تباہی اور بربادی کا مارچ شروع
ہوگیا ہے۔یہ کب اور کس طرح ختم ہوگا؟کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔دونوں لیڈروں
کی طرف سے لانگ مارچ جاری رکھنے کے اعلانات لگاتار ہورہے ہیں۔ذاتی مفاد نے
قومی مفادات کو دبا لیا ہے۔تباہی اور بربادی کو روکنے کے لئے کچھ پارٹیاں
اور لیڈر نظر تو آتے ہیں۔لیکن اب تک ہونے والی کوششیں رائیگاں ہی نظر آتی
ہیں۔انا کے بت مٹی کے نہیں بلکہ لوہے کے بن چکے ہیں۔ایک سال پہلے ملکی
معیشت کو آگے بڑھانے کے لئے جو کام شروع کئے گئے تھے وہ مکمل ہوتے نظر نہیں
آتے۔بہت سے منصوبوں کی بنادیں رکھی جا چکی تھیں۔اور باقی ماندہ کی بنیادیں
رکھی جانے والی تھیں۔کیا یہ سب کچھ ادھورا ہی رہ جائے گا؟۔ملک اور بین
الاقوامی بہت سی کمپنیوں کی پلاننگ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے جاری
تھی۔چین نے تو اپنے سرمائے اور ٹیکنالوجی کے دروازے پاکستان کے لئے کھول
دیئے تھے۔ترکی کا تعاون بھی واضح نظر آرہاتھا۔سعودی عرب نے پہلے بھی ہر
مشکل گھڑی میں پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا تھا۔اور اس دفعہ تو ان کی طرف سے
آئے ہوئے ڈالروں نے روپیہ کو مستحکم کردیاتھا۔ڈالر کا111۔روپے سے کم ہوکر
98روپے تک آنا عجوبہ سا لگتاتھا۔پورے ملک میں چینی انجینرز کام کرتے نظر
آتے تھے۔چینی تعاون سے200۔چھوٹے بڑے منصوبے تو کئی سالوں سے جاری تھے۔اب
اسی میں بڑے بڑے اور کئی بھی شامل ہوگئے تھے۔اگر ہم لانگ مارچ کے بغیر
پاکستان کا آئندہ4سال کے بعد تصور کریں تو صورت حال کافی خوشگوار نظر آتی
ہے۔اربوں اورکھربوں روپے کے منصوبے پاکستان کو تبدیل کرسکتے تھے۔مجھے یقین
نہیں آتا کہ پاکستان کا روشن مستقبل صرف 2۔لیڈروں کی ہٹ دھرمی سے گہنا جائے
گا۔آرٹیکل لکھتے وقت تک عمران خان کو منانے کی کوششیں جاری ہیں۔اور توقع
بھی خان سے ہی ہے۔کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرکے آئین اور قانون کے راستے پر
آجائیں گے۔لیکن ان کا باربار یہ کہنا کہ اب بات14۔اگست سے پہلے نہیں
ہوگی۔ہمیں پھر مایوسیوں کے سمندر میں دھکیل دیتا ہے۔سراج الحق کی مخلصانہ
کوششوں سے پھر امیدکی کرن نظر آتی ہے۔مستقبل کے اندھیروں میں روشنی کی چمک
سے ہی زندگی آگے بڑھتی ہے۔اسی پر آجکل پاکستانی بھی جی رہے ہیں۔لیکن جو
خبریں پنجاب کے شہروں سے آرہی ہیں۔وہ تو بربادی اور تباہی کی خبریں
ہیں۔پیٹرول پمپ اور سی۔این۔جی سٹیشنز کا بند ہونا لوگوں کی روزمرہ زندگی کے
لئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔لاری اڈے سیل کئے جارہے ہیں۔اس طرح تو لوگ اپنے
گھروں میں کئی دن تک محصور ہوجائیں گے۔کاموں پر نہیں جاسکیں گے۔موبائل سروس
کی بندش بھی شروع ہے۔جن کنٹینرز پر تجارتی مال آنا جانا تھا۔وہ ریلیاں اور
جلوس روکنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔امید کی کرن پھر گھٹاٹوپ اندھیروں میں
گم ہوجاتی ہے۔آئندہ چند دنوں اور ہفتوں میں اور کیا کچھ بند ہوگا۔اس سے خوف
اور بڑھ جاتا ہے۔ڈیڑھ سال پہلے جب طاہرالقادری نے لانگ مارچ کیاتھا۔میں نے
معاشی نقصان کا ایک محتاط سااندازہ3۔ارب روپے کا لگایا تھا۔اب تو لانگ مارچ
میں ایک بڑا لیڈر اور بھی شریک ہے۔اگر یہ تمام کچھ چند ہفتے یوں ہی رہا۔تو
نقصان تو کھربوں تک پہنچ جائے گا۔کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہراگرصرف ایک
دن بند ہوجائیں تو آپ تجارت و صنعت کے نقصان کا اندازہ کرسکتے ہیں۔آپ اسے
بیسیوں ارب تک گن سکتے ہیں۔روزانہ مزدوری کرنے والے اور ملازمین ہرکسی پر
اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔طاہر القادری گزشتہ لانگ مارچ میں4۔دن تک اسلام
آباد میں رہے تھے۔پورا اسلام آبادمفلوج ہوکر رہ گیاتھا۔اس دفعہ اگر دونوں
لیڈر عوام کو لیکر اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو یوں سمجھیں کہ
پورا ملک ہی بند ہوجائے گا۔کھانے پینے کی اشیاء کی سپلائی تک رک جائیں
گی۔لاہور سے اسلام آباد جاتی ہوئی جی۔ٹی۔روڈ کی تجارتی و صنعتی رونقیں ختم
ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔حکومت ریلیوں اور جلوسوں کوروکے گی اور ریلیوں کے
حامی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔یوں ہرطرف معرکے ہوتے نظر آرہے ہیں۔کچھ ایسی ہی
صورت حال پشاور۔اسلام آباد سٹرک کی بھی نظر آتی ہے۔عمران خان کے چاہنے والے
سب سے زیادہ پشاور سے ہی اسلام آباد آئیں گے۔اس روٹ کی معاشی سرگرمیاں کئی
دن تک بند ہوتی نظر آتی ہیں۔اندرون پنجاب سے طاہر القادری کے جیالے بھی
ماڈل ٹاؤن کا رخ کررہے ہیں۔پکڑ دھکڑ کی وجہ سے پنجاب مکمل طورپر بند ہوتا
نظر آتا ہے۔اگر کراچی سے بھی بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے قافلے آنے کی کوشش
کریں گے تو PPPکی حکومت اپنی عملداری تک تو انہیں کچھ نہ کہے گی لیکن آگے
پھر انہیں پنجاب سے ہی گزرنا ہے۔بڑامیدان پنجاب ہی رہے گا۔موجودہ حکومت کی
بقا کا انحصار چھوٹے میاں صاحب ہی پر نظر آتا ہے۔چھوٹے میاں کی انتظامی
صلاحیتوں ہی سے افراتفری میں کمی یا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔اگر شہباز شریف
صاحب اس تمام صورت حال کو بڑے پیمانے پر پکڑنے نہیں دیتے اور2۔ہفتے پنجاب
پولیس۔ایلیٹ فورس اور رینجرز حالات کو اپنے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔تو بڑی
تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔اگر اس بڑے صوبے اور مسلم لیگ کے گڑھ پنجاب میں
حالات شہباز شریف کے ہاتھ سے نکل گئے تو سمجھا جائے گا کہ پورا ملک ہی نکل
گیا۔اس کے بعد کیا ہوگا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔دعا ہی کی جاسکتی ہے۔جب
ملک کے سیاسی حالات بگڑتے ہیں تو سٹاک ایکسچینج نیچے آنے کے انتظار میں
ہوتی ہے۔غیر ملکی لوگ سب سے پہلے اپنے حصے بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔عام
سرمایہ کار کمپنیاں بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہیں۔سیاسی بگاڑ معاشی بگاڑ بن
جاتا ہے۔ہمیں طاہر القادری سے تو قومی مفاد سامنے رکھنے کی توقع نہیں
ہے۔انکی عمر60سال سے اوپر ہو چکی ہے۔وہ مذہبی کارکردگی کی بنا پر کسی بڑے
عہدے پر پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔انکے بزرگوں نے بھی انہیں پاکستان کے سب
سے اونچے عہدے تک پہنچنے کی تلقین کی تھی۔جسے برا نہیں کہا جاسکتا۔وہ تو
لازمی طورپر مرو اور مارو کی پالیسی جاری رکھیں گے۔ایسے جذباتی آدمی سے
مذاکرات بھی بے کار ہی ہوتے ہیں۔لیکن عمران خان سے تو لوگوں کی بڑی امیدیں
تھیں۔وہ نواز شریف کے بعد انہیںPrime minister,waitingکے طور پر دیکھ رہے
تھے۔لیکن ان کا موجودہ جذباتی رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔وہ ریلیوں اور لانگ
مارچ سے وزیراعظم تو نہیں بن سکتے وہ نوازشریف کے بعد والی باری بھی کھوتے
ہوئے نظر آرہے ہیں۔انہیں اپنے اتحادی جناب سراج الحق کی باتوں کو سنجیدگی
سے لینا چاہیئے۔آئندہ الیکشن کے لئے انتخابی اصلاحات پر توجہ دینی
چاہیئے۔لیکن یہ تمام کام تو پارلیمنٹ کے اندر ہوتا ہے۔اس کا سڑکوں اور ڈی
چوک سے تعلق نہیں ہے۔ان سے بہت سے لوگوں کو سنجیدہ رویے کی توقع ہے۔اگر وہ
اپنے پروگرام میں تبدیلی نہیں کرتے اور لڑائی کو چوراہوں کی بجائے پارلیمنٹ
میں نہیں لے جاتے تو پھر ملک کی قسمت میں معاشی بربادی اور تباہی کے سوا
کچھ نہیں ہے۔اگر یہ جھگڑے اور لانگ مارچ کئی ہفتوں تک جاری رہے تو پاکستان
کی ننھی سی معیشت بہت جلد دم توڑ دے گی۔18۔کروڑ عوام۔ایک بڑا ملک لیکن
سالانہ آمدنی225۔ارب ڈالر اور سالانہ برآمدات 25۔ارب ڈالر۔اسے چھوٹی سی
معیشت ہی کہاجائے گا۔پاکستان کے بالمقابل چھوٹے چھوٹے ممالک سالانہ200ارب
ڈالر کی اشیاء برآمد کررہے ہیں۔وہاں خوشحالی ہے۔لوگ اپنے معاشی کاموں میں
سکون سے مصروف رہتے ہیں۔لیکن پاکستان میں تو چند سال کے بعد ہی حالات
بگڑجاتے ہیں۔معیشت متزلزل ہوجاتی ہے۔90۔کی دہائی میں یہی کچھ ہوتارہا
ہے۔اسی لئے90ء کی دہائی کو معاشی لہاظ سے ناکام دہائی کہا جاتا ہے۔عمران
خان اور طاہر القادری کو2018ء کا انتظار کرنا چاہئے۔اس کے لئے تیاری کرنی
چاہیئے۔اگر وہ کچھ حاصل کرناچاہتے ہیں تو انہیں انتخاب میں تو جانا پڑے
گا۔انتخابات جیتے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔موجودہ راستہ نہ صرف ان
کے لئے تباہی کا راستہ ہے بلکہ پورے ملک اور معیشت کے لئے بربادی کا راستہ
ہے۔پڑول پمپوں کا بند ہونا۔لاری اڈوں کو سیل کرنا۔کنٹینرز کو راستے بند
کرنے کے لئے استعمال کرناکسی بھی صورت میں معیشت کے لئے فائدہ مند نہ
ہوگا۔جب بات آگے بڑھے گی تو فیکڑیاں اور کارخانے بھی بند ہونگے۔ریل بند
ہونے تک نوبت آجائے گی۔بلڈنگوں کو آگ لگنا بھی شروع ہوجاتی ہے۔ریلیوں کی
گرماگرمی میں لوگ عقل کے اندھے ہوجاتے ہیں۔توڑ پھوڑ اور تباہی بڑے پیمانے
پر شروع ہوجاتی ہے۔پاکستان کی دشمن طاقتیں بھی انتظار میں ہوتی ہیں۔کوئی
بڑا نقصان بھی ہوسکتاہے۔کبھی نہیں سنا گیا کہ ایک قوم اپنے دشمن سے جنگ
لڑرہی ہو اور انہیں کے چند لیڈر لانگ مارچ کے ذریعے ملک کے حالات کو مزید
بگاڑنے کی جدوجہد میں لگ جائیں۔آئندہ چند دنوں میں نظر آنے والا منظر معاشی
تباہی اور بربادی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں لائے گا۔عقل وفکر سے ہی ہم اس
تباہی کو روک سکتے ہیں۔ |