دونوں دھرنے جاری ہیں اور اب ٹرنینگ پوئنٹ پر پہنچ چکے
ہیں دونوں نے نواز شریف کو استعفیٰ دینے کا کہا ہے عمران خان صاحب آج ریڈ
زرون کراس کرنے اور طاہرالقادری صاحب نے ۲۴ گھنٹے کاالٹی میٹم دے رکھا ہے
اُدھر حکومت خاموشی سے حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ
حالات خراب کیسے ہوئے اور وقت پر حل کیوں نہ کیے گئے۔ پاکستان میں اتنی
قلیل مدت میں کسی بھی منتخب حکومت کے خلاف لوگوں کا متنفر ہونا ایک منفرد
واقعہ ہے۔ یہ بھی منفرد واقعہ ہے کہ عین انتخاب کے آخری لمحے پر کوئی سیاسی
لیڈر یہ بیان آن ائیر کر دے کہ مجھے پارلیمنٹ میں اکثریت چاہیے۔ اگر راز کو
راز رکھنا کا گر جانتے ہوتے تویہ بھی بیان دیا جا سکتا تھا کہ ہم اکثریت سے
کامیاب ہونگے تو بات بن جاتی۔ اُدھر نمبر بنانے کے چکر میں۳۵ پنکنچرز لگانے
کے کوڈ ورڈ ز بھی اپنا کام کر گئے اور راز فاش ہو گیا۔ کراچی میں تو
دھاندلی اور ظلم کی انتہا کر دی گئی اور جماعت اسلامی کو انتخابات کا بائی
کاٹ کرنا پڑا۔۴ حلقے نہ کھول کر بھی غلطی کر دی گئی۔ عمران خان کے خیالات
سے محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب کو جس نادیدہ قوت سے پارلیمنٹ میں
اکثریت مانگ رہے تھے اُ س نے اُنہیں پارلیمنٹ میں اکثریت دلائی تھی ۔
بدقسمتی کہیے یا نواز شریف صاحب کی بے تدبیری کہ وہ ملک کے حساس ادارے سے
بھی اُلجھ پڑے۔ایک قوم پرست صحافی کے برخوردارجو کالمسٹ اور ٹی وی اینکر
بھی ہیں کے واقعے کو مس ہینڈلنگ کرتے ہوئے گرداب میں پھنس گئے۔ایک ٹی وی
چینل نے جس طرح ملک کے قابل قدر ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ پر بغیر ثبوت
کے گھنٹوں الزام تراشی جاری رکھی تھی تو اِس الزام ترشی کی مخالفت کو
کنٹرول کرنا حکومت کام تھا کیونکہ ملک کے ادارے حکومت کے ادارے ہوتے ہیں
مگر حکومت ایسا نہ کر سکی بلکہ غیر محسوس طور پر ٹی وی چینل کی حمایت کو
بھی عوام نے صحیح قدم نہ سمجھا۔ آئی ایس آئی کے حق میں عوام نے ملک بھر میں
احتجاج شروع کر دیا ۔حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ملک کے کیبل
آپریٹروں نے جب جیو ٹی وی کے ملک دشمن اور مذہب دشمن پروگرام کے خلاف ہو
گئے تھے اور جیو کو آن ایئر کرنے سے انکار کیا توآزادی اظہار کے نام پر ان
کی گرفت کی گئی جو نادانی تھی۔ کیاآزادی کے نام پر ملک دشمنوں کے سامنے
اپنے قابل قدر ادارے آئی ایس آئی کو بدنام کرنا آزدی اظہار ہے؟ ملک میں
بیرروزگاری پہلے سے زیادہ ہو گئی۔ لوگ مہنگاہی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس کا
ادراک کرنے کے بجائے حکومت چین سے گوادر سے کوری ڈور بنانے کے منصوبے بنا
تی رہی ۔یہ ایسا ہی ہے کہ بھوکوں کو روٹی نہیں مل رہی اور انہیں بسکٹ کھانے
کا کہا جا رہا ہے۔چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ نہ ختم کی تو میرا نام بدل دیں کے
نعرے لگا کر اقتدار تو حاصل کر لیا مگر سوا سال گزر گیا لوڈ شیڈینگ میں ذرا
برابر فرق نہیں آیا۔ ملک کی انڈسٹری پہلے سے زیادہ بد حال ہو گئی۔ ملک میں
دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کئے گئے مگر بودے
طریقے سے ڈیل کر کے وقت ضائع کیا گیا اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
کراچی ایئر پورٹ حملے میں بیرونی عناصر ملوث تھے۔ حملے کے فوراً بعد فوج نے
شمالی وزیرستان آپریشن شروع کر دیا۔ اس سے ایک مخصوص لابی تو خوش ہو گئی
مگر تاریخ سے واقف لوگ کہتے رہے ہیں کہ کیا گوریلا جنگ جو دشمنوں نے ہمارے
ملک پر مسلط کر دی ہے اور ہماری فوج کو اُلجھا دیا اس سے نکلنے کا طریقہ
مذاکرات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کیا امریکہ ویت نام کے گوریلوں سے جیت سکا
تھا؟ کیا امریکااب بھی افغانستان میں بھاگنے کے راستے تلاش نہیں کر رہا؟
امریکا اِس آپریشن کے لیے سالوں سے کوشش کرتا رہا ہے جس کااظہار فوج کے
شعبہ اطلاعات کے سابق سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے پریس میں انکشاف کیا
تھا۔ مگر فوج ایسا کرنے سے رُوکی رہی۔امریکا کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ
وہ اپنی گریٹ گیم کے تحت پاکستانی فوج کو اپنے ہی ملک میں اپنوں سے ہی
اُلجھا دیا جائے۔ حکومت کا یہ حال ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے دو دن بعد اُس
نے اِسے اُون کیااورپا رلیمنٹ میں وزیر اعظم صاحب نے خطاب کیا۔ دہشت گردی
کو جڑ سے اُکھڑنے کی بات کی جو اپنی سیاسی برتری ثابت کرنے کے لیے اس سے
پہلے بھی کی جا سکتی تھی۔ طاہرالقادری صاحب کی جنگ جویانا انقلابی مہم کو
غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ گلو بٹ جیسے کردار نے حکومت کو بدنام
کیا۔حکومت اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت کی ذمہ دارہوتی ہے نہ کہ اختلافات
کی بنا پر انہیں جان سے مار دے۔ پہلے طاہرالقادری صاحب کے ۱۲ کارکن ہلاک
ہوئے اب یوم دعاء پر بقول طاہر القادری صاحب کے چار مذید کارکن ہلاک کر
دیئے گئے۔ اس سے طاہرالقادری صاحب کے جنگ جویانا انقلامی مہم کو مہمیز ملی۔
اب تو عدالت نے حکم جاری کیا ہے کی کہ نواز شریف صاحب ،شہباز شریف صاحب اور
دوسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے جس سے انصاف ملنے کی توقع پیدا ہو
گئی ہے۔ حالات کو مزاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا مگر حکومت کی سرد
مہری نے حالات خراب سے خراب تر کر دیئے ہیں۔ عوامی تحریک کی حمایت میں
چوہدری برادران حاضر ہیں ویسے بھی ۱۰ مرتبہ فوجی وردی میں صدر چننے کا
ریکارڈ بیا ن دے چکے ہیں اس تحریک میں دل و جان سے شریک ہو چکے ہیں۔ شیخ
رشیدصاحب اپنی جماعت کے اکلوتے لیڈرتو ہر برات کے براتی بننے کے لیے ہر وقت
تیار رہتے ہیں اب پھر اتحادی بن چکے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل ،مجلس وحدت
امسلمین بھی قادری صاحب کے ساتھ ہیں۔
قارئیں! جماعت اسلامی ،پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اپوزیشن کی سب پارٹیوں
نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج کرنا سب کا جمہوری حق ہے ساتھ ہی ساتھ یہ تینوں
جماعتیں صلح صفائی کی کوششیں بھی کر رہی ہیں جو انشاء اﷲ ضرور کامیاب ہوگی۔
فوج دہشت گردوں کے خلاف ضربِ عضب میں مصروف ہے ۔ حکومت کو جلدی کا مظاہرہ
کر کے حالات کو سیاسی طریقے سے کنٹرول کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ فوج
کو حسب روایات مداخلت کرنی پڑے جو یقیناً ایک ناپسندیدہ اقدام ہو گا ۔ عوام
بصد مجبوری اس کا خیرمقدم کریں گے۔ اور حالات سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل
جائیں اور دشمن یہی چاہتے ہیں۔ ہماری فوج کو بھی چاہیے کی وہ غیر جانبدار
رہے۔ اسی میں اس کی عزت اور ووقار ہے۔ احتجاج کرنے والوں دونوں صاحبان سے
درخواست ہے اپنی انقلاب دھرنے اور آزادی دھرنے کو کنٹرول میں رکھیں۔
|