تاریخ پاکستان میں جتنے بھی اتار
چڑھاؤآئے، پاکستان اﷲ کے فضل وکرم سے ان میں سرخرو و کامیاب رہا۔ اب کی بار
قافلہ جس موڑ پہ آچکا ہے اسے خطرناک ترین قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ پہلے
ہمیں مسلح اور شدت پسند خارجی قوتوں کی سازشوں اور یورشوں کا سامنا تھا۔
مگر آج آوازیں قافلے کے اندر سے بھی اٹھنا شروع ہوگئیں ہیں۔ بہت سوں نے تو
تلواروں کو میانوں سے بھی نکال لیا ہے اور اپنے اپنے حامیوں اور عقیدت
مندوں کو ایک دوسرے کو شہید کرنے کا اعلان کرنے لگے ہیں۔انہوں نے 14اگست ،
یوم آزادی پاکستان کے یادگار اور روشن قومی دن کو بھی سیاسی رنگ چڑھا کر
متنازعہ بنا دیا ہے۔
یہ کروڑ سوا کروڑ کے ائرکنڈیشنڈ کنٹینروں میں بیٹھ کر انقلاب اور آزادی
مارچ کی باتیں کررہے ہیں۔ ان کے لہجے میں زبردست اشتعال ہے۔ یہ جمہوریت
پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم حکومت کو گرانے کے تمام غیرجمہوری طریقے
استعمال کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ عمران خان کا آزادی
اور طاہرالقادری کا انقلاب مارچ ہم آہنگ ہوچکا ہے۔ بہت سے حلقے عمران خان
کو تو سسٹم کاحصہ قراردیتے ہیں تاہم طاہرالقادری کے حوالے سے وہ بہت سے
خدشات کا شکار ہیں۔ ان کا یہ خدشہ بھی کافی درست اور حقیقت پر مبنی ہے کہ
طاہرالقادری کے ساتھ عمران خان کا مارچ خود عمران خان کے سیاسی کیریئر کو
داغدار کرسکتا ہے کیونکہ طاہرالقادری کے اشتعال انگیز بیانات اور ایجنڈا ہر
کسی کو مخمصے میں ڈالے ہوئے ہے۔ وہ ہر جماعت کے خلاف اچانک امڈ آتے ہیں۔ دو
چار دن اپنے کارکنوں کو سردی گرمی دکھاتے ہیں اور پھر اچانک کینیڈا روانہ
ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی انہوں نے لانگ مارچ کیا۔ اسلام
آباد کو جام کرکے مطالبات کی ایک فہرست تیار کی۔ ان مطالبات کا کیا بنا، آج
تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا۔طاہرالقادری کا بار بار اپنے بیانات سے مکرنا
اور تردید نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان کی اردوتقریروں میں شعلہ
بیانی ہے تو انگریزی میں وہ امن کی فاختہ بنے نظر آتے ہیں۔
طاہرالقادری نے 10اگست کو لاہور میں اشتعال انگیز تقریر کی اورپھر عمران
خان کے آزادی مارچ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے ان
کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ اس طرح پی ٹی آئی جو یہ دعویٰ کررہی تھی کہ وہ
مذہبی ہے نہ روایتی سیاسی جماعت بلکہ ایک جدید خیالات رکھنے والی سیاسی
پارٹی ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے ، اس نے اپنے مارچ میں طاہرالقادری
کوشامل کرکے اپنے ماتھے پر ایک مستقل داغ سر سجا لیا ہے ۔ طاہرالقادری کے
بیانات اور ایجنڈے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک بڑے انتشار کی
طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی زبان بھی گو کہ قابو میں نہیں رہتی
تاہم ان کے کارکن اس ملاپ سے ایسے انقلاب کی بو محسوس کررہے ہیں جو نہ صرف
پاکستان میں ایک خطرناک صورتحال کو جنم دے سکتا ہے بلکہ خود تحریک انصاف کے
مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ طاہرالقادری کی
لگائی آگ کو وہی چہرے ہوا دے رہے ہیں جو ماضی میں بھی ایسے شرمناک کام
انجام دیتے آئے ہیں۔
بہرحال عمران خان حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے آزادی مارچ کے لیے نکل
چکے ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنی تقریر میں ان کے تمام مطالبات مان لیے
ہیں اور انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے
کا اعلان کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے دیر کی تاہم عمران خان کھلے دل کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قبول کرلیں اور لانگ مارچ پر نظرثانی کریں کیونکہ ضد
اور ہٹ دھرمی سے جمہوریت کو شدید خطرہ پہنچ سکتا ہے۔عوام بھی اس ٹکراؤ سے
شدید متاثر ہیں۔ حکومت نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کررکھی ہیں۔ جس سے شہروں
اور قصبوں کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ بہت سے مسافر کئی روز سے
راستوں میں ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اشیائے ضروریہ ناپید ہوچکی ہیں۔ یہ
صورتحال عام علاقوں کی ہے۔ جو علاقے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، وہاں کے حالات
ان سے بھی بدتر ہیں۔
موجودہ سیاسی چپقلش سے یوم آزادی کی خوشیاں اور تیاریاں تو ماند پڑی ہی ہیں
اس صورتحال نے جن اہم قومی امور کو پس منظر میں ڈال دیا ہے ان میں آپریشن
ضرب عضب اور اس کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے افرادکی دیکھ بھال کے
معاملات قابل ذکر ہیں۔ ہمارے ملک کا پہیہ جام کرنے والے لیڈرز کو اچھی طرح
معلوم ہے کہ پاکستان گزشتہ بارہ تیرہ سال سے دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں
ہے۔دہشت گرد افواج پاکستان اور شہریوں پر حملے کررہے ہیں۔ ہماری اہم
تنصیبات تباہ و برباد کی جا چکی ہیں۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے
بیرونی قوتیں ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں۔ ان حالات میں افواج پاکستان نے
ان کے قلع قمع کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔ جو اب بھی جاری ہے۔ اس کے
نتیجے میں دہشت گردوں کے بہت سے ٹھکانے تباہ کئے جاچکے ہیں۔ افواج پاکستان
کے افسر اور جوان بھی شہید ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں آپریشن کے دوران نقل مکانی
کرنے والے افراد کی دیکھ بھال بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس صورتحال میں
کہ سیاسی دھماکے اور گرما گرمی نے ملک کو شدید خطرات سے دوچارکردیا ہے اور
بعض تجزیہ نگار ان حربوں کو اس آپریشن اور آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال کی ذمہ
داری نبھانے سے توجہ ہٹانے کا عمل قراردیتے ہیں۔ اسی طرح ورکنگ باؤنڈری
سیالکوٹ کے چاروا سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ بھی جاری ہے۔
ایک ہفتے میں بھارتی فوج کی جانب سے کئی دفعہ فائرنگ کی گئی جس کا پاک فوج
نے بھرپور جواب دیا۔ بھارتی فائرنگ سے پاکستان کے دوشہری شہید بھی ہوئے جس
پر دفتر خارجہ نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج بھی کیا۔
افغانستان کی صورتحال بھی اب غیر معمولی رخ اختیار کرچکی ہے۔ عبداﷲ عبداﷲ
اور اشرف غنی مخلوط حکومت بنانے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ امریکہ وہاں اقتدار کی
منتقلی کے بعد رخصت ہونے والا ہے۔ افغانستان کے علاقے پاکستان مخالف دہشت
گردوں کی آماجگاہ ہیں اور وہ وہاں سے مسلسل پاکستان پر حملے کررہے ہیں۔
ایسی صورتحال ہم سے اتحاد و یگانگت کی متقاضی تھی اور اس 14 اگست کو ہمارا
یہ عزم ہونا چاہئے تھا کہ ہم بحیثیت قوم ان مسائل سے آگاہ ہیں اور ان سے
نمٹنے کے لیے پاکستانی کے طور پر کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر
افسوس اس یوم تجدید کے موقع پر ملک وقوم میں تفریق اور انتشار پیدا کرنے کی
کوشش محب وطن شہریوں کو اضطراب میں ڈال دیا ہے۔ پہلے ہی دہشت گردی کی وجہ
سے 23مارچ یوم پاکستان کی شاندار تقریبات کی روایت ختم ہوچکی ہے۔ اب چودہ
اگست کو سیاسی رنگ دے کر قومی خوشیوں پر انفرادی اور سیاسی ملمع کاری کی
کوشش کی جارہی ہے۔ عام پاکستانی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو
ہمارے قومی خوشیوں اور رنگوں پر سیاسی اور انفرادی رنگ چڑھاتے جارہے ہیں۔
اس یوم آزادی پر قومی پرچم کے بجائے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے پرچم جابجا
ہوں گے اور جس طرح یوم انقلاب نے یوم آزادی ، لانگ مارچ نے آپریشن ضرب عضب،
عمران اور قادری نے آئی ڈی پیز کو پس منظر میں ڈال دیا ہے اسی طرح ان
پارٹیوں کے’’ رنگ برنگے‘‘ پرچموں نے قومی اتحاد و یگانگت کی علامت ہمارے
قومی سبز ہلالی پرچم پر بھی انتشار کے بھیانک سائے ڈال دیئے ہیں۔اس یوم
آزادی پر قومی پرچم اداس ہے۔ |