پاکستانی ریاست کے بارئے میں کہا
جاتا ہے کہ ریاست کے چار ستون ہیں یعنی سیاست دان، فوج، عدلیہ اورمیڈیا۔
پاکستان کے ابتدا میں صرف دو ستون تھے سیاست دان اور فوج، لیکن جب پاکستان
کے ایک ستون فوج کی ریاست میں مداخلت بڑھی تو اس مداخلت کو قانونی اور
آئینی قرار دینے کےلیے انصاف کرنے والے ججوں نے آمروں کا ساتھ دیا ، انہوں
نے آمروں کی حکومتوں کو نہ صرف قانونی قرار دیا بلکہ اُسے آئین میں ترامیم
تک کا حق بھی دئے دیا ، عدلیہ کے اس کردار سے اُسے ریاست کے تیسرئے ستون کی
حیثیت مل گئی، اورجب پرنٹ میڈیا کے عروج کے بعد اکیسویں صدی کے آغاز میں
دنیا الیکٹرانک میڈیا کے دور میں داخل ہوئی اور الیکٹرانک میڈیا کی
پرائیوٹائزیشن نے اپنے قدم جمائے تو پاکستان بھی گلوبل ویلج کا حصہ بن کر
اس سے محفوظ نہ رہ سکا، جب ہمارئے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، عسکری
اورانصاف مہیا کرنے والے حلقےاس کے اثر سے نہ بچ سکے تو میڈیا کوریاست کے
چوتھے ستون کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ آج یہ چاروں ہی ستون متحرک ہیں
لیکن اس مضمون کے لکھنے کا مقصداعلی عدلیہ کے ایک سابق جج اورایک سیاست دان
کے ایک دوسرئے کے آمنے سامنے آنا ہے، میری مراد سپریم کورٹ کے سابق چیف
جسٹس افتخارمحمدچوہدری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ہے۔
جسٹس محمد منیر، جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس انوارالحق، جسٹس نسیم حسن شاہ،
سابق پاکستانی صدرجسٹس رفیق تارڑ اور جسٹس افتخارمحمدچوہدری پاکستان کے وہ
جج ہیں جو آمروں کا ساتھ دیتے رہے، جسٹس محمد منیر سے لیکرجسٹس افتخار
محمدچودھری تک سب نے آمروں کی خدمت کی ہے۔ بارہ اکتوبر 1999 کو آئین کو
عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے عبوری آئین جاری کیا گیا۔ سابق صدر پرویزمشرف
کی فوجی حکومت کو تین سال کام کرنے کی اجازت اورآئین میں ترمیم کرنے کا
جواختیار دیا گیا تھا اُس میں جسٹس افتخار محمدچودھری شامل تھے جنکو 4
فروری 2000ء کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اورانہوں نے پی سی او کے تحت
حلف اٹھایا، 30 جون 2005ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔
سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے آہستہ آہستہ اپنا رخ بدلا اور کچھ
معاملات میں حکومت کے خلاف فیصلے دیئے اور نو مارچ 2007ء کو مشرف کے
احکامات ماننے سے انکارکردیا، مشرف نے اُنکو عدلیہ سے علیدہ کیا تو وکیلوں
کو ساتھ ملاکر لیبر لیڈروں کے انداز میں اپنی بحالی کی تحریک چلائی، اس
درمیان میں سابق صدر پرویز مشرف سے سیاسی غلطیاں ہوتی چلی گیں اور
افتخارمحمد چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک ایک بڑی سیاسی تحریک بن گئی، جس سے
سیاسی فاہدہ اٹھانے کےلیے حکومتی جماعتوں ایم کیو ایم اور قاف لیگ کےعلاوہ
تقریبا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں شمولیت اختیار کرتی چلی گیں، اس میں
تحریک انصاف بھی تھی تو جماعت اسلامی بھی، پیپلز پارٹی بھی اس تحریک کا حصہ
بنی اوراُسکی مرحوم لیڈر بینظیربھٹو تو افتخارمحمد چوہدری کے گھر پر
پاکستان کا جھنڈا دوبارہ لہرانے کا وعدہ بھی کرآیئں، لیکن اس سارئے کھیل
میں سابق چیف جسٹس کا مرحوم بینظیر بھٹو کی زبان میں چمک کا معاملہ نواز
شریف کے ساتھ طے تھا جو اب بھی چل رہا ہے، نواز شریف کو مشرف کے خلاف
آرٹیکل 6 کی لالی پاپ بھی افتخارمحمد چوہدری کی دی ہوئی ہے، افتخارمحمد
چوہدری نے جب وہ چیف جسٹس تھے جب اور اب سبکدوش ہونے کے بعدبھی حکومت سے وہ
فاہدئے اٹھارہے ہیں جس کے وہ حقدار نہیں ہیں، اپنے بیٹے ارسلان کو کرپشن
کیس سے صاف بچاگئے،اپنے عروج کے زمانے میں بھی اور بعد میں بھی فیصل رضا
عابدی کے لگائے ہوئے بےشمار الزامات میں سے کسی ایک الزام کا کبھی بھی جواب
نہیں۔
سابق چیف جسٹس جو گذشتہ سال بارہ دسمبر کو سبکدوش ہوچکے ہیں ، انہوں نے
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں
دھاندلی کا الزام عائد کرنے پر 20 ارب روپے کے نوٹس بھیج دیے ہیں جن میں 15
ارب کا ہتک عزت کا دعویٰ ہے اور 5 ارب روپے ذہنی اذیت پہنچانے کی وجہ سے
ہے۔ سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں جو عزت دی ہے اسے
مال کی ترازو میں تولا نہیں جاسکتا مگر ایک علامتی ہرجانے کے طورپر وہ
عمران خان سے 15 ارب روپے ہتک عزت کے زمرے میں طلب کرتے ہیں جبکہ مزید 5
ارب روپے ذہنی اذیت کی تلافی کے لئے طلب کرتے ہیں۔ اگر آئندہ 14 روز میں
عمران خان نے معذرت نہ کی یا ہرجانہ ادا نہ کیا تو عدالت میں مقدمہ دائر
کریں گے۔ چوہدری افتخار نے عمران خان کو جو نوٹس بھیجا ہے اُس میں عمران
خان کی جلسوں کی تقاریر، پریس کانفرنس اور تحریک انصاف کی طرف سے جاری کردہ
وائٹ پیپر کے حوالے شامل ہیں۔
عمران خان نے سابق چیف جسٹس پر اپنے دور میں 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی
کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ سابق چیف جسٹس نے انتخابات میں
مسلم لیگ ن کو فائدہ پہنچاکر تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا۔ عمران خان نے
انہیں مختلف جلسوں اور دیگر مقامات پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ عمران خان نے
افتخار چوہدری کے بیٹے کو بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کے نائب چیئرمین کا
عہدہ دیے جانے کو مسلم لیگ ن کی جانب سے سابق چیف جسٹس کی مبینہ خدمات کے
عوض انتہائی گھٹیا قیمت قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے عمران خان گیارہ مئی
2013ء کےعام انتخابات میں جودھاندلیاں ہوئیں اُس کے خلاف انہوں نے احتجاج
کیا اور 26 جولائی 2013ء کو عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کا ذمہ دار
الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو قرار دیتے ہوئے دونوں اداروں کو شدید تنقید
کا نشانہ بنایا۔عمران خان الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہہ
بیٹھیے "عدلیہ کا کردار شرمناک رہا"۔ سپریم کورٹ میں موجود بقول جسٹس جواد
ایس خواجہ "شیشے میں بند مچھلیاں" عمران خان کے پتھر "شرمناک" کو برداشت نہ
کرپایں اور عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ افسوس عدالت
پہنچنے پر عمران خان اپنے موقف پر قائم نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنے
الزامات ریٹرنگ آفیسرز کی طرف موڑ دیے، دو اگست کو عمران خان نے دو مرتبہ
اپنا جواب جمع کرایا مگر سپریم کورٹ نے عمران خان کے جواب کو مایوس کن
قراردیا اور ایک بار پھرجواب داخل کرانے کیلئے 28 اگست تک کی مہلت دی ہے۔
سپریم کورٹ یا افتخار محمدچودھری کی یہ خواہش تھی کہ عمران خان معافی مانگ
لیں مگرایسانہ ہوا۔ 28 اگست کوسپریم کورٹ نے عمران خان کے تحریری جواب پر
عدم اطمینان کا اظہار کیا، تاہم اٹارنی جنرل منیر اے ملک کے دلائل سُننے کے
بعد اس نوٹس کو خارج کردیا ہے۔اُس روز چیف جسٹس افتخاد محمد چوہدری دوسری
کسی اور عدالت میں پہنچے ہوئے تھے۔
اب جو نوٹس عمران خان کو ملا ہے وہ عدلیہ کی جانب سے نہیں بلکہ ایک شخصیت
افتخارمحمدچودھری کی طرف سے ملا ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے، امید ہے
اس مرتبہ عمران خان اپنے موقف پر قائم رہنگے۔ 20 ارب روپے کا نوٹس ملنے کے
بعد عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ افتخار محمد چودھری کی جانب سے نوٹس ملنے
پر خوش ہیں، اب سب کچھ سامنے لاونگا، عوام کو بتاونگا کہ دھاندلی کس نے اور
کس طرح کی، افتخار محمد چوہدری کو پتہ ہونا چاہئے کہ میری تربیت مقابلہ
کرنے کی ہے، انصاف نہ ملنے پر احتجاج کرنا میرا حق ہے۔ ویسے پاکستان میں
ہتک عزت کے مقدمات کی تاریخ دوسرئے ملکوں کی طرح زیادہ تابناک نہیں ہے۔ ہتک
عزت کا قانون موجود ہے اور بظاہر متاثر کن بھی ہے لیکن اس پر کبھی بھی
عملدرآمد نہیں ہوا، لہذا یہ قانون محض کاغذ کا ایک ٹکٹرا بن کر رہ گیا
ہے۔تاہم اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر
کیا تو "افتخار محمد چوہدری بمقابلہ عمران خان" کے اس مقابلے کا مستقبل کیا
ہوگا، ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ |