پروفیسر انیتاغلام علی:ہر رہ گزر پہ تیرے گُزرنے کا حُسن ہے

 غلام شبیر
پاکستان میں تانیثیت کی علم بردار ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی نے 8۔اگست 2014کی شام عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔کراچی میں 1935میں جنم لینے والی اس نابغہء روزگار خاتون کو اپنی تدریسی خدمات،علمی فضیلت ،علم دوستی ،ادب پروری ،انسانی ہمدردی ،حقو ق نسواں کے لیے جد و جہد اور جذبہء انسانیت نوازی کے اعجاز سے پُوری دُنیا میں جو عزت ،وقار ،محبت اور پذیرائی نصیب ہوئی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔کچھ دنوں سے وہ ساؤتھ سٹی ہسپتال کراچی میں واقع ایک نجی ہسپتال میں عارضہ ء قلب کے باعث زیر علاج تھیں لیکن معالجوں کی کوئی اُمید بر نہ آئی اور اس بیماریء دِل نے بالآخر پروفیسر انیتاغلام علی کی زندگی کی شمع بُجھا دی۔ وہ شمع فروزاں جس نے جہالت کی سفاک ظلمتوں کو کافور کیا،اذہان کی تطہیر وتنویرکا اہتمام کیا اور ستارہ ء سحر کے مانند طلوع صبحِ بہاراں کی نوید سنائی اب ہماری بزم میں ضو فشاں نہیں رہی ۔ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ان کی رحلت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس پر ہر آنکھ اشک بار اورہر دِل سوگوار ہے ۔وہ تا ابد اندھیروں کی دسترس سے دُور مثل آفتاب اُفقِ علم و ادب پر ضو فشاں رہیں گی ۔ایسی عظیم اور نایا ب شخصیات کسی بھی قوم اورملک کا بیش بہا اثاثہ ہوتی ہیں ،تاریخ ہر دور میں اُن کی فقید المثال خدمات کی بنا پر اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔ایسی یگانہ ء روزگار شخصیات رحلت کے بعد بھی اپنے قدر دانوں کی محفلوں میں مو جود رہتی ہیں اوراُن کی عظمتِ فکر کے موضوع پر گفتگوکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔زندگی کا کوئی بھی عکس ہو ان کے خد وخال کی مسحور کُن دل کشی قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے اور جہاں بھی علم و ادب کی کوئی محفل سجتی ہے اُن ہی کا ذِکر تمام گفتگو پر حاوی رہتا ہے۔ایام ِ گُزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت پلٹ کر دیکھیں تو آئینہ ء ایام میں جو حسین تصویر نظر آتی ہے اُس کے نمایاں پہلوقابل غور ہیں۔آج سے نصف صدی پہلے کی بات ہے جب پاکستان میں ریڈیوکی نشریات میں ہر شخص گہری دلچسپی لیتا تھا۔ریڈیو سے انگریزی اور اُردو زبان میں نشر ہونے والی خبریں پُوری توجہ سے سُنی جاتی تھیں۔اُردو زبان میں انور بہزاداور شکیل احمد جب کہ انگریزی زبان میں انیتا غلام علی کی آواز سے سامعین بہت مانوس تھے۔انیتا غلام علی کو انگریزی زبان کے درست تلفظ،ادائیگی اور زیرو بم پر جو بے پناہ دسترس حاصل تھی اس پر انگریزی کے اہلِ زبان بھی رشک کرتے تھے۔ریڈیو پاکستان کے عہدِ زریں کی اس یادگار آواز کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے:
This is Radio Pakistan.The news read by Anita Ghulam Ali

جب تک ریڈیو پاکستان کے کراچی سٹیشن سے خبریں نشر ہوتی تھیں انیتا غلام علی باقاعدگی سے انگریزی خبریں بڑھتی تھیں ۔جب ریڈیو پاکستان نے خبریں پڑھنے کا شعبہ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں منتقل کر دیا تو وہ اس سے وابستہ نہ رہیں۔حیف صد حیف فرشتہء اجل کے ہاتھوں یہ بے خوف آواز ہمیشہ کے لیے چُپ ہو گئی۔بہ ظاہر یہ خاتون اپنی ذات میں سمٹی ہوئی تھی مگر اس اولوالعزم خاتون کے قلب اور روح میں سمندر کی سی بے کرانی تھی۔ایک تنوع اور بوقلمونی تھی جس نے ان کی شخصیت کوسد ا بہار بنا دیا تھا۔ انیتا غلا علی نے قسمت سے محروم پس ماندہ طبقے کی خواتین اور چائلڈ لیبر کی مسموم فضا میں کُملا جانے والی کلیوں اور شگوفوں کو گلشن ہستی میں رنگ ،خوشبواور حسن وخوبی کے تمام استعاروں کا منبع قراردیا اور ان کی زندگی کو نکھار اور رعنائی عطا کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ۔پاکستانی خواتین کے لیے ان کی شخصیت اور کردار ہمیشہ قابلِ فخر رہا۔انیتا غلاعلی کی وفات کی خبر سُن کر دنیا بھر کی خواتین نے دلی رنج و غم کا اظہار کیا ہے اب دنیا میں ایسی نادر و نایاب خاتون کہاں جسے انیتا غلا علی جیسا کہا جا سکے۔
کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گُزر گئے
جی چا ہتا ہے نقشِ قدم چُو متے چلیں

انیتا غلام علی کا تعلق کراچی کے ایک معزز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔اُن کے والد جسٹس فیروز علی نانا غلام علی سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے۔ان کی والدہ شیریں نانا کراچی کی خواتین میں بہت مقبول تھیں اور ان کا شمار کراچی کی ممتاز سماجی کا رکن خواتین میں ہوتا تھا۔ان کے دادا نور الدین احمد غلام علی پاکستان کے نامور ماہر تعلیم اور منتظم تھے۔وہ سندھ کے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشنز کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھے۔انھوں نے سندھ میں فروغِ تعلیم، تعلیمی انصرام اور منصوبہ بندی کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں انھیں علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔بابائے جدید سندھی شاعری شمس العلما مرزا قلیچ بیگ ان کے پر دادا تھے۔مرزا قلیچ بیگ نے اپنی تین سو بانوے (392)وقیع تصانیف سے علم و ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیاوہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ انیتا غلام علی کے والدین نے اپنی ہو نہار بچی کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مر کوز کر دی ۔انیتا غلام علی نے ابتدائی تعلیم سینٹ لارنس کانونٹ سکو ل کراچی سے حاصل کی۔ اعلا تعلیم کے مدارج انھوں نے ایس ۔ایم کالج کراچی میں مکمل کیے۔نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں انیتا غلا م علی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ان کا شمار فطین ،فعال ،مستعد ،مودب اور باذوق طالبات میں ہوتا تھا ۔ بچپن ہی سے انھیں کھیلوں اور گُھڑ سواری کا شوق تھا ۔اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے وہ گدھوں پر سواری کرنے میں بھی تامل نہ کرتیں ۔اﷲ کریم نے انھیں جسمانی صحت اورقوت سے نوازا تھا ۔ باقاعدگی سے ورزش اور کھیلوں میں حصہ لینا ان کا معمول تھا۔زمانہ طالب علمی میں اُن کا شمار اپنے تعلیمی ادارے کے بہترین اتھلیٹس میں ہوتا تھا ۔وہ نیٹ بال اور بیڈ منٹن کی بہترین کھلاڑی تھیں۔سکول اور کالج کی سطح پر وہ نیٹ بال اور بیڈمنٹن کی ٹیموں کی کپتان رہیں ۔ انھوں نے کراچی اور سندھ کے بڑے شہروں میں طالبات کے متعدد ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔وہ سائنسی اندازِ فکر کی حامل تھیں ،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شعبہ سائنس میں علمِ نباتات کو اختصاصی مہارت کے لیے منتخب کیا ۔ایس ۔ایم کالج سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کے مزاج کا حصہ بن گیا ۔اسی وادی ء جمیل میں انھوں نے 1961تا 1985تدریسی خدمات انجام دیں ۔ وہ اس مادرِ علمی میں مائیکرو بیالوجی کی تدریس پر مامور تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کائنات ابھی نا تما م ہے اسی لیے دما دم صدائے کن فیکوں سنائی دے رہی ہے۔ اپنے مضمون پر اُنھیں عبور حاصل تھا اسی لیے ان سے اکتساب فیض کرنے والی طالبات ان کی بہت عزت کرتی تھیں۔ علم و ادب کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا ۔وہ عالمی کلاسیک اور پاکستانی ادبیات میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں۔ وہ اپنے کالج کی ا نتہائی قابل اور ہر دل عزیز پروفیسر تھیں۔ان کی علمی فضیلت ،تدریسی مہارت ،ا نتظامی فراست اور پیشہ ورانہ کمال کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا ۔اس عرصے میں ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔شادی بھی ہوئی مگرکوئی اولاد نہ ہوئی اور پانچ سال کے بعد خلع حاصل کر لیا ۔زندگی کے سفر میں جب شریک حیات کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکے تو مسافت رائیگاں چلی جاتی ہے اور سفر کی دُھول ہی پیرہن بنتی ہے ۔ ٹُو ٹے ہوئے رشتوں کے اس اُداس اور تلخ تجربے اور جذباتی شکست و ریخت نے اس حساس ادیبہ کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔اس سانحہ کے بعد انیتا غلا م علی نے اپنی تنہائیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا اور باقی زندگی تنہا گزار دی۔

انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے انیتا غلام علی نے بہت جدو جہد کی ۔اساتذہ کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا ۔دورانِ ملازمت وہ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن سے وابستہ ہو گئیں۔اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے انھوں نے جو موثر اور فعال کردار ادا کیا ،اس کی بنا پر انھیں پاکستان کالج ٹیچرز ایسو سی ایشن کی نائب صدر کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں ۔ان اہم ترین ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے میں وہ اپنی تمام صلا حیتوں کو بروئے کار لاتی رہیں۔ اساتذہ کو معاشرے میں عزت اور وقار کا مقام دلانے کے سلسلے میں انھوں نے جو محنت کی اس کے اعتراف میں اساتذہ نے انھیں پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صد ر منتخب کیا گیا ۔انیتا غلام علی نے سندھ کے کالج اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہوئے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور ہمیشہ حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند ر کھا۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ بعض نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے تو قیری نے لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت اختیار کر لی ہے۔ پاکستان کے نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی شرائط ملازمت کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اُنھوں نے بڑی بہادری سے حالات کا سامنا کیا۔1960 کے اواخر میں انیتا غلام علی نے کراچی کے اٹھہتر نجی کا لجز میں تدریس پر مامور اساتذہ کے حقوق کے لیے بھر پور جد و جہد کا آغاز کیا۔ ہوائے جور و ستم میں بھی حوصلے ،اُمید اور وفا کی شمع کو فروزاں رکھتے ہوئے انھوں نے اساتذہ کے دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کیا۔1970 میں اساتذہ کے حقوق کی جد و جہد میں تیزی آ گئی۔اساتذہ کے پُر امن جلوس پر پولیس نے تشدد کیااور جو اساتذہ پولیس کے لاٹھی چارج کی زد میں آ ئے ان میں انیتا غلام علی بھی شامل تھیں۔اس موقع پر انیتا غلام علی کو پا بند سلاسل کر دیا گیا ۔انیتا غلام علی نے فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔یکم ستمبر 1972کو جب حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا تو انیتا غلام علی بھی سرکاری ملازم ہو گئیں۔انھوں نے سرکاری ملازمت میں گراں قدر خدمات انجام دیں ،جن کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔1985میں اُن کا تقرر سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر کے منصب پر ہوا۔1990میں جب سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کی منیجنگ ڈائریکٹرکی حیثیت سے انیتا غلام علی کا تقرر ہوا۔اپنے ماتحت عملہ کے ساتھ ان کا سلوک ہمیشہ ہمدردانہ اور مشفقانہ رہا ۔وہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کو اپنے اہلِ خانہ کی طر ح عزت و احترام سے نوازتیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان ماتحت کام کرنے والے تمام ملازمین اُنھیں ’’انیتا آپا ‘‘کہہ کر پُکارتے ۔باہمی احترام ،خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار یہ تعلق وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ پُختہ تر ہو تا چلا گیا۔اُنھوں نے سندھ گرلز گائیڈ ز ایسو سی ایشن کی صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ انیتاغلام علی نے نظام تعلیم اور تعلیمی ترقی کے موضوع پر کئی اہم قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔وہ ایک عظیم محبِ وطن خاتون تھیں ، وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے۔ وہ سمجھتی تھیں کہ مادرِ وطن کے ساتھ محبت ہر پاکستانی کا جزوِ ایمان ہوناچاہیے ۔وطن محض چمکتے ہوئی سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارات کا نام نہیں بل کہ یہ تو اہلِ وطن کے جسم اور روح سے عبارت ہے۔وہ وطن کو ترقی ،تعلیم اور خوش حالی کے ارفع مقام پر فائز دیکھنے کی آرزو مند تھی۔وطن میں فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم دیکھنے کی تمنامیں انھوں نے دن رات ایک کر دیااورپاکستان کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔پاکستان میں تانیثیت کے معتبر اور موقر حوالے کی حیثیت سے ان کی ایک منفرد پہچان تھی۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے جو بے مثال جد جہد کی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کا دبنگ لہجہ ان کے خلوص اور دردمندی کا مظہر تھا۔ پاکستان کے تعلیمی اُفق پر ان کی یادیں اس طرح بکھری ہوئی ہیں کہ جس طرف بھی نظر اُٹھتی ہے اُن کی آواز سُنائی دیتی ہے۔اُن کی قومی ،ملی ،تعلیمی اور سماجی خدمات کوعقیدت سے لبریزآنکھیں دیکھتی ہیں اور خلوص سے معمور دل ان کو محسوس کر سکتاہے۔

انیتا غلام علی سندھ کی وزیر تعلیم بھی رہیں۔1966میں ممتاز علی بھٹو نے اپنے عبور ی دور میں اُنھیں کئیر ٹیکر وزیر تعلیم سندھ مقرر کیا۔انھوں نے تین ماہ تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں اور کوشش کی کہ سندھ کے نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔جنرل پرویز مشرف نے پروفیسر انیتا غلام علی کو 1999میں ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر شعبہ تعلیم کی اہم ذمہ داریاں تفویض کیں تو انھوں نے تعلیم کے شعبہ کی ترقی کی خاطر یہ ذمہ داریاں قبول کر لیں ۔جنرل پرویز مشرف نے جب ریفرنڈم کا اعلان کیا تو انیتا غلام علی حکومت سے الگ ہو گئیں۔ پاکستان میں خواتین ،بچوں اور بچیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے پروفیسر انیتا غلا م علی نے طویل جد و جہد کی ۔ وہ اس بات پر اصرار کرتی تھیں کہ ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے میں کوئی تامل نہیں کرنا چاہیے۔ وطنِ عزیز میں چائلڈ لیبر نے تو ہو نہار بچوں کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔وہ یہ سماں دیکھ چُکی تھیں کہ سمے کے سم کے ثمر نے ان بچوں کی زندگی کو مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔معاشرے سے چائلڈ لیبر کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں اُن کی خدمات کا پُوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ۔ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہء امتیاز ،پرائڈ آف پرفارمنس اوربے نظیر اکیڈمک ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ضعفِ پیری کے باعث اعضا مضمحل ہو جاتے ہیں اورعناصر میں اعتدال کا فقدان ہو جاتا ہے۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں انیتا غلا علی کو نظام استخواں کی ایسی تکلیف لاحق ہو گئی جس کے باعث وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہیں اوراور ان کی نقل و حرکت ویل چئیر تک محدود ہو کر رہ گئی ۔اس تکلیف کے باجود انھوں نے معذوری کو مجبوری نہ بننے دیاا ور عملی زندگی میں انتہائی مو ثر اور فعال کردار ادا کیا۔علمی اور ادبی نشستوں میں وہ باقاعدگی سے شرکت کرتیں اور اپنی گُل افشانیء گفتار سے سامعین کو مسحور کر دیتیں۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔ان کا خلوص اور دردمندی سے لبریزسلوک ملاقاتی کو ان کی عظیم شخصیت کا گرویدہ بنا دیتا ۔پاکستانی خواتین کو حوصلے ،اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے جد جہد پر مائل کرنے اور قومی تعمیر وترقی کے کاموں میں جوش و خروش سے حصہ لینے پر مائل کرنے میں انیتا غلا علی نے جو اہم کردار ادا کیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دردمندوں ،ضعیفوں ،مجبوروں ،محروموں اور مظلوموں کی خاطرایثا رکی جو مثال انھوں نے قائم کی وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ ان کی شخصیت کی دل کشی اور کردار کے حسن و جمال کا راز ان کے انکسار اور ایثار میں پو شیدہ تھا۔ سیلِ زماں سے کچھ محفوظ نہیں،بیتے لمحات کبھی واپس نہیں آتے صرف ان کی یادیں ہی زندگی بھر ساتھ نبھاتی ہیں۔میری دعا ہے اﷲ کریم پروفیسر انیتا غلام علی کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ رخشِ حیات پیہم رو میں ہے اور ہم سب کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ کر راہی ء مُلکِ عدم ہونے والوں کی طرف ہم سب کو ایک نہ ایک دن عازمِ سفر ہونا ہے۔ بصیرت رکھنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ ہمارے رفتگاں کی حسین یادیں ہی فصیلِ دِل کے کلس پر مثل ِ ستارہ ء سحر ضو فشاں ہیں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
بے تیشہء نظر نہ چلو راہِ رفتگاں
ہر نقشِ پا بُلند ہے دیوار کی طرح

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.