حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ جوانی کے عالم میں ہمیشہ زرہ پہن کر
میدان جنگ میں آیا کرتے تھے لیکن بڑھاپے کی حالت میں وہ جب بھی جہاد کے لیے
میدان میں آتے تو بغیر زرہ پہنے ہوئے دشمن کی صفوں میںگھس جاتے۔ جنگ میں
بغیر زرہ جہاد کے جذبے سے سرشار ،سینہ کھلا ہوا ہوتا۔ بازو برہنہ ہوتے اور
سب سے آگے آگے اپنے آپ کو دشمنوں کی صفوں میں ڈال دیتے۔ اور انتہائی بے
جگری اور دلیری سے لڑتے۔ ایک دن دوستوں نے دریافت کیا کہ اے حمزہ! میدان
جنگ میں آپ ایسے آتے ہیں کہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ جب آپ
جوان تھے تو دشمن کی صف میں بغیر زرہ پہنے نہیں جایا کرتے تھے۔ اب جبکہ آپ
بوڑھے اور کمزور ہو چکے ہیں تو انتہائی بے پروائی کے ساتھ تلوار اور نیزہ
لے کر جنگ کے میدان میں زور آزمائی کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ تلوار کاٹنے
میں بوڑھے کا احترام نہیں کرتی اور نہ ہی بڑے چھوٹے میں تمیز کرتی ہے۔ حضرت
حمزہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ جب میں جوان تھا اور اسلام قبول نہیں کیا
تھا اس وقت دنیا کو چھوڑنا میں موت سمجھتا تھا اور ظاہر ہے کہ موت کی طرف
کون رغبت کرتا ہے۔ لیکن اب جبکہ میں بوڑھا ہوں مگر اسلام کی دولت سے
مالامال ہوں میں موت کو ابدی زندگی کا سبب سمجھتا ہوں۔ اب مجھے دنیاوی
زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلے میں بالکل حقیر نظر آتی ہے۔ حضور نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کا شکر گزار ہوں کہ جن کی وجہ سے مجھے
یہ عالم غیب کے اسرار دکھائی دیتے ہیں۔ موت تو خوانِ نعمت کی طرف دعوت ان
لوگوں کے لیے جو اس کو اللہ کی مہربانی سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ موت کو
مصیبت سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ بلا ہے۔
مسلمان اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی دنیاوی غرضوں سے مبرا ہو کر لڑا
کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف اللہ کی رضا ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ
اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ افغان مجاہدین بھی صرف اﷲ کی ذات پر بھروسہ
کیے ڈٹے ہیں۔ یہ اللہ کی ذات ہی ہے جو ان کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے ان
کے لیے مدد اور تعاون کے مختلف دروازے کھول رہی ہے۔ ان مجاہدین کی غربت،
استقلال اور استقامت پر بحیثیت مسلمان ہمیں فخر ہے۔
امریکہ بہادر کی شروع کی گئی جنگ کے 8 سال گزر جانے کے باوجود اتحادی افواج
کامیابی سے کوسوں دور ہیں جبکہ افغانستان کے اسی فیصد حصے پر طالبان کا
کنٹرول ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کا سارا رعب و دبدبہ افغانستان کے پہاڑوں
کی خاک میں مل گیا ہے۔ امریکہ کو اس شرمناک اور رسوا کن حقیقت کا سامنا ہے
کہ اس کی فوج زمینی جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔ وہ صرف بزدلوں کی طرح ڈرون حملے
کر سکتا ہے۔ رواں ماہ مشرقی افغانستان کے صوبے نورستان میں افغان مجاہدین
نے ایک بڑے حملے میں 40امریکی فوجی ہلاک کردیئے۔ صوبہ نورستان کے ضلع
کامدیش میں قائم امریکی فوج کی تمام 8چوکیوں پر قبضہ اور تباہ کر کے جدید
اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر ساز وسامان قبضے میں لے لیا جس میں بکتر بند
گاڑیاں، نائٹ گاگلز، فوجی بوٹ وغیرہ شامل تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق طالبان
نے امریکی فوج کو وہاں سے نکال دیا۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے بھی
امریکی انخلاء کی تصدیق کی ہے۔ ویت نام جنگ کے بعد ناکامی امریکہ کا مقدر
بن چکی ہے۔ فوج کی مسلسل ہلاکتیں، عوام اور حکومت میں انتشار حکومت کے لیے
پریشانی کا باعث ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مضمون نگارJackson Diehl نے گزشتہ تیس
برس کے دوران امریکہ کی دیگر ممالک میں فوجی مداخلت کا ویت نام جنگ سے
موازنہ کیا ہے۔ جس کے مطابق امریکہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران تمام جنگوں
میں ویت نام جیسی صورت حال سے دوچار رہا۔ افغانستان جنگ میں بھی ویت نام کی
جنگ کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ جس کا کوئی مثبت نتیجہ یا کامیابی امریکی فوج
کو نصیب ہوتی نظر نہیں آتی۔
افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کو شکست اور ہزیمت نوشتہ
دیوار کی مانند دکھائی دے رہی ہے۔ اسی لیے انہیں اس حقیقت کو آئے روز مختلف
الفاظ اور بیانات کی صورت میں تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ امریکی
فوج کے افغانستان میں کمانڈر جنرل سٹینلے کا کہنا ہے کہ ہماری عسکری
سرگرمیوں سے دشمن کو جزوی طور پر نقصان تو پہنچ رہا ہے لیکن افغان جنگ کبھی
جیتی نہیں جا سکتی۔ مذکورہ جنرل نے چند ہفتے قبل مزید چالیس ہزار تازہ فوجی
دستوں کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکی صدر نے افغانستان سے امریکی افواج کے
بحفاظت انخلاء کی حکمت عملی اختیار کیے بغیر مزید افواج کی تعیناتی سے
انکار کر دیا ہے۔ صورت حال انتہائی خراب ہے۔ اوبامہ اور امریکی جنرلوں کے
درمیان افغانستان کے معاملات پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان
میں موجود امریکی افواج کا مورال دن بدن گر رہاہے۔ ٹائمز آن لائن نے انکشاف
کیا ہے کہ افغان طالبان نے اس امر کا ادراک کر لیا ہے کہ امریکی افواج کی
افغانستان سے نکلنے کی کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہونے والی ہیں۔ امریکی
صحافی کرسٹی پارسن کے مطابق امریکی حکام اب اگر افغانستان میں مزید افواج
بھیجیں گے تو وہ طالبان کا مقابلہ کرنے کی بجائے وہاں سے امریکی فوج کے
انخلاء میں مدد دینے کے لیے استعمال ہوں گے۔
برطانوی اخبار ٹائمز میں معروف تجزیہ نگارنک کلیگ(Nick Clegg) کا کہنا ہے
کہ امریکی صدر بارک اوبامہ کے لیے افغانستان سے نکلنے کا یہ آخری موقع ہے،
اگر وہ اس موقع کو کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو امریکی و اتحادی افواج
بحفاظت انخلاء کرلیں گی بصورت دیگر افغانستان، اتحادی افواج، بالخصوص
امریکیوں کا قبرستان بن جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان
سے نکلنے کے لیے پاکستان، چین، روس اور ایران امریکہ کی کافی مدد کرسکتے
ہیں۔ امید ہے کہ امریکی انتظامیہ ان تمام ممالک کے ساتھ اچھے روابط استوار
کر کے اپنی افواج کے بحفاظت انخلاء میں مدد طلب کرے گی۔ پاکستانی تجزیہ
نگاروں کے نزدیک امریکہ اپنے اصل مقصد پاکستان کے جوہری اثاثوں کا خاتمہ یا
ان کا کنٹرول حاصل کیے بغیر افغانستان سے نکلنے والا نہیں۔ امریکی ڈالروں
کی ریل پیل اور جدید ٹیکنالوجی کو اللہ کے پراسرار بندوں نے اپنے ٹوٹے
جوتوں تلے روند ڈالا ہے۔ فوجیوں کا نفسیاتی مریض بن کرایک دوسرے کو نشانہ
بنانا، امریکی و اتحادی افواج کا اپنی جان بچانے کے لیے طالبان کے مقامی
کمانڈروں کو بھتہ دینا، افغانستان میں شراکتِ اقتدار کا خواہش کرنا یہ سب
کیا ہے؟ افغانستان جہاں ایک ہزار امریکی فوجیوں پر سالانہ ایک ارب ڈالر خرچ
ہورہے ہیں امریکہ کے لیے دوسرا ویت نام ثابت ہو رہا ہے۔ |