قومی اسمبلی سے تحفظ پاکستان بل 2014ء منظور، بل پر ووٹنگ چھ منٹ میں مکمل

 جماعت اسلامی نے بل کی بھرپور مخالفت کی جبکہ تحریک انصاف نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ بل 2 سال تک نافذ العمل رہے گا اور اس کے بعد خود بخود ختم تصور ہوگا، حکومتی رٹ چیلنج کرنے والوں، فرقہ واریت، تشدد اور دہشت گردی پھیلانے والوں کیخلاف کارروائی کی جا سکے گی، دہشت گردوں یا مشتبہ افراد کو گولی مارنے کا حکم گریڈ 15 اور اس سے اوپر کا سرکاری افسر دے سکے گا، گولی مارنے کا حکم سب سے آخری حربے کے طور پر استعمال ہو گا، اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بل میں 8 مختلف سیف گارڈز رکھے گئے ہیں، سرچ آپریشن کی ضرورت پر 2 دن کے اندر عدالتی مجسٹریٹ کے سامنے وضاحت پیش کرنا ہو گی، ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کر کے 60 دن کر دی گئی ہے، کسی بھی متاثرہ فریق کو خصوصی عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزا کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا، سزا کی مدت 10 سال سے بڑھا کر 20 سال کر دی گئی ہے، ملزم کیخلاف موبائل فون کا ریکارڈ بھی قابل قبول شہادت ہو گا۔ بل کی منظوری سے ملک دشمن عناصر کے عزائم خاک میں ملانے میں مدد ملے گی۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ تحفظ پاکستان بل 2014زیر غور لایا جائے۔ زاہد حامد نے کہا کہ اس بل پر ان جماعتوں سے بھی مشاورت کی گئی جن کی سینٹ میں نمائندگی نہیں ہے جس کے بعد یہ بل 30 جون کو ایوان بالا سے اتفاق رائے سے منظور ہوا۔ موجودہ صورتحال میں بھی یہ بل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بل میں غیر ملکیوں، شدت پسندوں، غیر ملکی دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کی جا سکے گی۔ اس سلسلے میں کوئی اختیارات کا غلط استعمال کرے گا تو سیکورٹی ادارے اندرونی تحقیقات کے ذریعے کارروائی کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ عدالتی تحقیقات بھی کرائی جا سکیں گی۔ پہلے ایک اپیل تھی اب دو اپیلیں ہیں، پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جا سکے گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک فوج کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دفاع وطن کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس بل کے حوالے سے ہمارا موقف تھا کہ اس بل کو عجلت میں منظور نہ کیا جائے۔ ہماری اس بات کو ایوان میں اہمیت نہیں دی گئی۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کے شکر گزار ہیں جنہوں نے مداخلت کی اور مشاورت کا عمل مکمل کر کے بل ایوان میں لایا گیا ہے۔ سینٹ کی ترامیم بل میں شامل کرنے پر حکومت کے شکرگزار ہیں۔ اہم بل کی منظوری کے موقع پر وزیر داخلہ کو ایوان میں موجود ہونا چاہئے تھا۔ اتفاق رائے ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ جن حالات میں یہ بل لایا گیا ہے ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے، اس لئے ہم اس بل پر ووٹ نہیں دینگے بلکہ لاتعلق رہیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ریاست کی عملداری قائم کرنے، ملک اور عوام پر جنگ مسلط کرنے والوں کیخلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہمارا اصرار یہی تھا کہ حکومت، فوج، پارلیمنٹ سمیت پوری قوم کو ایک صفحہ پر ہونا چاہئے۔ دہشت گردی سے ملک کو نجات دلانے کیلئے سخت سے سخت قانون لانے سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ بل آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہئے۔ ایوان بالا سے پی پی او بل جس شکل میں منظور ہوا ہے اس میں بھی مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے ملک میں جو بھی قوانین رائج ہیں ان پر نظرثانی ہونی چاہئے تاہم یہ قوانین آئین میں موجود انسانی حقوق کی شقوں سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔ تحفظ پاکستان بل بھی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ مجرموں اور دہشت گردوں کو بے شک پھانسی پر لٹکایا جائے مگر بے گناہ اور مظلوم لوگوں کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ بل میں دہشت گردی کی تعریف نہیں کی گئی۔ جب تک افغانستان کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی اور امریکہ وہاں سے نہیں نکلتا قبائلی علاقوں کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ 15 گریڈ کے افسر کی بجائے گولی چلانے کا حکم 17 ویں گریڈ کے افسر کے پاس ہونا چاہئے۔ انہوں نے تجویز دی کہ آئی ڈی پیز کی مدد کیلئے دو سے تین ماہ کیلئے پٹرول پر فی لیٹر 5 روپے اور ہر بجلی کے بل میں 10 روپے لگا دیئے جائیں۔ خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ایوان بالا میں تحفظ پاکستان بل میں 21 ترامیم منظور ہوئیں۔ ہمیں سینٹ کے اس کردار کو سراہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بل کی پیپلز پارٹی دوسال تک نگرانی کرے گی کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بل کی منظوری کے موقع پر وزیر داخلہ کی غیر موجودگی کے خلاف اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ بل کی منظوری کے لئے جلد بلائے گئے خصوصی اجلاس میں حکومت اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور اکثر ارکان ایوان سے غائب رہے۔ تحفظ پاکستان بل کے متن میں کہا گیا ہے کسی بھی شرپسند پر گولی چلانے سے قبل اسے وارننگ دینا ہو گی۔ قانون کے تحت کسی شخص کو حراست میں لینے کیلئے وارنٹ کی پابندی نہیں ہو گی۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے بیان شمالی وزیرستان کے متاثرین پر سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اپنے دروازے بند کردیئے ہیں، پر ایوان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی ہوگئی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ سندھ میں ایک کروڑ پشتون رہتے ہیں مگر دہشت گردوں کو روکنے کے لئے لوگوں کو چیک کیا جاتا ہے اس کے بعد تحفظ پاکستان بل کی منظوری کے عمل کے دوران سید خورشید احمد شاہ اٹھ کر شاہ محمود قریشی کی نشست پر گئے جس کے بعد دونوں رہنما کافی دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ ایک دوست مسلم ملک سے ملنے والے ڈیڑھ بلین ڈالرز سٹیٹ بینک میں کھولے گئے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ (پی ڈی ایف) اکانٹ میں جمع کرائے گئے ہیں کوئٹہ میں میٹرو بس شروع کرنے کا کوئی منصوبہ وفاقی حکومت کے زیر غور نہیں ادارہ شماریات نے پاکستان میں مردم شماری کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور دس ماہ کے نوٹس پر مردم شماری اور خانہ شماری کرانے کیلئے تیار ہیں سی سی آئی کے فیصلے کا انتظار ہے 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 98 ہزار ممکنہ ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کئے گئے جس کے جواب میں 13 ہزار سے زائد افراد نے گوشوارے جمع کرائے ہیں جس سے محصولات میں 7100 ملین روپے اضافہ ہوا رواں مالی سال ایک لاکھ مزید ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔
Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 57744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.