صبح سے گھر میں مشاورتی اجلاس
جاری ہے مگر تا حال ہم لوگ کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ دوپہر کے کھانے
کا وقفہ غنیمت جان کر میں علیحدہ بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ ہم کسی نتیجے پر
پہنچیں گے کیسے ؟کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ویسے بھی ہمارا قومی خاصہ تو یہی
ہے کہ غور و فکر طویل کرو۔ لمبی بحث کرو ۔ کسی فیصلے پر نہ پہنچو مگر
جذباتی انداز میں کوشش اتنی کرو کہ دوسروں کے گریبان سلامت نہ رہیں۔ کہتے
ہیں کہ اک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ یعنی رونق کے لئے ہنگامہ بہت
ضروری ہے۔ تو یوں ہوا کہ میرے گھر میں صبح سے اک ہنگام جاری و ساری ہے اور
اس حوالے سے گھر میں رونق ہی رونق ہے۔
مشاورتی اجلاس کے شرکاء میں ایک میں ہوں دوسری میری بیوی اور میرے دو بیٹے۔
ہم چاروں سر جوڑے بیٹھے ہیں اور درپیش مسئلہ بہت سادہ ہے۔ ہمارے محبوب لیڈر
جناب عمران خان نے سول نافرمانی کی ابتدا کی ہے۔ عمران خان نے ہم وطنوں کو
کہا ہے کہ بجلی گیس اور دیگر بل ادا نہ کئے جائیں۔ مجھے یہ مشورہ بہت بھلا
لگا۔ رات جب میں گاڑی میں پٹرول ڈلوا رہا تھا تو مجھے عمران کا ہدایت نامہ
یاد آیا۔ میرا جی چاہا کہ پٹرول کے پیسے نہ دوں اور گاڑی بھگا کر لے جاؤ ں۔
یہ سوچ کر میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ میری گاڑی کے قریب پٹرول پمپ کے ملازم
پانچ چھ خوفناک حلیے والے لوگ کھڑے تھے جو بدمعاش نظر آتے تھے۔ ان کی شکلیں
دیکھ کر میرا پیربھٹک گیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ گاڑی کو تیزی سے بھگا کر
لے جاؤں مگر پیر بریک سے اٹھتا ہی نہیں تھا۔ ہمت جواب دے گئی ۔گھبرا کر میں
نے رسک لینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ بہت کڑے اور دکھے دل کے ساتھ پٹرول کا بل
ادا کیا اور چپ چاپ اداس اداس گھر لوٹ آیا۔
خیر رات کو جو ہونا تھا ہو گیا۔ رات گئی اور بات گئی۔ اب صبح ہے۔ اک نئی
صبح۔ ہم سب بھی ایک نئی صبح ہی کے منتظر ہیں۔ اس لئے اپنی رات کی بزدلی کو
بھول کر ہم چاروں گھر کے مکین مشاورت میں مصروف ہیں اور درپیش مسئلہ اس
مہینے کا جلد آنے والا بجلی کا بل ہے۔ پچھلے ماہ بل کچھ زیادہ آ گیا تھا تو
ہم نے بہت مشکل اور بڑی سفارشوں کے بعد اس بل کی دو قسطیں کروا لی تھیں کہ
پورا بل دینے کو پیسے ہی نہیں تھے۔ اس ماہ آنے والا بل پچھلے بل سے یقینا
چار گنا یا زیادہ ہو گا کیونکہ اس میں پچھلے ماہ کی بقایا قسط بھی ہو گی۔
گرمی کی شدت اور بہت سے مہمانوں کی آمد کی وجہ سے بجلی بھی زیادہ استعمال
ہوئی ہے، کچھ فی یونٹ ریٹ بھی گورنمنٹ نے بڑھادیا ہے۔ ان بدترین حالات میں
میں روزانہ اﷲ سے دعا کرتا تھا کہ کوئی راستہ نکال کہ بل دینا ہی نہ پڑے۔
میرے حساب میں تو اﷲ نے میری مشکل آسان کر دی ہے اس لئے مشاورتی اجلاس میں
میں نے اپنا فیصلہ سنایا کہ عمران خان کی ہدایات پر عمل کیا جائے اور بجلی
کا بل نہ دیا جائے۔
میری بیگم ضرورت سے زیادہ وہمی اور محتاط ہے۔ کچھ کچھ قانونی بھی ہے ۔ اس
نے میرے فیصلے کی بھرپور مخالفت کی۔ا س کا خیال ہے کہ اگر وقت پر بل نہ دیا
تو لیسکو والے ایک تو بجلی کاٹ دیں گے دوسرا بل تو بہرحال جلد یا دیر سے
دینا ہی ہو گا۔ دیر سے بل دینے کی صورت میں کچھ ہزار جرمانے کی مد میں
فالتو بھی دینا پڑے گا۔ جو مزید پریشانی کا باعث ہو گا۔ میرے بیٹوں کا
مشورہ تھا کہ لگے ہاتھوں عمران خان سے اس مسئلے کا حل بھی پوچھ لیا جائے
مگر کیا کریں ہم لاہور میں ہیں اور عمران اسلام آباد میں۔ اسلام آباد جانا
اور اتنے بڑے لیڈر سے ملنا بالکل بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی کوشش
کرنے والی بات ہے۔ اس لئے کافی سوچ بچار کے بعدفی الحال عمران خان سے
ملاقات کا خیال ترک کر دیا۔
بجلی کے بل کے حوالے سے مسائل بہت سارے ہیں اور مشاورتی اجلاس کو ہر پہلو
سے ان کا جائزہ لینا ہے۔ بجلی کا بل بہت زیادہ آئے گا اسے ہر حال ادا کرنا
ہے یا عمران کی ہدایت پر عمل کرنا ہے۔ اگر ادا کرنا ہے تو پیسے کہاں سے
آئیں گے۔ ادھار کون دے گا او رہم چاروں میں سے کون ادھار لا سکتا ہے او ر
کس سے لا سکتا ہے، کیونکہ گھر میں اتنے پیسے تو ہیں ہی نہیں۔
کھانے کے وقفے کے بعد حتمی فیصلہ ہونا ہے۔ وقفے سے پہلے میرے بیٹے نے ایک
خوبصورت رائے دی تھی جو میرے دل کو بہت لگی تھی مگر انا کا مسئلہ ہے اس لئے
بیٹے کے سامنے میں چپ رہا۔ اس کا خیال ہے کہ میں آنے والا بل ادا کئے بغیر
اپنی جیب میں رکھوں اور لوگوں کو ببانگ دہل بتاؤں اور دکھاؤں کہ میں نے بل
ادا نہیں کیا اور سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہوں۔ وہ جو ایک کمپنی میں
ملازم ہے اپنی کمپنی سے ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لے گا، انٹرنیٹ کی
مدد سے ایک ڈوپلیکیٹ بل حاصل کرکے ادائیگی کر دے گا۔اس کی ماں اور بھائی
بھی اس کی اس تجویز سے متفق ہیں۔ گو متفق تو میں بھی ہوں مگر بظاہر میں نے
نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں۔کیا
کروں زیادہ قوم منافقت کا شکار ہے اور میں بھی اسی قوم کا ایک فرد ہوں۔میں
نے فیصلہ کیا ہے کہ بقیہ اجلاس کا بائیکاٹ کروں گا تاکہ باقی سب افراد کو
یہی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔
اگر عمران خان اور طاہرالقادری کامیاب ہو گئے تو ادا نہ کیا ہوا بل ان کے
حامیوں میں میری ساکھ بنائے گا کہ میں ہمیشہ ہی ان کا حامی رہا ہوں اور اگر
یہ لوگ ناکام ہوئے تو بیٹے سے ادا کردہ بل مانگ کر اپنے پاس رکھوں گاتاکہ
سند رہے کہ میں ہمیشہ حکومت کا حامی رہا ہوں اور رہوں گا۔ مجھے اپنے اس فعل
پر کوئی شرمندگی یا ندامت بھی نہیں کیونکہ یہ تو ہمارا قومی کردار ہے۔ |