امریکا ڈر گیا یا تھک گیا؟ (پہلی قسط)
(Sami Ullah Malik, London)
پچھلے چندہفتوں سے ایک مرتبہ
پھرعراق سے بہت ہی خوفناک خبروں کاسلسلہ شروع ہوگیاہے اوریوں لگتاہے کہ
استعمارنے عرق کومکمل طورپرنیست ونابودکرنے کی نئی مذموم ومسموم حکمت عملی
پرعملدرآمدشروع کردیاہے۔اس ملک کومشرقِ وسطیٰ کے دوسرے شام کادرجہ دینے کی
سازشوں کوعملی جامہ پہنایاجارہاہے۔المیہ یہ ہے کہ عا لم عرب اورعالم اسلام
کوصورتحال کی سنگینی کا کماحقہ ادراک ہے اورنہ ہی احساس،المیہ مزیدیہ ہے کہ
استعمارکوحرم سے ہی صنم دستیاب ہورہے ہیں۔ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے
مطابق صدراوباما نے کانگرس کے سنیئراراکین کوبتایاکہ انہیں عراق میں کسی
قسم کی کاروائی کیلئے کانگرس کی اجازت کی ضرورت نہیں۔یہ بات سینیٹ کے اہم
رکن مچ مکانل نے اوباما اورکانگرس کے سنیئررہنماؤں سے ملاقات کے
بعدکہی۔ملاقات سے پہلے سینیٹ کے قائد ایوان ہنری ریڈکہہ چکے ہیں کہ وہ عراق
میں امریکی فوج کی کسی قسم کی مداخلت کے حامی نہیں ہیں۔اس کے برعکس امریکی
حکام نے خبررساں ادارے اے پی کوبتایاکہ امریکاعراق میں سیکورٹی فورسزکی
تربیت کیلئے مختصر پیمانے پراسپیشل فورسزکی چھوٹی موٹی کاروائیوں کے بارے
میں غورکررہے ہیں۔
آئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں کے سرحدی چوکیوں پر قبضے کے بعد یہاں حکومت کی
عمل داری بظاہر ختم ہو گئی ہے۔ عراقی حکام کے مطابق باغیوں نے انبار صوبے
میں دو چوکیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔باغیوں نے گذشتہ دنوں میں عسکری اہمیت کے
حامل اہم قصبوں پر قبضہ کیا ہے جو سنی اکثریت کے صوبے انبار میں واقع ہیں۔
ان میں قائم، رطبہ، رواہ اور عناہ شامل ہیں۔ایک قبائلی رہنما کا کہنا ہے کہ
صوبے کا ۹۰ فیصدعلاقہ باغیوں کے ہاتھوں میں ہے اور اس ساری کارروائی کے
آغاز سے قبل بغداد کے مغربی کنارے پر۳۰کلومیٹر دور فلوجہ کے علاقے پر ان
باغیوں کا جنوری سے قبضہ ہے اور اس کے ساتھ ہی صوبے کے دارالحکومت رمادی کے
نصف حصے پر بھی قبضہ تھاجب باغیوں نے خون خرابے سے بچنے کیلئے فوجیوں اور
پولیس کو محفوظ راستہ فراہم کیا تو کئی مقامات پر انہوں نے اپنی چوکیوں کو
چھوڑنے میں عافیت جانی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف سیاست دانوں اور مغربی سفارت کاروں کا
کہنا تھا کہ جس طرح سرکاری فوجیں شدت پسندوں کے خلاف بے بس نظر آ رہی ہیں
اس پر بغداد میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے
کہ شدت پسند جنگجو سرکاری فوجیوں سے بہتر تربیت یافتہ ہیں اور ان کے پاس نہ
صرف لڑنے کا بہتر تجربہ ہے بلکہ ان کے پاس فوج سے بہتر اسلحہ بھی موجود
ہے۔عراقی وزیرِاعظم نوری المالکی پر الزام لگتا رہا ہے کہ ان کی سنی مخالف
پالیسیوں کی وجہ سے کچھ سنی شدت پسند جہادی تنظیم دولت اسلامی عراق و شام
میں شامل ہوگئے ہیں اور عراقی فوجیوں کے خلاف جاری لڑائی میں حصہ لے رہے
ہیں۔عراقی فضائیہ کے پاس موجود امریکی ہیل فائر میزائل دو ہفتے پہلے ختم ہو
گئے تھے اور فضائیہ کے پاس صرف دو سیسنا طیارے ہیں جن سے یہ میزائل داغے جا
سکتے ہیں۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ عراقی فضائیہ اگر طیاروں سے بمباری
کرتی ہے تو اس سے عام شہریوں کے مارے جانے کا بھی خدشہ ہے۔عراقی سکیورٹی
حکام کا کہنا ہے کہ اسے روس سے جنگی طیاروں کی پہلی کھیپ مل گئی ہے جسے اس
نے سنی باغیوں کے خلاف لڑنے کے لیے منگوایا ہے۔ ہفتہ کو ملنے والے پانچ
سکوئی نامی جنگی طیارے کچھ ہی دنوں میں ملکی فضائیہ میں شامل ہو جائیں گے،
باقی ماندہ طیاروں کی کھیپ بھی جلد ہی پہنچنے والی ہے۔دوسری جانب روسی خبر
رساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ عراق کے ہوائی اڈے پر دس طیارے پہنچ گئے ہیں۔
ادھر عراقی حکومت نے امریکاسے باقاعدہ طورپردرخواست کررکھی ہے کہ وہ گزشتہ
دوہفتوں کے دوران عراق کی مغربی سرحد پر اردن اور شام کی سرحدی چوکیوں
اورعراق کے کئی اہم شہروں اورقصبوں پرقبضہ کرنے والی دولت اسلامی عراق وشام
(داعش)سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پرفضائی حملے کرکے ان
کونکال باہر کرے۔علاوہ ازیں عراق کے وزیر ِ اعظم نوری المالکی نے تصدیق کی
کہ شام کے جنگی طیاروں نے اس کی حدود میں سرحدی قصبے قائم میں منگل کو شدت
پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جبکہ عراق نے ایسی کسی کارروائی کا مطالبہ
نہیں کیا تھا، تاہم اسلامی شدت پسند گروہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامی عراق
و شام (داعش)کے خلاف کسی بھی کارروائی کا خیرمقدم کیا جائے گا۔یاد رہے داعش
اور سنی مسلمانوں کا اتحاد عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے جن میں
عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل بھی شامل ہے۔
ادھر امریکی نائب صدرجوبائیڈن نے عراقی وزیراعظم نوری المالکی سے فون پربات
کرتے ہوئے امریکاکی جانب سے’’اضافی اقدامات‘‘کے بارے میں غورکیا۔اس سے قبل
بدھ کوواشنگٹن میں امریکی سینیٹروں کے سامنے ایک بیان دیتے ہوئے امریکی فوج
کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہاکہ انہیں عراقی حکومت کی طرف سے فضائی
مددفراہم کرنے کیلئے کہاگیاہے۔داعش کے شدت پسندوں کے خلاف کاروائی
خودامریکاکے مفادمیں ہے۔داعش کے شدت پسندوں نے بیجی میں واقع ایک تیل کے
کارخانے پرقبضہ کررکھا ہے ۔نورالمالکی نے شدت پسندوں کے خلاف عراقی شہریوں
سے متحدہوجانے کی اپیل کی تھی۔حکومتی فورسزداعش کے شدت پسندوں اوراتحادیوں
کودیالی اورصلاح الدین صوبوں اورموصل سے نکالنے کیلئے برسرپیکارہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہاگیاہے کہ چارفوجی کمانڈروں کوقومی فریضے کی انجام
دہی میں ناکامی کی پاداش میں برطرف کردیاگیاہے۔برطرف کئے گئے فوجی افسروں
میں نینواصوبے کے کمانڈربھی شامل ہیں۔ نینوا پہلا صوبہ ہے جہاں داعش کے
جنگجوؤں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔خوف و ہراس کایہ عالم ہے کہ
بغدادمیں غذائی اجناس کی کوئی کمی نہیں تاہم عراق کے دارلحکومت بغدادکے
شہری غلہ وپانی کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں کیونکہ جنگجوشہرکے مزیدقریب
آگئے ہیں۔تادمِ تحریرداعش میں جنگجوؤں اورسیکورٹی فورسزکے درمیان بغداد سے
صرف ۶۰کلومیٹرکے فاصلے پربعقوبہ کے مقام پرجنگ جاری ہے ،عراق کے اکثرشہروں
میں روزانہ دہماکے ہورہے ہیں جبکہ بغدادکے لوگوں میں ذہنی طورپر محصورہونے
کی کیفیت پیداہوگئی ہے۔بغدادکے شہری فکرمندہیں کیونکہ حملہ آورتیزی کے ساتھ
شمال اورمغرب کی جانب سے شہرکی طرف بڑھ رہے ہیں۔ادھربغدادمیں امریکی
سفارتخانے کی حفاظت کیلئے ۲۷۵/امریکی کمانڈوتعینات کئے جاچکے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی عسکری مشیروں کی حفاظت کے لیے
مسلح امریکی ڈرون طیارے ملک کی فضائی حدود میں پرواز کریں گے۔عراق میں شدت
پسند گروہوں کی جانب سے ملک کے شمالی علاقے میں متعدد قصبوں پر قبضے کے بعد
امریکی اہلکار عراقی فوج کی مدد کے لیے تعینات کئے جا رہے ہیں۔یہ ڈرون
طیارے روزانہ تقریبا ۴۰پروازیں کریں گے جن کا مقصد مختلف علاقوں کی نگرانی
کرنا ہوگا۔یاد رہے کہ حال ہی میں عراق میں اہم ترین شیعہ رہنما نے وزیراعظم
کی جلدتعیناتی کا کہا تھا۔ آیت اﷲ سیستانی کا کہنا تھا کہ منگل کو نئی
پارلیمان کے اجلاس سے قبل حکومتی عہدے ُپر ہونے چاہئیں۔دنیا بھر سے عراق
میں ایک قومی اتحادی حکومت کی تشکیل کے مطالبے سامنے آئے ہیں تاہم مختلف
سیاسی گروہ اس قسم کا معاہدہ نہیں کر سکے ہیں۔اتوار کو ایران کے روحانی
پیشوا آیت اﷲ علی خامنہ ای نے امریکہ کی عراق میں مداخلت کی مخالفت کرتے
ہوئے واشنگٹن پر الزام عائد کیا کہ وہ عراق پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے
اور عراق پر اپنے چمچوں کے ذریعے حکومت کرنا چاہتا ہے۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون چندروزپیشتراپنے سیکورٹی مشیروں سے اس بحران
پربات چیت کرچکے ہیں،دوسری جانب نوری المالکی نے بھی ’’قومی اتحاد‘‘کی اپیل
کی ہے کہ فرقہ وارانہ مخاصمت سے بچیں۔اصل ضرورت یہ ہے کہ عراقی حکام اپنے
شہریوں کوشیعہ سنی کی تقسیم سے نجات دلائیں اورفرقہ وارانہ منافرت کم کرنے
کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کریں بصورت دیگرعراق کومشرقِ وسطیٰ کادوسراخون
آشام ،شام بننے سے روکنامحال ہوگا(خدانخواستہ)۔عراق کی حفاظت سنجیدہ
فکردانشوروں کامشترکہ مسئلہ ہے۔نیویارک ٹائمزکی نصیبہ یونس نے اپنے تازہ
تجزیاتی مضمون میں امریکابہادرکے شیعہ سنی تفریق کانوٹس لیاہے۔انہوں نے
’’عراق کی حفاظت؟‘‘کے عنوان سے لکھاہے:
’’اسلام پسندوں سے موصل شہرکاقبضہ واپس لینے اوران کی بغدادکی طرف پیش قدمی
روکنے کیلئے اوباماانتظامیہ کوعراقی حکومت کی فوری مددکرنی چاہئے لیکن فوجی
امدادہی کافی نہیں ہو گی ۔ہم نے یہ بھی سناہے کہ فوجی کاروائیوں کے ذریعے
سیاسی معاملات حل نہیں ہوتے جب تک اہل تشیع کی سربراہی میں قائم عراقی
حکومت ان انقلابی اصلاحات کونہیں اپناتی جو عراق کی سنی اقلیت کے مسائل کے
حل کیلئے ممدومعاون ثابت ہوں۔اس وقت تک امریکی ہتھیارمحض جلتی پرتیل ڈالنے
کے مترادف ہوں گے اورملک آگ وخون کے کھیل میں مزید دھنس جائے گا۔عراق کے
دوسرے بڑے شہرموصل پراسلام پسندوں کے اس دھڑے نے قبضہ کرلیاہے جوالقاعدہ سے
الگ ہوچکاہے اورجسے اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا(ISIS) کہاجاتاہے۔یہ
گروہ شام کی خانہ جنگی میں ایک غالب قوت کی حیثیت رکھتاہے جوخطرناک حدتک
اپنے مقصدکے حصول کے نزدیک ہے جوعراق اورشام میں اپنی حکومتوں کے قیام کے
خواہاں ہے۔امریکاکویہ صورتحال منظورنہیں ہونی چاہئے اوربلاشبہ
اوباماانتظامیہ عراق میں اپنی فوج اتارنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔عسکریت
پسندوں کی فتح سے معلوم ہوتاہے کہ صورتحال کتنی پیچیدہ ہے۔جب آئی ایس آئی
ایس کے جنگجوموصل میں داخل ہوئے جوسنی اکثریت کاشہرہے،انہیں عملی طورپرکسی
مزاحمت کاسامنانہیں کرنا پڑا ۔ موصل شہرکے اندراورباہرمسلح فوجیوں نے اپنی
وردیاں اتاریں اورفرارہوگئے ،نیزپانچ لاکھ مکین بھی شہرچھوڑچکے ہیں۔
موصل پراپناقبضہ مستحکم کرنے کے بعدعسکریت پسندجنوب کی طرف اپنی پیش قدمی
کرتے ہوئے قلیارہ ہوائی اڈے پرقبضہ کرنے کے بعداب تکریت پربھی اپنا تسلط
جما لیا ہے اور اب وہ بغدادسے کچھ فاصلے پرموجودہیں۔موصل پرقبضے کے بعدجنگ
کانقشہ تبدیل ہوچکاہے کیونکہ یہ شہرایک تجارتی،سیاسی اورفوجی مرکزہے۔عسکریت
پسندوں نے امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں پربھی قبضہ کرلیاہے۔موصل نینواصوبے
کے مرکزمیں واقع ہے جس کی سرحدشام کے ساتھ متصل ہے،جہاں موجوداپنے ساتھیوں
کے ساتھ ان عسکریت پسندوں نے ہتھیاروں،رقوم اورافرادکاتبادلہ بھی کیاہے
جوبشارالاسدکی حکومت کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ کرکوک ترکی کے شہرسہبیان
کوجانے والی عراق سے ایک پائپ لائن قریب ہی ہے۔(باقی اگلی قسط میں) |
|