موت العالِم ، موت العالَم
(Syed Ali Husnain Chishti , Bhakkar)
حضرت شیخ الحدیث و التفسیر عالم
بے بدل ، مقرر پُر اثر ، شیریں زباں ، استادالاساتذہ ، آفتاب علماء فخر
اہلسنت ، اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی ، حضرت علامہ محمد شریف رضوی
ہمیں اور ہمارے جیسے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کو روتا بلکتا سسکتا چھوڑ
کر خالق حقیقی سے جاملے ''انا للہ وانا الیہ راجعون '' کسی شاعر نے شاید
اسی موقع کیلئے کہا تھا کہ
کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں ، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے
مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کا فرمان ذیشان ہے کہ جس شخص
نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا آقا قرار پایا آج ہم ایک ایسے شخص کا
جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے کا ذکر کررہے ہیں وہ شخص جس نے تمام عمر قال
اللہ و قال رسول اللہ ۖ سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا آپ نے
اپنے علم سے مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونک دی آقا کریم ۖ کا فرمان
ذیشان ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے رب کریم نے سب سے پہلے
میرے آقا کریم ۖ کو فرمایا پڑھ اپنے رب کے حکم سے علامہ شیخ الحدیث نے پوری
زندگی پڑھتے اور پڑھاتے گزاری ، علم ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا علم کی
تقسیم ہی آپ کا مقصد حیات تھا علم ادب سکھاتا ہے علم انسان کو آفاقی
بلندیوں پر فائز کرتا ہے آج ہر نیک محفل میں اس عظیم انسان کا ذکر علم دوست
ہونے کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے ہر محفل کی زینت و شمع محفل آپ بن جاتے تھے
ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ نگاہ ملتے ہی پتھر دل موم ہوجاتے ایک ہی نظر میں
دل و ذہن کو مسخر کرلیتے تھے ان کی محفل میں گفتگو سے طرز تخاطب سے ہر شخص
یہ سمجھتا تھا کہ میں ہی حضرت کی نظر میں سب سے اہم ہوں وہ مشفق ، معتدل
انسان دوست تھے جب تقریر فرماتے تو ہر شخص یہ سمجھتا کہ حضرت میرے دل کو
سمجھ کر گفتگو فرمارہے ہیں لوگ علم اور لذت دونوں محسوس کرتے کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
حضرت علامہ کندیاں میں پیدا ہوئے وہ سردار اہلسنت حضرت علامہ سردار احمد
رضوی محدث اعظم کے لائق ترین شاگردوں میں تھے اور آپ کو اپنے شاگرد پر ناز
تھا اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت علامہ محدث اعظم نے اپنی زندگیوں میں ہی
انہیں اپنی جگہ دور حدیث پڑھانے کا فرماای ان کی تمام زندگی علم کی شمع
جلانے میں گزری اور کیوں نہ جلاتے ان کے سینے میں جو علم بھرا تھا وہ زمانے
کے جید ترین عالموں نے بھرا تھا جن میں حضرت مولانا مفتی محمد حسین شوق،
مفتی فیض احمد، سردار ملت پاسبان مسلک امام احمد رضا حضرت علامہ سردار احمد
رضوی شامل تھے آپ نے اپنی زندگی میں علم و فضل کی ہزاروں دائمی شمعیں روشن
کیں جس کی روشنی سے ایک عالم منور ہورہا ہے اور انہیں شمعوں سے ورشنی لیکر
قیامت تک مزید شمعیں روشن ہوتی رہیں گی ہم ادب اور وسیلہ کے قائل ہیں ادب
اور روشنی کی یہ تجلی مانگے بن مانگے اپنی روشنی سے عالم کو منور و تاباں
کرتی رہے گی آپ پاکستان کے جید ترین عالم مفتی و شیخ الحدیث تھے حضرت علامہ
سردار احمد رضوی کے مرید و خلیفہ تھے بلند مرتبے کے مناظر جب آپ کی شخصیت
پرانوار کے سامنے علماء بیٹھتے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ان
کا پتّہ پانی ہوجاتا وہ صحیح معنوں میں مسلک اہلسنت کا فخر و آبرو تھے علم
کا سمندر ان کے سینے میں ٹھاٹھیں مارتا تھا جب گفتگوفرماتے تو انتہائی
اعلیٰ درجے کے نستعلیق الفاظ کا استعمال کرتے جب خطاب کرتے تو دھیمے لہجے
سے شروع کرتے آہستہ آہستہ جو بن پہ آکے خطاب کا یہ وقار بنتا کہ ہر شخص ہمہ
تن گوش ہوجاتا اور ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں صرف حضرت کی پروقار بارعب
آواز کا ملکہ ہوتا آپ کے لہجے کا وقار باجبروت حکمرانوں سے زیادہ طاقت کا
حامل ہوتا تھا آپ اپنے زور خطاب علم و فضل سے لاکھوں دلوں کو مسخر کیاپورے
پاکستان میں آپ کے عقیدت مند مرید متعلقین اور چاہنے والے موجود ہیں ہم نے
آپ کی چاہت کا اظہار آپ کے جنازے میں عوام کے اجتماع سے اندازہ لگاکے دیکھا
اب جب آپ کا چہرہ سامنے آتا ہے تو یہی صدا نکلتی ہے ۔
کہ اے موت تجھے موت ہی آئی ہوتی
پورے ملک کے علماء و پیران عظام سے آپ کے ذاتی تعلقات تھے سادات کرام کا
خاص ادب و احترام فرماتے مخدوم اہلسنت ، نقیب اتحاد بین المسلمین مہتمم
دارالعلوم جامعہ فریدیہ مخدوم حاجی سید عارف حسین قدوسی کا بہت احترام اور
خیال کرتے تھے ان کے ساتھ 40 سالہ رفاقت کا بڑی محبت سے اظہار فرماتے میں
نے پچھلے دس سال سے ان کے ساتھ کافی وقت گزارا علماء کی میٹنگز میں جلسوں
میں جلوسوں میں عید میلاد النبی ۖ کے جلسوں میں ان کی محبت ان کی شفقت اور
ان کا پیار ہمیشہ میرے ہمقدم رہا مجھ سے بڑی محبت کرتے بڑے آدمی کی طرح بڑے
وقار سے چشتی صاحب کہہ کر پکارتے ہم ادب کی انتہا کرتے ان کے گھٹنوں کے
ہاتھ لگا کر ملتے وہ محبت کا اظہار کرکے تمام زمزم محبت ہمارے دلوں میں
انڈیل دیتے اب سوچتے ہیںتو آپ کی جدائی برداشت کرنے کا یارا نہیں یہی کہہ
سکتے ہیں کہ
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
وہ اہلسنت کے محسن تھے بڑے بڑے قدآور لوگ ان کا احترام کرتے تھے میں نے ایک
دفعہ کشیدہ حالات کے پیش نظر اس وقت کے ایس ایس پی بھکر ہمایوں مسعود سندھو
کو اکابرین کی موجودگی میں یہ مشورہ دیا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ بزرگوں پر
مشتمل ایک کور امن کمیٹی کا قیام عمل میں لایاجائے تو جب کور کمیٹی بنی تو
ایس ایس پی صاحب نے مسلک اہلسنت سے دو افراد کے ناموں کا اظہار کیا جن میں
شیخ الحدیث اور مخدوم حاجی سید عارف حسین قدوسی شامل تھے ۔ مگر قدوسی صاحب
نے فرمایا کہ شیخ الحدیث محترم ہی ہمارے قائد اور نمائندہ ہیں ان پر مکمل
اعتماد اور اہل سنت کیلئے یہ اکیلے ہی سب کچھ ہیں ہم نے گزشتہ گیارہ سال سے
ماہ محرم میں امن سیمینار کا انعقاد کیا اور ہمیشہ شیخ الحدیث صاحب نے اس
کی صدارت کی پوری قوم کو ہمیشہ امن و اتحاد بین المسلمین کا سبق دیا حالات
ہم نے بہت زیادہ بگڑے ہوئے بھی دیکھے فرقہ ورانہ تشدد عروج پر پہنچ گیا
لیکن شیخ الحدیث صاحب اور مخدوم حاجی سید عارف حسین قدوسی نے اتحاد بین
المسلمین کو مدنظر رکھا اور سید وزارت حسین نقوی جناب رانا آفتاب احمد خان
، مولانا محمد عبداللہ ، مولانا سیف اللہ خالد کے ساتھ ملکر امن کی شمع
روشن کی اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے بھکر کو امن کا گہوارہ بنائے رکھا جبھی
تو کسی نے کہا تھا کہ
ڈھونڈوگے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
ایک اور شاعر نے بھی کہا تھا کہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
ہم آج ملکر ان کی عطاء کی ہوئی محبتوں کی تقسیم کررہے ہیں کسی نے کہا تھا
کہ جو قوم اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہیں وہ
صحیح معنوں میں محسن اہلسنت تھے ہمیں آج اہلسنت کے اتحاد و اتفاق اور قیادت
کی ضرورت ہے شیخ الحدیث صاحب کے ہوتے ہوئے قیادت کی کوئی ضرورت کبھی محسوس
نہیں ہوئی لیکن آج متفقہ قیادت کی ضرورت ہے آج اہلسنت کے سر سے شجر سایہ
دار ہٹ گیا ہے لیکن
راہ ہستی کا یہ دستور مقدر ہے جمال
نقش رہ جاتے ہیں انسان گزر جاتا ہے
ہمیں ان کے نقوش پر چلتے ہوئے منزل تک پہنچنا ہے ہمارے علماء کرام کو مسلک
کیلئے قربانی دینا ہوگی ہمارے پیران عظام اور سجادہ نشینوں کو عوام اہلسنت
کے بارے اب حقیقی طور پر سوچنا ہوگا ان سے ہاتھ پائوں پر ہی بوسے نہیں
دلوانے صحیح معنوں پر ان کے سروں پر دست شفقت رکھنا پڑے گا پیران عظام کو
خانقاہوں سے نکل کر اہل سنت کے مدارس اور مساجد کو آباد کرنا ہوگا ان کی
دیکھ بھال کرنا ہوگی تاکہ نظام مصطفٰٰی ۖ کے نفاذ کیلئے کوششوں میں اضافہ
ہو اہلسنت کو اتحاد و اتفاق کی دولت سے مالا مال کرنا ہوگا یہی ہے وہ حقیقی
خراج تحسین جو ہم حضرت علامہ مولانا شریف رضوی کو پیش کرسکتے ہیں ہم صدق دل
سے دعا گو ہیں اللہ عزوجل اپنے حبیب پاک ۖ کے صدقے اور وسیلے سے انہیں
اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق
عطا فرمائے اور ہم آج یہ عہد کرتے ہیں کہ جیسے اکابرین ملت حضرت علامہ شاہ
احمد نورانی نے اس قوم کیلئے تن من دھن قربان کیا شیخ الحدیث علامہ شریف
رضوی نے کوششیں کیں ہم اپنی بساط سے بڑھ کر مسلک حق اہلسنت کیلئے اپنا سب
کچھ قربان کریں گے آمین ثم آمین
والی اللہ دے مردے ناہیں کردے پردہ پوشی
کی ہویا جے دنیا اتوں ٹرگئے نال خموشی |
|