امریکا نے جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا

امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو آٹھ برس ہو چکے ہیں اور افغانستان اور عراق کے بعد اب یہ جنگ فقط پاکستانی علاقوں میں لڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں اب تک لاکھوں معصوم اور بے گناہ افراد، ہزاروں امریکی فوجی، اور سینکڑوں برطانوی، پاکستانی اور دیگر ممالک کے فوجی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، جب کہ امریکا اپنے مفادات کے حصول کی اس جنگ میں ایک کھرب ڈالر سے کہیں زائد خرچ کر چکا ہے۔ پاکستان کو اس جنگ کی وجہ سے چالیس ارب ڈالر اور بعض اطلاعات کے مطابق پچاس ارب ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تیسری عالمی جنگ کے ختم ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے، امریکا کے عزائم، ترجیحات اور مفادات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ آج کی اکلوتی سپر پاور اپنی اس ہاری ہوئی جنگ کو پاکستان کو تباہ کر کے جیتنا چاہتی ہے۔

آج یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکا نے دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے نائن الیون کی کہانی خود تیار کی تھی۔ اپنے ان مذموم مقاصد میں وہ کافی حد تک کامیاب ہو چکا ہے تاہم جنگ کے میدان میں اسے شکست کا سامنا ہے، اور اب حالات یہ ہیں کہ اسے اپنی ساکھ بچانے کے لئے کئی کھرب ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ ویت نام جنگ میں 58 ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، لیکن آج کل اس نے جنگ کے انداز بدل لئے ہیں اور انتہائی جدید ہتھیاروں اور حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ان کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی ہے، عراق میں اتحادی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 4700 سے تجاوز کر چکی ہے،ان میں 4370 امریکی اور 180 برطانوی فوجی شامل ہیں۔ افغانستان میں اب تک 1520 اتحادی فوجی مارے جاچکے ہیں، جن میں 920 امریکی اور 235 برطانوی ہیں۔ پاکستانی علاقوں میں کوئی امریکی یا برطانوی نہیں مارا گیا، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ڈرون کے ذریعے کارروائیاں کی جا رہی ہیں، تاہم مختلف جگہوں پر شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں پاکستانی فوجی بھی شہید ہوئے ہیں۔ جہاں تک سویلین ہلاکتوں کا تعلق ہے، عراق میں پندرہ لاکھ سے زائد معصوم اور بے گناہ شہری اتحادیوں کی بمباری اور خانہ جنگی کی نذر ہو چکے ہیں، پچاس لاکھ عراقی بچے یتیم ہو گئے ہیں جو کل عراقی بچوں کی تعداد کا نصف ہیں۔

افغانستان میں بیسیوں ہزار سویلین مارے جا چکے ہیں جب کہ پاکستان میں خود کش حملوں، بم دھماکوں اور ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دسیوں ہزاروں میں ہے۔ عراق جنگ شروع ہونے سے پہلے بش انتظامیہ کا اندازہ تھا کہ اس پر 60سے80 ارب ڈالر خرچ ہوں گے، لیکن یہ ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اکتوبر 2007 میں امریکی کانگریشنل بجٹ آفس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف عراق، افغانستان اور پاکستان میں جاری جنگ کے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کو 2017 تک 2.4 کھرب ڈالر ادا کرنا پڑیں گے، اور اس میں سے لگ بھگ دو کھرب ڈالر اکیلی عراق جنگ پر خرچ ہوں گے۔ مگر معروف امریکی ماہر معاشیات، عالمی بنک کے سابق چیف اکانومسٹ اور نوبل انعام یافتہ جوزف یوگین کا کہنا ہے کہ افغان، پاکستان اور عراق جنگ میں امریکا کو کم از کم پانچ کھرب ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے، جب کہ اکیلی عراق وار امریکیوں کو تین کھرب ڈالر میں پڑے گی۔

آج کے معاشی ماہرین اس کو تین کھرب ڈالر سے بھی کہیں زیادہ بتا رہے ہیں۔ ستمبر 2009 تک صرف افغانستان میں امریکا 250 ارب ڈالر خرچ کر چکا تھا، اور اقتصادی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغان جنگ میں امریکا کو 85 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔2008 میں اس جنگ پر روزانہ امریکی فوج پر 10کروڑ ڈالر خرچ ہو رہے تھے، لیکن اب افغانستان میں امریکا کو چوبیس گھنٹوں میں 16 کروڑ 50 لاکھ ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ سرکاری طور پر رواں مالی سال کے بجٹ میں اس کے لئے 17 کروڑ 80 لاکھ ڈالرروزانہ مختص کئے گئے ہیں، اور امکان ہے کہ یہ اخراجات 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر روزانہ تک پہنچ جائیں گے۔ اسی طرح برطانیہ اس جنگ میں 25 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے، جو 23 نئے ہسپتال اور ڈیڑھ لاکھ افراد کو روزگار دینے کے لئے کافی تھے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 50 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایک سال میں لگ بھگ 10 ارب امریکی ڈالر کے خسارے کا ہمیں سامنا ہے اور یہ جنگ جتنا طول پکڑے گی اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں امریکا کی زبردست فرمانبرداری کا ثبوت دیا، لیکن امریکا اس سے خوش نہ ہوا، موجودہ حکومت نے تو پرویز مشرف سے بھی زیادہ وفاداری دکھائی ہے لیکن امریکا پھر بھی نا خوش ہے اور ڈو مور کا پرانا راگ الاپ رہا ہے۔ سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اس کا ساتھ دے کر ہم نے اپنی معیشت برباد کر ڈالی، امن و امان کی صورت حال تباہ کن ہے، امریکی اور آئی ایم ایف کی امداد سے بھی بحران ختم نہیں ہو سکے، ہمارے جنت نظیر، قدرتی حسن سے مالا مال اور سیاحوں کے پسندیدہ علاقے اس جنگ کی وجہ سے خوفناک بن چکے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بھارت ہمیں امریکا کی طرح دھمکیاں دے رہا ہے، بجلی، پانی، آٹا، چینی، اور کئی بنیادی ضروریات کی چیزیں نہیں ہیں، اور ہمارا دوست امریکا پھر بھی ہمیں ڈو مور کا حکم دے رہا ہے۔ اس کسمپرسی کی حالت میں اس کا یہ مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے، اور اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز یہ بات ہے کہ ہم کب تک چند ارب ڈالروں کے بدلے بیسیوں اربوں ڈالر کا خسارہ کرتے رہیں گے؟ کیا کبھی ہمیں ایسا حکمران ملے گا جو امریکا کو نو مور کہہ سکے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90687 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.