ہمت کریں․․․اعلان کریں

میرے آقا و مولا رحمت العالمین رسول کریم حضرت محمد ﷺنے فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو۔ میراکامل ایمان ویقین ہے کہ حضورؐ نے لیلتہ القدر تلاش کر لی تھی۔ اﷲ اور اس کے رسول محبوب کے پیارے لوگ سمجھتے ہیں کہ۲۷رمضان کی شب ہی لیلتہ القدر ہے۔نزولِ قرآن اور لیلتہ القدر کی بابرکت ساعتوں میں ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ بمطابق ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا عالمِ وجود میں آنا اﷲ تبارک و تعالیٰ کا مسلمانانِ برِعظیم کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے، یوں یہ ریاست مدینہ کے بعد دوسری اسلامی نظریاتی مملکتِ خدادا معرضِ وجود میں آئی۔پاکستان کے مسلمانوں کی لیلتہ القدر عطا کر دی گئی ہے۔ میں پاکستان کو قریہ عشق ؐمحمد کہتا ہوں۔ غزوہ ہند کی روایت ملتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہے؟ غزوہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں حضور بنفس نفیس شرکت فرماتے ہیں۔ شرکت کی کئی قسمیں ہیں۔ ساری عمرخانہ کعبہ کے سایہ میں گزارنے والے بابامصطفیٰ مستقیمی مرحوم فرمایاکرتے تھے کہ غزوہ ہند اسی طرح فتح سے ہمکنار ہو گی جیسے فتح مکہ ہوئی تھی۔ فتح مکہ بغیر لڑے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر نصیب ہو گئی تھی جس کی مثال پوری تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کعبتہ اﷲ میں داخل ہوتے ہی حضور ﷺنے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاؤ اور اذان دو۔ وہ چھت پر کھڑے محوِ حیران تھے کہ میں مدینہ منورہ میں تو کعبے کی طرف منہ کرکے اذان دیتا تھا، اب کیا کروں؟ حضور نے فرمایا کہ منہ میری طرف کرلو۔
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بوالہبی است
یہ فارسی شعر ہے مگر سب مسلمان اس کے معانی جانتے ہیں۔ تو پھر علامہ اقبال کا یہ شعر بھی سن لیں جو سب کو آتا ہے
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس کے بعد ذرا سوچئے کہ ہم عشق رسول، غلامی رسول کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر کمی کیا رہ گئی ہے کوتاہی کہاں ہوئی ہے؟ یہ راز کاپتہ چلاناازحدضروری ہے ۔ قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شر انگیزی کیوں کی جا رہی ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیوں ہو رہا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت پر مبنی نہیں ہو گا۔پاکستان میں اسلامی اصول اس طرح نافذالعمل ہیں جیسے ۱۳۰۰ سال قبل نافذ ہوئے تھے ‘‘۔بانی پاکستان کا اشارہ واضح طور پر ریاستِ مدینہ کی طرف تھا۔

قیامِ پاکستان کا پس منظر ہندو کانگریس اور برطانوی سامراج کی مسلم دشمنی کا ّبرعظیم میں ایک ناپاک گٹھ جوڑ اور بھیانک و سیاہ باب پر مبنی ہے۔۱۹۴۶ء میں لندن کانفرنس کے دوران ہی ایک بڑی سازش کے تحت جواہر لال نہرو کے دیرینہ دوست لارڈ مونٹ بیٹن کا گورنر جنرل مقرر ہونا،اس سازش میں شریک کرشنا مینن ایک شدت پسند کیمونسٹ لیڈر جس نے بسترِ مرگ سے اس سازش کا انکشاف کیا۔اس نے ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘(Freedom At Midnight)کے مصنف کے سامنے یہ راز بھی افشاء کیاکہ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل مقرر کرانے کی جو کامیاب کاوش ہوئی ،اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ یہ رازمسلمانانِ برِعظیم کو معلوم نہ ہونے پائے ورنہ ماؤنٹ بیٹن کی افادیت ختم ہو جائے گی۔واقعی راز فاش نہ ہوا،قائد اعظم اور لیاقت علی خان کانفرنس کے سلسلے میں وہاں موجود تھے،انہیں بھی اس ناپاک سازش کی بھنک تک نہ پڑی۔
ماؤنٹ بیٹن نے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی کی ہدائت کے مطابق پہلے سرتوڑ کوشش کی کہ برِعظیم تقسیم نہ ہونے پائے ۔مسلم لیگ کا سربراہ اورمسلمانانِ برِعظیم کا قائد اعظمؒ محمد علی جناح متحدہ برعظیم فلسفے کے خلاف ہمت،شجاعت ،حوصلہ اور عزم کی چٹان بن گئے اور دونوں مسلم دشمن سامراجیوں کو جھکنا پڑا۔تقسیم کا فیصلہ ہوا لیکن اس کے پردے میں وہ سب کچھ کیا جو بقول قائد اعظمؒ محمد علی جناح ’’دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان بنتے ہی گائب(غائب) ہو جائے‘‘۔قائد اعظمؒ محمد علی جناح کے اس وجدان کا ثبوت راقم نے لندن میں دارلعوام کی ڈیبٹ رجسٹر میں دیکھا جس میں وزیر اعظم برطانیہ ایٹلی نے ’’انڈیا انڈیپینڈنٹ بل‘‘(INdia Independent Bill)پر تقریر میں یوں کہا کہ’’برعظیم کو دو ممالک میں تقسیم کرنا ایک عارضی عمل ہے ‘بہت جلد دونوں ’’دو نیشن ‘‘ایک بڑی ڈومینئن(Dominion) میں متحد ہو کر ’’کامن ویلتھ‘‘ میں شریک ہو جائیں گی۔‘‘(کالم ۱۲۴۶)۔ اس وقت کے حزبِ اختلاف کے رہنما میکڈونلڈ (Macdonald)نے بھی غیر معمولی طور پر وزیراعظم سے متفق ہو کر کہا کہ(India Independent Bill) ’’انڈیا انڈیپینڈنٹ بل‘‘میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک زیادہ دیر تک علیحدہ نہ رہیں گے‘‘(کالم ۱۲۴۲)

برِ عظیم کی آزادی کیلئے دارلعوام میں ۳۰ جون ۱۹۴۸ء تک کی مدت طے پائی تھی ،ماؤنٹ بیٹن نے اس مدت کو مختصر کرکے جلد از جلد آزادی دینے کا فیصلہ کیا ۔برِعظیم کی تقسیم کی خفت کی وجہ سے جلد بازی اس لئے کی کہ پاکستان سنبھل نہ پائے۔قائد اعظمؒ نے اس جلد بازی کی سخت ترین مخالفت کی اور دارلعوام کے فیصلے کی مدت پر قائم رہنے کیلئے زور دیا ۔کسے کیا معلوم کہ اﷲ تعالیٰ اس خطے کے مسلمانوں کیلئے کیا عظیم تحفہ دینا چاہتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذاتی خوشی کیلئے برطانوی اور اس خطے کے لیڈروں سے بغیرصلاح و مشورہ کے ۱۵ / اگست ۱۹۴۷ء کی تاریخ کا اعلان کر دیا ۔ یہ تاریخ وائسرے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی زندگی میں بڑی خوشی کا دن تھا جب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جنگِ عظیم دوم کے دوران برما محاذ کا کمانڈر تھا،دراصل اسی تاریخ کو جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے۔

برعظیم کی آزادی اس سرنڈر کی دوسری سالگرہ کے موقع پر دینا، ایک اور تاریخی کامیابی قرار دے کرتاریخ میں خوش قسمتوں میں اپنا نام لکھوانا مقصود تھا۔ قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی مخالفت کی تواس نے پرواہ نہ کی لیکن اسے کیا معلوم کہ ہندو راشٹرکے اصل حکمراں جوتشی اور ستارہ شناسوں کی مخالفت کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔جوتشیوں نے ۱۵/ اگست کو ’’منحوس‘‘ قرار دیدیا۔ہندو رہنما تو خاموش رہے لیکن اس طاقتور طبقہ نے طوفان برپا کر دیا اور بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس مخالف مہم سے بوکھلا گیا۔اس کی بوکھلاہٹ تب کم ہوئی جب جوتشیوں نے ۱۴/ اگست کو’’ مبارک‘‘ قرار دیا۔ بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس سیلاب کو روکنے کیلئے اپنی خواہش کو برقرار رکھتے ہوئے اور جوتشیوں کو بھی تسلی بخش طریقہ بتا کر بڑی چالاکی سے نئی تاریخ یوں پیش کی کہ آزادی کی تاریخ ’’منحوس‘‘کو ’’مبارک‘‘دن کے قریب ترین آدھی رات چودہ اور پندرہ کی درمیانی شب بارہ بجے متعین کر دیا۔ہندو جوتشیوں نے ٹھیک بارہ بجے پوجا پاٹ کے دوران بجانے والا ’’سنکھ‘‘ بجا کر آزادی کے حصول کا مضحکہ طریقہ اپنایاحالانکہ قانون ساز اسمبلی کو اقتدار ۱۵/ اگست کو ہی منتقل کیا گیا اور دوسری طرف پاکستان کو پہلے ہی ۱۴ /اگست کو اقتدار اسمبلی کو منتقل کر دیا گیا تھا۔

یہی انسانی مشقیں ہوئیں اور مسلم دشمن ،بزدل اور مکار بزدل اور مکار وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود ہی اس ساعت کی طرف کھنچ کر آگیاجو اﷲ تعالیٰ کو منظور تھا۔یوں چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات ۲۷ رمضان المبارک کا آغاز ۱۴/ اگست کو مغرب غروبِ آفتاب سے شروع ہوا۔اسی رات نزولِ قرآن اورلیلتہ القدر کی مبارک ساعتیں آن پہنچیں اور وہی ہوا جو منظورِ خدا تھا۔ انہی بابرکت ساعتوں میں پاکستان عالمِ وجود میں آگیااور مملکتِ خداداد کہلایا۔۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء قیامِ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ اسی کے مطابق ہے جو ہجری سال ۱۳۶۶میں ۲۷ رمضان المبارک کو ظہور پذیر ہوا۔اس کی دینی فضیلت تو عالمِ اسلام میں نمایاں ہے اور اس کی ملی اہمیت بھی بہت اہم ہے۔ ۲۷ رمضان المبارک کے حوالے سے قیامِ پاکستان کی اہمیت کو نئی نسل تک روشناس کرانے اور اس پر عمل کرنے کیلئے قومی سطح پر جنگی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی جو اشد ضرورت تھی ،قائد اعظمؒ محمد علی جناح کے جلد انتقال کے بعد ہمارے بے عمل اور لالچی حکمرانوں نے اس پر بھرپور توجہ نہیں دی لیکن میرا وجدان اب بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب بھی اگر قدرت کی طرف سے عنائت کردہ اس معجزہ نما ریاست کیلئے ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس کا ہم نے اپنے پروردگار سے وعدہ کیا تھا تو ہم یقینا اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں ۔

میں بڑے ادب سے کہوں گا کہ پاکستانی عاشقان رسول کے لئے لیلتہ القدر ۲۷رمضان کو ہے۔ پاکستان میں اور اس کے اردگرد علاقوں میں عشق ؐمحمد کا چراغ جلنا اور اس کی روشنی پوری دنیا میں پھیلنے والی ہے۔ عشق رسول توایٹم بم سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔عالم اسلام میں پاکستان ہی وہ واحدمسلمان ایٹمی ریاست ہے جس کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے جسے کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے مگر ایسا نہیں ہو سکے گا۔ ہمارے فوجی جوانوں کا ماٹو اﷲ اکبر ہے۔ نعرہ تکبیر۔ نواز شریف نے ۲۸مئی کو یوم تکبیر کہا تھا تو اب وہ کتراتے کیوں ہیں۔ ہم نے ایٹمی دھماکے بھارت کے خلاف کئے تھے۔ نواز شریف کی دوستانہ گرم جوشی کے خلاف بھارت کی ہٹ دھرمیاں سب کے سامنے ہیں، ہٹ دھرمیاں میں لفظ’’ میاں‘‘ پر غور کریں۔

۱۴/اگست ہمارے لئے ہزار دنوں کا ایک دن ہے تو لیلتہ القدر ہزار راتوں کی ایک رات ہے۔ دن اور رات کو ملا دیا جائے تو پھر وہ مقصد پورا ہو گا جو قیام پاکستان کا مقصد ہے۔۲۷رمضان کو جو یوم آزادی ہے دراصل وہی یوم پاکستان ہے۔ ہم رمضان الکریم کاآغاز،عید،حج اورعیدمیلادالنبی بھی اسلامی کیلنڈر کے مطابق مناتے ہیں، خدا کی قسم ہمیں تو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ عید میلادالنبی کو عیسوی کیلنڈر کی کیا تاریخ ہوتی ہے؟ دراصل ہم یورپ اور امریکہ کی غلامی پر رضامند ہو گئے ہیں اس لئے ذلیل و خوار ہیں۔ ہم اپنی چند چیزوں کو سیدھا کر لیں تو سیدھا راستہ ہمارا نصیب بن جائے گا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر انعام کیا گیا۔ ہم نماز پڑھتے ہیں مگر نماز کو قائم کرنا ہمیں نہیں آتا۔ قرآن کریم تونماز قائم کرنے کی تاکید کرتا ہے کہ یہ ایک نظام ہے اوریہی نظام اسلام ہے۔

بقول قائد اعظمؒ محمد علی جناح ’’پاکستان منزل نہیں بلکہ منزلِ مقصود کا وسیلہ ہے۔‘‘’’پاکستان اسلام کا قلعہ ہے‘‘اور یہ قلعہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کی گولہ باری کی شدید زد میں ہے اوراب ضرورت اس بات کی ہے اسے محفوظ کرنے کیلئے عوام جوطاقت کا سرچشمہ ہیں انہیں واپس انہی اصولوں کی طرف لوٹنا پڑے گا جس کا ربِ کریم نے حکم دے رکھا ہے اوراس کے حصول کیلئے ہم نے اپنے رب سے جوعہدوپیماں کئے تھے اس کوپوراکرناہوگا۔بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اﷲ کی غلامی میں دینا ہو گا اور اس کیلئے قرآن و سنت کے سر چشمے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔جس دن ہم نے سچے دل سے اپنے رب کے حضورسجدہ کرلیاتواسی وقت ہمارارب ہمیں تمام دنیاوی سجدوں سے بے نیازکردے گا۔بابااقبالؒ کیا خوب فرماگئے:
وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتاہے ہزارسجدوں سے دیتاہے آدمی کونجات

میاں صاحب!جس طرح آپ بڑے تفاخرسے ایٹمی دہماکے کواپناکارنامہ سمجھتے ہیں اسی طرح ہمت کرکے ۲۷رمضان المبارک کی شب اعلان کردیں کہ آج کے بعداس مملکت خدادادپاکستان کانہ صرف آئین صرف اورصرف قرآن ہوگابلکہ اس کایومِ آزادی بھی ۲۷رمضان المبارک کومنایاجائے گا۔یقین کریں جس دن ہم نے واقعی قرآن و سنت کو اپنی زندگی میں نافذ کر لیا اور محمد عربیﷺ کو اپنا رہبر مان لیا تو یہ قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار کی طرح کامیابی و کامرانی کے تمام مدارج طے کرلے گی اور مشکلوں مصیبتوں میں گھراہوا یہ وہ ملک بنے گا جو عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لئے رول ماڈل ہو گا۔یقین کریں اس کے بعدآپ ہرقسم کی ریلیوں،دھرنوں اورانقلاب کی دہمکیوں کے خوف سے بھی آزادہوجائیں گے اورجان کیری کویہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ ہماری سرزمین پرہی کھڑاہوکریہ کہے کہ ڈرون حملے بندنہیں ہونگے ۔اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو!ثم آمین
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 389927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.