نتیش کمار اور لالو پرساد
یادو کی سیاسی زندگی کا ایک طویل با ب ہے ۔یہ دونوں کبھی آپس میں گہرے دوست
تھے۔ بہار میں اسٹودنٹس یونین کی سیاست اور جے پی تحریک کے دوران انہیں
پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔ ان دونوں لیڈروں نے ایک ساتھ سیاست کا آغاز کیا۔
1990کی دہائی تک دونوں ساتھ ساتھ رہے۔ اسی دوران لالو پرساد بہار کے وزیر
اعلیٰ بنے اور نتیش کمار ایم پی بن کر پارلیمنٹ پہنچ گئے۔ لالو پرساد کے
وزیر اعلیٰ بننے کے بعد دونوں میں فاصلے بھی بڑھنے لگے۔ دوستی دشمنی میں
تبدیل ہونے لگی ۔سمجھوتہ کی تمام کوشیشی رائیگاں چلی گئی ۔نتیش کما ر نے
لالو پرساد سے الگ ہوکر سیاسی زندگی گزارنے میں ہی اپنی کامیابی سمجھی ۔
1994میں انہوں نے سمتا پارٹی بنائی۔ اس کے بعد 1996میں نتیش کمار نے مرکز
میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو حمایت دی۔ ابعد میں نتیش کمار سمیت سمتا پارٹی
کے کئی سینئر لیڈروں نے جنتا دل (یونائٹڈ) کی تشکیل کی۔ 2005میں بھارتیہ
جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے نتیش کمار نے بہا ر کے سمبلی انتخاب میں
حصہ لیااور لالو پرساد کے پندرہ سالہ دور اقتدار کے بعد ریاست کی باگڈوران
سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
اقتدار کی تبدیلی کے بعد بہار میں بھی تبدیلی آنی شروع ہوگئی ۔نتیش کمارنے
پسماندہ بہار کو آگے بڑھانے ترقی کی راہ پرلانے کی انتھک کوشش کی ۔ریاست
کوعوام کو اس حکومت میں ہر محاذ پر اچھا تحفہ ملا ۔ان کی تمام ضروریات کو
حکومت نے ہرممکن پورا کیا ۔کئی اسکمیں شروع کی گئی ۔عوام نے راحت کا سانس
لیا ۔2010 کے اسمبلی انتخاب میں عوام نے دل کھول کر نتیش کمار کو ان کے
کاموں کا صلہ دیا ۔244 اسمبلی والی ریاست میں 206 سیٹوں پر جیت درج کراکر
این ڈے اتحاد نے کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ۔الیکشن کے نتیجے سے یہ
صاف ظاہر تھا کہ بہار کے عوام کی پہلی پسند نتیش کما ہیں ۔ان کے اقتدار سے
انہیں راحت ملی ہیں۔لیکن لوک سبھا کے انتخاب میں بہار کی عوام نے نتیش
کمارکے ساتھ دھوکہ بازی سے کام لیا ۔انہیں ان کے کاموں کا صلہ نہیں دیا۔
ترقی اور بہتر کارکردگی کی بنیاد پر نتیش کمار کوووٹ نہیں دیاگیا ۔ گزشتہ
سال جب نتیش کما رنے این ڈی اے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا تو انہیں یقین
تھا کہ وہ نریندر مودی کی مخالفت کر کے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے میں
کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمارے کاموں کو دیکھ کر سیکولر اور انصاف پسند غیرمسلم
ہمیں ووٹ دیں گے لیکن ، لوک سبھا انتخابات میں ایسا کچھ نہیں ہو مسلم ووٹ
کما حقہ مل نہیں سکا اور دیگر طبقہ نے تو ووٹ ہی نہیں دیا ۔نتیجہ یہ ہواکہ
جنتا دل یونائٹڈ حاشیہ پر پہنچ گیا۔ 40 سیٹوں میں صرف دو سیٹوں پر اسے
کامیابی ملی۔
لوک سبھا کے حوصلہ شکن نتیجہ نے نتیش کمار کو بد دل کردیا اور ملک پر
زعفرانی سیاست کے بہتے اثر نے انہیں اس ضمن میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور
کردیا۔ سب سے پہلے انہوں نے وزیراعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور مہا
دلت فرقہ کے لیڈر جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کر دیا۔
نتیش کمار کے اس فیصلے کے بعد بہار کی جے ڈی یو حکومت کے استحکام کو لے کر
قیاس آرائیاں کی جانے لگیں، لیکن راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد
یادو نے جیتن مانجھی حکومت کو اعتماد کے ووٹ کے دوران بغیر مانگے حمایت دے
کر سیکولرزم کی ایک نئی مثال قائم کی فرقہ پرستی کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے
ایک نئے منصوبہ بندی کی طر ف اشارہ کیا، لالو پرساد کے اس اقدام سے سیاسی
حلقوں میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔
لالو پرساد نے لگے ہاتھ ایک اور اہم کام یہ کیارجیہ سبھا کے ضمنی الیکشن
میں جدیوکاساتھ دیا۔ راجیو پرتاپ روڑی، رام کرپال یادو اور رام ولاس پاسوان
ے لوک سبھا ممبر بننے کے بعد راجیہ سبھا کی یہ تینوں سیٹیں خالی ہو گئی
تھیں۔گزشتہ دنوں راجیہ سبھا کے انتخابات میں جے ڈی یو کے دونوں امیدواروں
میں پون ورما اورمولانا غلام رسول بلیاوی کو کامیاب ملی تھی۔ جے ڈی یو
امیدواروں کی اس جیت میں راشٹریہ جنتا دل نے ہی اہم کردار ادا کیا کہ کراس
ووٹوں کے بعد بھی ان امیداوروں کی جیت ہوگئی ورنہ یہ ممکن نہیں تھا۔
لالو پرساد یادوکے مطابق انھوں نے بہار میں فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے
لئے جنتا دل یونائٹڈ کو حمایت دی ہے۔ ان کے مطابق، فرقہ پرست طاقتوں کے
خلاف سماجوادی خیالات والی پارٹیوں کو متحد ہوجانا چاہئے۔
سماجوادی اتحاد کے نام پر جو باتیں لالو پرساد نے کہی ہیں ، وہ کوئی نئی
بات نہیں ہے۔ سماجوادی جماعتوں کے انتشار کو روکنے کے لئے ایسی جذباتی
اپیلیں کئی قدآور سماجوادی لیڈروں نے اپنے اپنے وقت میں کی ہیں۔ اس کے
باوجود سماجوادی کا کنبہ بکھرتا گیا اور اس کے لیڈروں نے سیاست میں اپنے
الگ الگ راستے اختیار کر لئے۔ یوپی میں ایس پی اور بی ایس پی نے بھی 1992
میں بابری مسجد کی شہادت کے بعدہونے والے الیکشن میں اتحاد کرکے بھاجپا کا
صفایا کیا تھا۔لیکن یہ اتحاد زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکا ۔
میڈیا میں جب یہ خبر آئی تھی کہ نتیش کمار اور لالوپرساد ایک دوسرے کی
تلخیاں فراموش کرکے ایک دوسرے ہاتھ ملانے والے ہیں تو کسی کو اس خبر پہ
یقین نہیں آرہا تھا ۔ہر کوئی اسے ایک افسانہ سمجھ رہا تھا ۔سیاسی ماہرین
طرح طرح کے سوالات اٹھارے تھے۔کہ کیا مستقبل میں نتیش کماور لالو پرساد
یادو کبھی واقعی ایک ساتھ آ سکتے ہیں؟ یہ دونوں کن جوہات کی بناپر متحد
ہورہے ہیں ؟ ایسے کئی سوال تھے، جو ان دنوں بہار کی سیاست میں اٹھ رہے
تھے۔لیکن اب یہ تمام پیش گوئیاں ختم ہوگئیں ہیں ۔لالو اور نتیش کمار آج ایک
دوسرے سے گلے مل چکے ہیں۔حاجی پور میں ایک انتحابی ریلی سے دونوں دوستوں نے
مشترکہ طو پرخطاب بھی کیا ہے اور فرستہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے اکھاڑ
پھیکنے کا عزم مصم کیا ہے ۔
ضمنی الیکشن ایک ساتھ لڑکر اپنے مخالفین کو یہ بھی جواب دیاہے کہ ہمیں
سیکولزم کی بقا پسند ہے اپنا اقتدار نہیں ۔بہار میں دس سیٹوں پر آئندہ 21
اگست کو ضمنی الیکشن ہونے جارہا ہے جس کو جدیو راجد اور اور کانگریس مشترکہ
طو رپرمل کرلڑرہی ہے ۔دس سیٹوں میں دو سیٹوں پرکانگریس کے امیدوار ہیں اور
بقیہ آٹھ میں چارچار پر راجد اور جدیوکے ۔نتیش کمارنے پارٹی ورکروں سے کہ
بھی دیا ہے ہمارامقصد سیکولرزم کی بقا ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ اتحاد کیا
گیا ہے ۔جنہیں ہمار ایہ اتحاد پسند نہیں ہے وہ اپنا راستہ دیکھیں ۔پارٹی
چھوڑکر کہیں اور چلے جائیں۔ نتیش کی بڑھتی ہوئی قربت اور دونوں کے اتحاد نے
ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے ۔اپنے آپ کو سب
سے بڑی اور تنہا چلو کی پالیسی پہ عمل کرنے والی پارٹی کانگریس بھی ان
لیڈروں سے متفق ہے ۔خبر یہ بھی ہے کہ بہار جیسا اتحاد یو پی میں بھی قائم
ہونے جارہا ہے ۔ جہاں سماجوادی اور کانگریس ایک ساتھ مل کر 2017 کا اسمبلی
انتخاب لڑیں گے۔
بہارکے ان دونوں رہنماؤں کا یہ اتحاد قابل سائش اور باعث مسر ت ہے ۔ساتھ ہی
تمام لیڈروں کیلئے درس عبرت ہے جو اقتدار کی خاطر الگ الگ ٹکروں میں بٹے
ہوئے ہیں۔اور اپنی الگ جماعت بنائے ہوئے ہیں۔ نتیش لالوکا یہ اتحاد ہمارے
مسلم رہنماؤں اور حضرات علماء کرام کو بھی دعوت اتحاد دے رہا ہے جو اقتدار
اور عہدہ کے لئے ہرروز ایک نئی تنظم قائم کررہے ہیں یا پھر پرانی تنظیم کو
کئی حصوں میں تقسیم کررہے ہیں۔
میں بہار کے سابق وزیر اعلی لالوپرساد یادو اورنتیش کمار کو اس اتحاد پہ دل
کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ یہ امید کرتا ہوں کہ یہ
دوسروں کے لئے درس عبرت بنے گا۔ |