملک اک دفعہ پھر اپنا کھویا
ہوا مقام حاصل کر لے گاصرف ضرورت ہے اپنے آپ کو بدلنے کی۔۔۔
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا۔ |