26 مئی2014 ء لوک سبھا الیکشن میں ملک کی سب سے بڑی
اقلیت مسلمانوں کے وؤٹ بینک کے تقسیم کار کے سبب فرقہ پرست پارٹی بی جی
پی کی حکومت مرکز میں قائم کیا ہوئی، لگتا ہے کہ ہندتو کے
علمبردارآرایس ایس کی حکومت پورے طور سے قائم ہوگئی اوروؤٹ بینک کی
سیاست کے لئے مفاد پرستی کی شکار مرکز میں برسر اقتدار بی جی پی حکومت
اور اس کی ’جنم داتا‘‘ آاریس ایس کے سربراہ اور اس کے ’’ہم پیالہ ہم
نوالہ‘‘ زہر افشانی‘‘ میں اپنی مثال آپ رکھنے والے’’ آتش فشاں لیڈران‘‘
اب فرقہ پرستی اور ’’ہندوتو کے نفرت آمیز پیغام‘‘ کو گجرات سمیت پورے
ملک میں نافذ کرنے کی عملی تیاری شروع کرچکے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی
اپنی تقریروں میں سابقہ پارلیمانی تقریروں کی طرح بدعنوانی کرپشن کو
ختم کرنے کی بات توکرتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ فرقہ پرستی جو ملک اور
سماج کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے
فرقہ پرستوں کے لئے تو اچھے دن کی شروعات ہوگئی کہ شر پسند عناصر فساد
پر فساد برپا کریں اور انہیں نہ کسی کا خوف اور نہ کسی کا ڈر گویا
’’سیاں بھئی کوتوال تو ڈر کاہے کا ‘‘لیکن مسلمانوں کے لئے ان کے آبا ء
و جداد کی سرزمین بھارت اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی جارہی ہے اور ان
کے جان و مال کی تباہی کے ساتھ ان کے جسم سے’’ روح محمدی ‘‘ نکالنے اور
ہندوتوکے ’’بھگوا رنگ‘‘’’’یکساں سول کوڈ ‘‘ میں رنگنے کی ناپاک سعی کی
جارہی ہے ۔
اس کے لئے آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے’’ گنگا جمنی تہذیب
‘‘یا’’کثرت میں وحدت ‘‘سے متصف ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کی ذہنیت کو
پروان چڑھایا اور حسب سابق اپنی ’’بندوق کی گولی‘‘ یا اپنے ’’ترکش کا
تیر‘‘ نکالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی پہچان’’ ہندوتو‘‘ سے ہے بلفظ
دیگر ہندوتو کی حکومت ہی اس ہندوستان کی شان اور پہچان ہے حالانکہ کوئی
ان سے پوچھے کہ یہ پہچان کب سے ہوگئی ؟ کیا جب سے آرایس ایس کا وجود
ہوا ؟ یا جب سے مرکز میں بی جی پی کی حکومت قائم ہوئی ؟ یا قدیم زمانے
سے ہی یہاں کی پہچان ہندوتو ہے ؟ معاملہ جو بھی ہو کوئی بھی انصاف پسند
شہری یا سیکولرزم پر یقین رکھنے والے سیاسی و ملی لیڈران ایسا ماننے کے
لئے تیار نہیں بلکہ سبھی انصاف پسندہندوستانیوں یا بھارت واشیوں کا
ماننا ہے کہ ہندوستان کی پہچان یہاں کی ’’گنگا جمنی تہذیب‘‘ ہے ،یہاں
کی باہمی اتحاد و یکجہتی ہے ،یہاں کا ’’پر امن تہوار ‘‘ہے، یہاں کا وہ
’’جمہوری قانون ‘‘ہے جس کی رو سے تمام مذاہب کے پیروکار ہندو، مسلم
،سکھ ، عیسائی ، جین ، پارسی وغیرہ کا اپنی اپنی روش، اپنی تہذیب و
ثقافت اور اپنی مختلف زبانوں میں کسی بھید بھاؤ کے بغیر زندگی گزارتے
ہیں ہے، یہاں کہ شناخت ہم قوم مسلم کے آبا و اجداد کی وطن عزیز کے لئے
وہ بے پناہ قربانیاں ہیں جس کی بدولت 15اگست 1947ء کو انگریز دہشت
گردوں کی’’ دہشت گردی ‘‘سے ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا اور ہم تو ساتھ
میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کی پہچان ہمارے آبا و اجداد کا قائم
کیا ہوا لا قلعہ ، تاج محل ، قطب مینار وغیرہ سمیت ہمارے سیکڑوں اولیا
ء اﷲ، علما اور قائدین ہیں جن کی بدولت ہندوستان کی پہچا ن عالمی سطح
پر باقی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یقینا کہا جا سکتا ہے کہ
آج یہی چیزیں ہندوستان کی صحیح معنوں میں شناخت اور پہچان ہیں جن سے
فیضیاب ہونے کے لئے دنیا کے دیگر ملکوں کے سیاح آج بھی بھارت کا رخ
کرتے ہیں ۔
اس سے پہلے 11اگست 2014 کوآرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اڈیشہ کے
شہر کٹک میں ایک پروگرام کے دوران اپنی منفی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے
اپنی سابقہ ’’ہندو مسلم منافرت ‘‘کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے تمام لوگوں
کے ہندو ہونے کی بات کہی تھی اور دلیل ’’پہاڑ‘‘ سے ززیادہ مضبوط پیش
کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انگلینڈ میں رہنے والے انگریزہیں، جرمنی میں
بسنے والے جرمن ہیں، امریکہ میں رہنے والے امریکی ہیں تو ہندوستان میں
رہنے والے کیوں نہیں ہندو ہیں؟ حالانکہ انہیں فرقہ پرستانہ ذہنیت کو
بالائے طاق رکھ کر ذرا سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ سرزمین ہند میں اسلام
، سکھ ، جین، پارسی،یہودی، عیسائی وغیرہ دیگر دھرم کی طرح ہندو بھی ایک
دھرم ہے جس کی بنیاد پر اس دھرم کے متبعین ،پیروکاروں کو ’ہندو‘
کہاجاتا ہے بر خلاف انگریزی ، جرمنی، امریکی ، ایرانی اور پاکستانی
وغیرہ کوئی دھرم اور مذہب کا نام نہیں بلکہ ان جیسے دیگر ملکوں کے
باشندوں کو ان کے ملکوں کی جانب منسوب کرنے کی وجہ سے امریکی، اانگریز،
روسی ، چینی، جاپانی وغیرہ کہاجاتا ہے جو صحیح بھی ہے البتہ ہندوستان
کے سبھی باشندوں کو بھارتی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بابا راؤ امبیڈ کر نے
سیکولرزم کی بنیاد پرملک کے تمام مذاہب کے پیروکاروں کا خیال رکھتے
ہوئے ملک کا نام آئین ہند میں ہندوستان نہیں بلکہ بھارت رکھا تھا لیکن
آرایس ایس کو بھارتی قانون پسند نہیں انہیں تو اپنا ’’بھگوا قانون ‘‘ہی
چاہئے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ ’’بھارت دھرتی ماں‘‘ کے محض زبانی دعوی دار سپوت
آرایس ایس، سربراہ موہن بھاگوت کے شر پسندانہ بیان کی بی،جی ،پی کے
علاوہ ملک کی تمام سیکولر سیاسی لیڈروں نے سخت ترین لفظوں میں مذمت کی
اور اسے آئین ہند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے مترادف بتایا تو اس پر بی
جی پی کے شدت پسند لیڈر سبرامنیم سوامی نے تمام ہندوستانیوں کو ہندو
ہونے کے متنازعہ بیان کا دفاع کرنے میں ایک اور فتنہ انگیز بیان دے دیا
کہ وہ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے متنازعہ بیان کو ثابت کرنے کے
لئے اپنی فرقہ پرست پارٹی کی نمائندہ محترمہ نجمہ ہبت ا ﷲ (جن کی غلطی
یہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ مسلم نام کا لاحقہ لگا ہوا ہے ) کا ڈی این
اے ٹسٹ کرائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ نجمہ ہبت ا ﷲ( جو فی ا لحقیقت ان
موڈرن تعلیم یافتہ افراد میں سے ہیں جومسلمان کہلانے میں بھی شرم کرتے
ہیں) اپنی پارٹی کی فرقہ پرست سوچ کو تقویت پہونچائیں اور اپنا ڈی این
اے ٹسٹ کرالیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے ان کا ڈی این اے ٹسٹ ہندوتو سے میچ
کرجائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں آریس ایس سربراہ کے نمائندے اوران
کی پارٹی کے لیڈر سبرامنیم صاحب یہ کہیں کہ درحقیقت تمام ہندو اصل میں
مسلمان ہوں؟ اور ان ہندوؤں کا ڈی این اے ٹسٹ مسلمانوں سے مل رہا ہے ؟
اور ایسا اس لئے بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے تمام انسان اصل میں مسلمان
ہی تھے کیوں کہ سبھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہمارے پیغمبر
سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اسی وجہ سے انسانوں کو آدمی بھی
کہا جاتا ہے اور آدم مسلمان تھے لہذا ان کی اولاد بھی اصل میں مسلما ن
ہوئی ، اور پھر حضرت محمد ﷺ کا فرمان بھی موجود ہے کہ ہر انسان فطرت کے
لحاظ سے’’ دین اسلام‘‘ پر پیدا ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ اسے یہودی
بنادیں ، چاہے تو نصرانی بنادیں، چاہیں تو مجوسی (آتش پرست) (یا
ہندو)بنادیں اور یہ صحیح بھی ہے کہ حضرت آدم سے لے کر ہمارے پیغمبر
سیدنا محمد عربی ﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار انبیا و رسل تشریف
لائے اور سبھی نے اسلام کی اصل’’ توحید و رسالت‘‘ کا پرچار و پرسار
کیااورحضرت آدم علیہ ا لسلام کی اولاد میں بہت سی قوموں نے ان کی باتوں
پر لبیک کہا اوراپنی دنیا و آخرت سنوار لی اور بہت سی نے انکار کیا
اورجہنم کی مستحق ٹھریں۔
اور ہندو بھائیوں کے اصل میں ’’مسلمان ‘‘ہونے کا نظریہ اختیار کرنے میں
ہندو بھائیوں کے ترجمان آرایس ایس کو پریشانی بھی نہیں ہونی چاہئے کیوں
کہ خود سوامی شنکر اچاریہ بھی اپنی ایک تقریر میں کہ چکے ہیں کہ ہندو
دھرم کوئی دھرم نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں ہم ’’سناتھن‘‘ دھرم کے
پیرو کار ہیں جس میں صرف ایک خدا کی پرتش (پوجا )کرنا جائز ہے اور یہ
نظریہ درحقیقت دین اسلام سے ہی ماخوذ ہے اور آگے چل کر سناتھن دھرم کے
پیرو کار میں تبدیلیاں رونما ہوتی گئی اور وہ بت پرستی کی جانب مائل
ہوکر اپنا مذہب تبدیل کربیٹھے اور اس طرح خود کو ہندو کہلانے لگے سوال
یہ ہے کہ فرقہ پرست لیڈر سوامی سبرامنیم کیا سوامی شنکر اچار یہ کی
سناتھن دھرم والی بات تسلیم کرسکیں گے اگر ایسا ہے تو میں کہوں گا کہ
دنیا کے تمام انسان خواہ وہ ہندو ہوں یا دیگر مذاہب کے پیروکار اصل میں
مسلمان تھے؟
اور تو اور مسلمانوں کے لئے جہاں ایک جانب فرقہ پرستی کو فروغ دینے
والے آریس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور اشتعال انگیز بیان بازی کرنے
والے بی جی پی لیڈران پروین توگڑیا ، اشوک سنگھل وغیرہ اس شناخت
اورپہچان کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کی جگہ ہندتو کو اس ملک
کی پہچان بتا رہے ہیں وہیں دوسری طرف سیکولرزم کے داعی و علمبردار پریس
کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو بھی کھل کر آرایس ایس کے
’’یکساں سول کوڈ‘‘ کی حمایت اور مسلم ’’پرسنل لاء ‘‘کی مخالفت میں
سامنے آگئے اس سے قطع نظر کہ جسٹس کاٹجو 2اگست2014 ء سپریم کورٹ کے
جسٹس اے آردوبے کے کی’’ مہا بھارت اور گیتا ‘‘ جیسی کتابوں کو اسکولو ں
میں پڑھائے جانے کو ’’بھارت کے سیکولرزم‘‘ کے منافی بتایا تھا اور اس
کی شدید مذمت کی تھی اب وہی سیکولرزم کو ختم کرکے آرایس ایس کا ’’زہر
فشاں نظریہ‘‘ ’’یکساں سول کوڈ نافذ‘‘ کرنے کا مسلمانوں سے مطالبہ بھی
کرنے لگے ہیں اور انہوں نے گزشتہ 17اگست 2014 کوکہا کہ بھارت کا اصلی
مسلمان وہ ہے جو نام نہاد اونچی ذات کے مسلمان دیگر اقوام میں بھی شادی
کریں اور بڑی تعداد میں مسلم پرسنل لا ء کو ختم کر کے اس کی جگہ( فرقہ
پرستی اور ہندو مسلم کو لڑانے والی پارٹی آرایس ایس کا تیار کیا ہوا)
یکساں سول کوڈ آئین کا مطالبہ کریں اوراس کو مان لیں جیسے کہ ہندو شادی
قانون ،1955ء اور ہندو جانشینی قانون1956 ء سے پرانا ہندو قانون ختم
کردیا گیا تاکہ عورتوں کو کمترسمجھ کر فیصلہ کرنے کا سلسلہ ختم ہو سکے
۔
سوال یہ ہے کہ آپ مسلمانوں کوکن اقوام اور جماعت سے شادی کرنے کی بات
کہ رہے ہیں؟اگر فلمی دنیا کے چمکدار ستاروں کی طرح کہ نہ ماں کا صحیح
پتہ اور نہ باپ کا کوئی دین و دھرم ؟تو ظاہر سی بات ہے’’ مہذب اسلام
‘‘میں اس طرح کی شادیوں کی اجازت نہیں کیوں کہ ایک کا فر ، بدمذہب
کانکاح ایک مسلمان سے نہیں ہوسکتا (قران کریم )اور اگر مسلمانوں میں ہی
اونچ نیچ کی بات کو بنیاد بناکر آپ نصیحت کررہے ہیں تو اس سلسلے میں
عرض ہے کہ اگرماں باپ کی رضا مندی نکاح میں شامل ہے تو فریقین میں اونچ
نیچ کوئی معاملہ نہیں ہے اور مسلمانوں میں باقاعدہ اس طرح کی شادیاں
ہوتی ہے، رہ گئی بات کہ مسلمان مسلم پرسنل لا ء ختم کرکے اس کی جگہ
یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کریں جیسا کہ ہندو دھرم کے پیروکار کے قوانین
میں تبدیلیاں ہوگئیں تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہندو دھرم کی شادیاں یا
دیگر معاملات کے قوانین چونکہ ان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین ہیں اس لئے
اس میں وہ حالات کے تناظر میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں بر خلاف ’’اسلامک
لاء‘‘ کہ اس میں اسلامی مقاصد کے خلاف کسی بھی طرح کی تبدیلی کرنا
اسلام کے پیروکار کے لئے حرام ہے کیوں کہ ’’ مسلم پرسنل لاء‘‘یہ
مسلمانوں کا بنایا ہو قانون نہیں ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ
کابنایا ہوا قیامت تک کے لئے قانون ہے مسلمان تو کیا آپ جیسی ذہنیت
رکھنے والے لوگ بھی اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے اور اس میں تبدیلی کا
مطالبہ نہ کرنے پر ہمیں آپ سے نہ تو حب ا لوطنی کی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت
ہے اور نہ ہی ہندوتو کی پہچان اور شناخت کی حاجت ہے۔
اور جسٹس جی ! آپ یہ بھی بتائیں کہ یکساں سول کوڈ کی آخر ضرورت کیوں
پیش آئی ؟کیا بھارت کا قانون ہم بھارتیوں کو مذہبی آزادی نہیں دیتا اور
اگر دیتا ہے تو آخر آر ایس ایس کی’’ آئین ہند مخالف‘‘ قانون کا مطالبہ
ہم بھارتی مسلمانوں سے کیوں کیا جارہا ہے ؟ اور کیوں کہا جارہا ہے کہ
یکساں سول کوڈ کا مطالبہ ہی سچے بھارتی مسلمان ہونے کی دلیل ہے ؟ رہ
گئی بات عورتوں کے حقوق کی تو جسٹس صاحب آپ اور تمام آارایس ایس کے سر
کردہ رہنما ؤں سے ہم عرض کریں گے کہ تعصب کی عینک یا دنیاوی منفعت کو
بالائے طاق رکھ کر اسلام کا صحیح مطالعہ کریں( کم از کم مولانا بدرا
لقادری مصباحی(ہالینڈ )کی آسان لب و لہجے پر مبنی کتاب ’’اسلام اور امن
عالم‘‘ آپ کی رہنمائی کے لئے بہتر ہو گی)تو ببانگ دہل کہیں گے اسلام کے
آئین جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے نافذ ا لعمل تھے اسی طرح آج بھی اس
کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے اور زمانے کے چیلنجیز کا منھ توڑ جواب
دینے کی صلاحیت رکھتا ہے بھارت ہمارا دیش کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور
اآئندہ بھی (ان شا ء اﷲ) اس لئے ہم آپ اور آر ایس ایس کے سربراہ سمیت
تمام فرقہ پرستوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہندوستانی آئین میں چھیڑ چھاڑ
کرنے کی کوشش نہ کریں کیوں کہ یکساں سول کوڈ کا مطالبہ جہاں ایک جانب
ہندوستان یا بھاررت میں ماحول خراب کرنے کی کوشش سمجھی جائے گی وہیں
دوسری جانب دیش بھگتی کے خلاف بھی گردانا جائے گا اس لئے ہم کہیں گے کہ
ہم مسلمانوں کو بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کے مقابل ’ہندوتو‘ تہذیب نہیں
چاہئے اور نہ ہی آرایس ایس رہنماؤں سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ چاہئے،
ہمارے لئے اسلام اور ہمارے آبا و اجدا کا آزاد کیا ہوا ہندوستان یا
بھارت کافی ہے اور۔اپنے خون سے بھارت کو آزادی دلانے والے ،بھارت کی
بودو باش اختیار کرنے والے مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ مت کیجئے کیوں کہ
بی جی پی کی’’ ہندوتو ‘‘ پالیسی اور مسلمانوں کی’’حب ا لوطنی‘‘ کامطلب
یکساں سول کوڈ کا مطالبہ ملک کی سا لمیت کے لئے شدید خطرہ ہے۔ |