آج ملک کی سیاسی قیادت پاکستان
کو جس مقام پر لے آئی ہے ،ان حالات میں معاملہ یہ نہیں رہا کہ قوم کس کے
ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرے بلکہ حادثہ یہ ہوگیا ہے کہ کس کس کے ہاتھ پر
اپنا لہو تلاش کیا جائے ؟ افسرانِ بالا کی من مانیوں، حصولِ انصاف میں
پریشانیوں اور حکمرانوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکات سے اب معاملات اور حوادثات
سانحات میں بدل چکے ہیں ۔جہاں کسی معاملہ پر غورو فکر نہ ہو تو وہ حادثہ بن
جایا کرتا ہے ۔اور حادثہ کو رک کر اگر دیکھا نہ جائے تو وہ سانحہ کا روپ
دھار لیتا ہے ۔اس ملک کے المیات میں سے ایک المیہ یہ سب سے بڑا ہے کہ جب سے
پاکستان وجود میں آیا ہے ،قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد سے ہر دور
میں ہر حکمران نے عوام سے جھوٹ بولا ،منافقت دکھائی، سیاسی جوڑ توڑ میں کھو
کر ،نشۂ اقتدار میں مست مئے پندار ہو کر عوام سے رشتہ توڑ لیا ۔ذاتی مفادات
کو سرِ فہرست رکھا اور اقربا پروری نے حقداروں کو بد ظن کر دیا ۔اس پر طرہ
یہ کہ اگر کسی نے اس رویہ پر اظہار خیال کیا اسے عنانیت اور شہنشایت کے نشہ
میں ایسے لاجواب کیا گیا کہ جیسے یہ حکومت اور اقتدار ذاتی میراث ہے اور
ہمیشہ قائم رہے گی ۔نتیجتاًاس رویہ کی وجہ سے جس کا جو دل چاہا وہ کرتا گیا
اورکرپشن کا زہر پاکستان کے استخوانوں میں راسخ ہوگیا ۔بدقسمتی سے اس ملک
میں قانون نام کی کوئی چیزہے نہیں اگر اس کے نشان کہیں پائے بھی جاتے ہیں
تو لوگوں کو اس کی گرفت کا خوف نہیں ہے ۔آج اس لاقانونیت نے اس کے امن و
سلامتی کو تباہ و برباد کر دیا اور جھوٹ ازم ،منافق ازم نے اس کے چہرے کو
مسخ کر دیا ہے ۔اور حالات یہ ہو چکے ہیں کہ
ہر سچ صلیبِ حرص پر قربان ہو چکا
حرف داروغ وقت کا ایمان ہو چکا
اس ملک کے معاشی ،تعلیمی ،سیاسی اور تمام قسم کے معاملات جو پہلے ہی ناگفتہ
بہہ تھے ،چھ روزہ انقلاب ، دھرنا و مارچ نے پاکستانی معشیت اور شہری زندگی
کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔اورمقام افسوس یہ کہ اس ملک کی برسرِ اقتدار یا
کوئی دوسری ایسی قیادت موجود ہی نہیں جو کہ سڑکوں پر ننگے آسمان تلے بے
سروسامان احتجاجی لوگوں سے کسی قسم کی مفاہمت کا راستہ نکال سکے ۔جس کا
باعث یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ’’بابر باعیش کوش
کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘اور بے حسی اس انتہا تک پہنچ چکی ہے کہ اپنی من
مانیاں کرتے ہوئے دوسری جماعتوں کے ارکان و قائدین کو صحیح وقت پر نہ صرف
نظر انداز کرتے ہیں بلکہ اپنی اکثریت کے گمنڈ میں منہ زوریاں اور جگت
بازیاں کرتے ہوئے انھیں روند ڈالنے کے رویے کے عادی ہو چکے ہیں ۔جس کیوجہ
سے اس ملک و ملت کا شیرازہ بکھر چکا ہے ۔
حالیہ بحران اور ان موجودہ دھرنوں کی وجہ سے سنگین قسم کی محاز آرائی کا
خدشہ سروں پر منڈلا رہا ہے ۔اس محاز آرائی سے قطع نظر ،یہ قانونی اور آئینی
ترجیحات نہیں بلکہ پاکستان کی نوخیز جمہوریت اور ڈگمگاتی ہوئی معشیت کو
سہارا دینے کے لیے سیاسی معروضات ،چاہے وہ کتنی حوصلہ شکن کیوں نہ ہوں ،کی
ضرورت پیدا ہوتی نظر آرہی ہے ۔اس وقت دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی گو مگو کی
کیفیت میں ہیں کیونکہ بندر بانٹ کی وجہ سے اندر سے سب ہی موجودہ حکومت کی
حکمت عملیوں سے خائف ہیں ۔اور جو جماعتیں بظاہر ہم پیالہ ہم نوالہ نظر آتی
ہیں وہ بھی حکومتی کارکردگی کے خلاف بولنے اور ان کی ناکام قیادت اور اندازِ
شہنشایت پر تبصرہ کرنے سے نہیں چوکتیں ۔دکھ تو یہ ہے کہ اقوام عالم نے جان
لیا کہ
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا نے آسمان سے زمیں پر ہم کو دے مارا
اور آج ہم پوری دنیا کے سامنے تماشا بن چکے ہیں ۔احتجاجی سیاست حکومت کو
الیکشن تک لے جائے گی یااس کی ہچکولے کھاتی جمہوری ناؤ کو ایک بار پھر
آمریت کے سامراجی نظام کا حصہ بننا ہوگا اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو
جائے گا ۔مگر موجودہ انقلاب کا علم بلند کرنے والے ملک کو اس مقام پر لے
آئے ہیں جس کے بارے میں حبیب جالب نے کہاتھا ۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
تاہم اس انتشار سے ایک چیز واضح ہو گئی ہے کہ عوام اب کسی مجرم اور نااہل
سیاستدانوں کو برداشت نہیں کرے گی ۔اس چیز سے بہت سے ایسے لوگ فائدہ اٹھا
سکتے ہیں جو کہ اس اقتدار کے قابل نہ ہوں مگر وہ عنان حکومت سے سرفراز
ٹھہریں ،اس سے ملک کو کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں بلاشبہ ان کا بیان قبل
از وقت ہوگا ۔لیکن وہ بھی وقت کی پکار سن لیں کہ اگر آج کے بعد کوئی بھی
ایسا فرد جس کے سر پر تاج رکھا گیااور اسے تخت نشیں ہونے کا موقع مل گیا تو
خوش نصیب ضرور ہوگا مگر میڈیا نے پاکستان کی سوئی ہوئی عوام کو جس حد تک
بیدار کر دیا ہے اس سے اب انھیں اپنے لیڈران کی فریب کاریوں طوطا چشمیوں
اور اللوں تللوں سے اتنی آگاہی مل گئی ہے کہ وہ بھی عوام کے احتساب سے بچ
نہیں سکیں گے ۔اب پاکستان کے باشعور عوام اس بات کو پوری طرح جان گئے ہیں
کہ الیکشن کے موقع پر ضرورت مند اور مانگت بن کر آنے والے فصلی بٹیرے یا وہ
کہ جنھوں نے عوامی خدمت کا نام دیکر سیاست کو ایک بہت بڑا منفعت بخش
کاروبار بنا رکھا ہے ان کو کسی جماعت کسی مسلک کسی مذہب کسی خاندان یا
علاقائی نسبت کی بنا پر آئندہ ووٹ نہیں دیں گے بلکہ جس دورخی پالیسی سے وہ
ووٹ لینے آتے ہیں اسی دورخی پالیسی سے ان کے آنے پر خوشی کا اظہار کریں گے
مگر جب اپنا ووٹ استعمال کریں گے تو ان سیاسی کاروباری لوگوں کو ووٹ دیتے
وقت آنکھیں بند نہیں کریں گے بلکہ ایک ذمہ دار با ضمیر اور خوددار پاکستانی
بن کر اپنے ضمیر کی آواز سن کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے ۔
جہاں تک بات اس وقت میدان میں موجود کھلاڑیوں عمران خان اورڈاکٹر
طاہرالقادری کی ہے جیسا کہ انھوں نے بہت سے افراد کو اپنا تابع بنا رکھا ہے
تواس سے قطع نظر کہ ان کی قیادت اور متاثر کن خطابات سے لوگ کیا رائے رکھتے
ہیں اور وہ کن شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں،میں جب ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے
ایک چھوٹی سی کہانی یاد آتی ہے ۔
ایک بادشاہ کے سامنے ایک عالم ،ایک نابینا ،ایک غریب اور ایک عاشق بیٹھے
تھے ۔شعرو شاعری کی بات ہوئی تو بادشاہ نے کہا کہ میں آپ کو دوسرا مصرعہ
سنا دیتا ہوں ۔پہلا مصرعہ آپ کو سنانا ہوگا ۔بادشاہ نے مصرعہ پڑھا ۔’’اس
لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں ‘‘بادشاہ عالم کی طرف متوجہ ہوا اور اسے
شعر مکمل کرنے کو کہا ۔عالم نے شعر یوں مکمل کیا
بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں ۔۔۔اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی
نہیں
پھر بادشاہ نے غریب کی طرف متوجہ ہو کر شعر مکمل کرنے کا کہا تووہ کچھ یو ں
گویا ہوا۔
مانگتے ہیں پیسے مصور اور جیب میں پائی نہیں ۔۔۔اس لیے تصویر جاناں ہم نے
بنوائی نہیں
عاشق کی باری آئی تو بادشاہ کے اشارے پر بے ساختہ بول اٹھا کہ
ایک سے دو ہوئے جب یکتائی نہیں ۔۔۔اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
بادشاہ کے حکم پر نابینا نے اپنے مافی الضمیر کی تصویر کشی کچھ یوں کی ۔
مجھ میں بینائی نہیں اس میں گویائی نہیں ۔۔۔اس لیے تصویر جاناں ہم نے
بنوائی نہیں
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سب کو اپنی ہی کسی بات پر رونا آیا ۔اب ڈاکٹر
طاہرالقادری قبل ازیں پاکستان کی عملی سیاست میں کسی فورم میں نمائندگی
نہیں رکھتے مگران کا کہنا ہے کہ وہ اگر سیاست میں عملی طور پر وارد ہو
جائیں تو ان کے پاس کوئی نہ کوئی حکمت عملی اور وزڈم ضرور ہوگا ۔یہ الگ بات
کہ کسی کو اس کا ادراک ہو پائے یا وہ تنگ نظری یا کسی وابستگی کیوجہ سے کسی
اپنے انداز میں بات کرے جس کا کسی بھی رائے دینے والے کو پورا پورا حق حاصل
ہے ۔رہا مسئلہ عمران خان کا تو ان کی تحریک یقینا کافی حد تک کامیاب ہوتی
نظر آرہی ہے اور وہ بھی انقلاب مارچ کی طرح آزادی مارچ میں نمایا ں کامیابی
حاصل کر رہے ہیں یہ الگ بات کہ ان کا انداز جزبات اور والہانہ نظریات پر
مبنی ہے ۔آج ہمارے ملک میں جو ہونے جا رہا ہے وہ کسی طوربھی مناسب نہیں ہے
کیونکہ آزادی اور انقلاب مارچ جیسا کہ ریڈ زون میں داخل ہو چکے ہیں اس کا
انجام کیا ہوگا اس کا تو کوئی پتہ نہیں کیونکہ پیش گوئی تو کی جاسکتی ہے جس
کی بنیاد سوائے اندازوں کے کچھ نہیں اور نہ ہی ہم اندر کی کوئی بات جان
سکتے ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ ایسے اقتدار پر ڈٹے رہنے سے کہیں بہتر تھا کہ
مفادات کی قربانیاں دیکر عزتیں بچا لی جاتیں مگر ایک بات جو موجودہ
حکمرانوں اور برسرپیکار پارٹیوں کی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں طرف ایسا
لگتا ہے وقت پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہر طرف ہے ۔کیونکہ وقت پر
فیصلے کرنے بہت اہم ہوتے ہیں اور اگر اس بات کی آفادیت اور طاقت کو دیکھنا
ہے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے نوے نہتے لوگوں پر سیدھی فائرنگ اور
چودہ لاشوں کا انتقام لینے کے لیے بروقت فیصلہ لینے سے آج جو نتائج وطنِ
عزیز کو بھگتنے پڑھ رہے ہیں اس سے بڑا ثبوت اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔آ ج
پاکستان کے حالات ہر معاملہ میں جتنے بھی برے ہیں اس کی ایک ہی وجہ ہے ،یہ
ہٹ دھرمی وقت پر انصاف اور فیصلوں کا نہ ملنا اور عوام میں کئے گئے وعدوں
کا خیال نہ کرنا ہے اور یہ بات نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر بروقت انصاف اور
فیصلے نہ کیا جائیں تو ملک نہیں چلتے ۔۔۔ |