زمانہء قدیم کا سقراط اور دور جدید کے دانشور
(ABDUL SAMI KHAN SAMI, SWABI)
بعض محققین کے مطابق، قرانِ حکیم
میں “حضرت لقمان علیہ السلام ” کے نام سے جس عظیم المرتبت ہستی کا ذکر کیا
گیا ہے، وہ دراصل سقراط ہی ہے۔ لیکن چونکہ قرآن و حدیث یا کسی مستند تاریخی
دستاویز میں کہیں اس قیاس کی کوئی تصدیق موجود نہیں، سو میں اس پر سوائے
واللہ علم بالصواب کے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ دنیائے شرق و غرب
کا وہ شہرہ آفاق فلسفی تھا جو ہر ملک و قوم، مسلک و مذہب اور رنگ و نسل میں
غیر متنازعہ شخصیت اور حق گوئی پر جان قربان کرنے والا عالمگیری کردار بن
کر زندہ ہے۔ وہ تاریخ کی واحد ایسی شخصیت ہے کہ جس پر آج تک کسی نے کوئی
تنقید نہیں کی بلکہ اس کے علمی، سیاسی اور اخلاقی فلسفے کو ہر مکتبہ ء فکر
اور طبقے کی طرف سے ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ یونان کے شہر ایتھنز
میں پیدا ہونے والا سقراط دنیائے فلسفہ کا وہ عظیم اور جلیل المرتبت استاد
ہے جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں ملک یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد
رکھی تھی۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد موجود نہیں ہیں،
تاہم افلاطون اور مابعد فلاسفروں کے حوالے بتاتے ہیں کہ پیشے کے اعتبار سے
پہلے وہ ایک مجسمہ ساز تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے حب الوطنی کے جذبے سے
سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ بھی لیا تھا۔ مگر اپنی علمی و تحقیقی
مصروفیات کی بدولت اُسے گھر بار اور خاندان سے کوئی خاص تعلق نہ تھا۔ حلقہء
احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ اور واجب الاحترام استاد
کی تھی۔ وہ فطرتاً ، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، بلند کردار حق پرست
اور منصف مزاج استاد تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے
باعث عمر کے آخری حصے میں اس نے دیوتاؤں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا۔ جس
کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے خود کشی کی
موت کی سزا سنائی۔ اور اس نے آج کے ماڈرن “حق پرست ” مفکروں اور انقلاب کے
نام نہاد علمبرداروں کے برعکس زہر کا پیالہ پی کر اپنے حق موقف پر جان دے
دی۔
سقراط نے اپنے سے پہلے دانشوروں کے برخلاف دنیا کو ایک نئے انداز مبحث سے
متعارف کروایا۔ گو کہ اس کا طریق بحث فسطائی اندازکا حامل تھا لیکن ہم
اسےعام مناظرہ نہیں کہہ سکتے۔ وہ دھونس یا ضد بازی نہیں بلکہ علمی اور
منطقی بحث سے اخلاقی نتائج تک پہنچتا اور دلائل سے لوگوں پر حقیقت ثابت
کرتا تھا۔ وہ پے در پے سوالات کرتا اور پھر دوسروں پر ان کے علمی اور منطقی
دلائل کے تصادات عیاں کرتا اور یوں مسائل کی تہہ تک پہنچ کر ایسا مدلل جواب
سامنے لاتا جسے مخالفین بھی تسلیم کرتے ۔ فی زمانہ سقراط کی اپنی کوئی
تحریر و تصنیف تو موجود نہیں تاہم اس کے شاگرد افلاطون نے اس کی علمی بحثوں
کا احوال اور نظریات قملبند بھی کیے اور اپنی اکثر و بیشتر تحریروں میں
اسکے حوالا جات بھی دیے ہیں۔ سقراط کے نظریات کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس
ہوتا ہے کہ وہ توحید پرستی اور دین برحق کے فلسفہ ء مذہب و اخلاق کے بیحد
قریب تھے۔ اس کے نظریات کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ ٭ روح ایک حقیقی مجرد اور
تنہا ہے اور جسم سے جدا حقیقت ہے۔ جسم کی موت روح کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کی
آذادی کی اک راہ ہے، لہذا موت سے ڈرنا بزدلی اور حماقت ہے۔ ٭ جہالت کا
مقابلہ کرنا چاہیے، اور انفرادی مفاد کو اجتماعی مفاد کے پس منظر میں
دیکھنا چاہیے۔ ٭ انسان کو انصاف و ظلم، اور سچ و جھوٹ میں ہمیشہ تمیز روا
کھنی چاہیے۔ ٭ حکمت لمی کے ادراک میں پنہاں ہے ۔ یہاں ہن قرآنی نظریات کو
سامنے رکھتے ہوئے سقراط کی فلاسفی کا جائزہ لیں تو ان میں کافی حد تک
مماثلت نظر آتی ہے۔ جو محققین سقراط کو قرآن حکیم میں مذکورہ بزرگ ہستی
حضرت لقمان تصور کرتے ہیں۔ ان کے اس قیاس کی وجہ یہی ہے کہ سقراط بھی دین
ابراہیمی، دین اسلام اور دوسرے آسمانی مذاہب کے ماننے والے اہل حق جیسے ہی
عقائد و نظریات رکھتا تھا ۔ جسم ، روح اور موت کے بارے بھی سقراط کے نظریات
انبیائے حق اور اسلامی نظریات کے بیحد قریب ہیں۔ اسلامی نظریات کے مطابق
موت نیست و نابود، فنا اور انہدام نہیں بلکہ تحول و تغیر، ایک جگہ سے دوسری
جگہ انتقال اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقلی کا نام ہے۔ قرآن کریم نے
موت کی ماہیت سے متعلق ایک خاص عبارت میں خصوصی جواب دیتے ہویے چودہ جگہوں
پر موت کیلیے لفظ ” توفیٰ ” استعمال کیا ہے۔ ان تمام آیات میں قرآن کے
مطابق موت کا مطلب قبضے میں لینا ہے۔ یعنی انسان موت کے وقت اپنی تمام
شخصیت اور حقیقت سمیت اللہ کے حضور و تحویل میں چلا جاتا ہے۔ قرآن کے اس
بیان سے یہ عقدہ کھلتا ہے کہ موت انسان کی نیست و نابود اور فنا مکمل فنا
نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف محض ایک انتقال یا ایک زندگی سے
دوسری زندگی کی طرف منتقلی ہے۔ یعنی حیات انسانی ایک اور شکل میں جاری رہتی
ہے۔ سقراط بھی روح کو جسم سے جدا ایک مجرد حقیقیت قرار دیتا تھا۔ اور
اسلامی نظریات کے مطابق بھی جسم فانی مگر روح غیر فانی اور” اصل” ہے۔ وہ
چیز جو انسان کی حقیقی شخصیت کو تشکیل دیتی ہے اور اس کی حقیقی یا اصل شمار
ہوتی ہے، وہ بدن اور اس کے اعضا نہیں بلکہ ” روح ” ہے۔ بدن اور اس کے اعضاء
کسی اور جگہ منتقل نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ اسی دنیا میں ہی گل سڑ جاتے
ہیں۔ جو چیز ہماری حقیقی شخصیت کو بناتی ہے اور ہمارا حقیقی ” اصل ” ہے، وہ
وہی ہے جسے قرآن میں کبھی نفس اور کبھی روح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سیدنا آدم
علیہ السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے۔ ” ونفخت فیہ من روحی ” (سورۃ
حجر‘ آیت ۲۹)۔ ” ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونکا “۔ قابل ذکر ہے کہ اب
جدید دور میں انسان کی پیدائش کے کیمیائی اور طبیعاتی وجود پر تحقیق کرنے
والے امریکی سائنسدانوں نے بھی قرآن کے تصور موت و حیات کو درست تسلیم
کرتے ہوئے موت کے بعد بھی حیات کے نظریہ کی تائید کی ہے۔ امریکی فزیالوجسٹ
ڈاکٹر الس سلور نے کتابی شکل میں شائع کی جانے والی اپنی اپنی تحقیقاتی
رپورٹ میں بے شمار مثالیں اور ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلاشبہ اس کی
یہ تحقیق مسلمانوں کی آخری کتاب قرآن مجید کی روشنی میں کی گئی ہے جو سو
فیصد سچ ثابت ہوئی ہے۔ ایک اور امریکی سائنسدان رابرٹ لانزا نے اپنی تحقیق
میں کہا ہے کہ جو انسان دنیا میں پیدا ہوا ہے وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا،
موت ایک مرحلہ ہے جس سے ہر کسی کو گزرنا ہے۔ امریکی سائنسدان نے یہ بھی کہا
کہ تمام کتابوں کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر کتاب میں
آخری رسول خدا اور آخری کتاب قرآن کا ذکر موجود ہے۔ آج سیکولر حضرات بھی
مانتے ہیں کہ وہ زمانہ قدم کا سقراط ہو یا زمانہ جدید کے سائیندان، نبیء
آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل بھی اور آج کے جدید دور میں
بھی روح اورحیات انسانی کے قرآنی تصور کو نظریہء حق ماننے والے حق پرست
ہمیشہ موجود رہے ہیں۔
مکالمات افلاطون میں پہلے مکالمے کو چھوڑ کر باقی تمام تقریبا سقراط کی
زندگی کے آخری ایام سے متعلق ہیں۔ سقراط پر ایتھنز کی عدالت نے جو الزامات
لگائے تھے۔ ان میں ” تم ہمارے نوجوانوں کو بہکا رہے ہو”۔ سرفہرست تھا۔ یاد
رہے کہ یونان دنیا میں علم و فنون لطیفہ کا مرکز مانا جاتا تھا۔ دنیائے علم
وفکر میں ایتھنز کے اہل علم کی بڑی قدرتھی۔ پروٹاغورس جیسے دانشوروں سے
حصول علم کیلیے لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس بھیجتے اور معاوضے میں اپنے
کھیت، گھر،سونا، جانور یا کچھ بھی دینے کو تیار ہوجاتے۔ انہی دنوں سقراط کو
ایک کاہنہ نے یہ بشارت دی کہ ” سقراط تم ایتھنز کے سب سے بڑے دانا ہو”سقراط
کو اس بات پر یقین نہ آیا۔ لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو علم کی کسوٹی
پر پرکھ کے اس بشارت کی تحقیق کرے گا۔ اس کیلئے وہ ایتھنز کے بڑے بڑے
دانشوروں کی محفلوں میں جانے لگا۔ اس نے ان سے اپنے مخصوص انداز و طریق کے
مطابق بحث کا آغاز کیا۔ بہت جلد ایسا ہوا کہ وہ جہاں جاتا اپنےعلمی دلائل
اور منطقی سوالات سے سامعین پر چھا جاتا۔ اس عمل سے اپنی عالمانہ دوکانداری
کو ڈوبتے دیکھ کر ایتھنز کے نام نہاد دانشور اورعالم بھڑک اٹھے۔ سو انہوں
نے اس ” عذاب” سے جان چھڑوانے کیلیےعوام الناس میں سقراط کے خلاف ماحول
بنانا شروع کردیا۔ بالاخر وہ حاسدین سقراط کے خلاف جو تین بڑے الزامات
اٹھانے میں کامیاب ہوئے، وہ کچھ یوں ہیں کہ ، ٭ یہ شخص ہمارے نوجوانوں کو
گمراہ کر رہا ہے۔ ٭ یہ ہمارے مقدس دیوتاوں کو نہیں مانتا۔ ٭ یہ شخص ایک
ایسے الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا۔
سقراط پرعائد کردہ ان الزامات پر یونان کی تاریخ کی سب سے بڑی عدالت لگائی
گئی۔ پورا شہرعدالتی کاروائی دیکھنے کیلیے جمع تھا۔ سقراط کو ان سب کے
سامنے اپنی صفائی پیش کرنا تھی۔ وہ صفائی کے دوران اپنے علم اور دانائی سے
پورے مجمع پر چھا گیا مگر اہل حکم پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے۔ سقراط کے خلاف
ایک” بھٹکے ہوئے نوجوان ” کو بطور گواہ پیش کیا گیا۔ بقول اس نوجوان کے
سقراط نے اسے گمراہ کیا ہے۔ اور یوں انصاف کے روبرو اس بندہء انصاف کا ”
جرم ” ثابت ہوگیا ۔ فیصلے کےتحت سقراط کو دو آپشن دیے گئے۔ اسے کہا گیا کہ
یا تو شہر چھوڑ دو یا پھر اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پی لو۔ لیکن عوام
اکثریت کی توقع کے برخلاف سقراط نے شہر نہیں چھوڑا اور زہر کا پیالہ پی کر
سدا کیلیے امر ہوگیا۔ یاد رہے کہ اس دور میں سزائے موت زہر کے ذریعے دی
جاتی تھی اور مجرم کو پائزن آف ہام لاک نامی زہر سے خود کشی کرنا پڑتی تھی۔
بعض محققین کے مطابق، اس دور کے تاریخ دانوں نے شہر چھوڑنے کے آپشن کا محض
افسانہ تراشا تھا۔ مگر حقیقت میں اسے صرف زہر کا پیالہ پینے کی سزا ہی دی
گئی تھی۔ جبکہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ شہر چھوڑنے کا آپشن عدالتی کاروائی
اور نام نہاد انصاف کی ساکھ بچانے کیلیے دیا گیا تھا۔ احباب قابل مذمت ہے
کہ آج کل کے خود ساختہ سیاسی قائدین کیلئے سخت حالات میں ملک سے فرار ہونا
اور دیار غیر میں گوروں کی مخلمی گود میں بیٹھ کر سیاسی و مذہبی دوکانداری
چلانا عام سی بات ہے۔ صد تعجب کہ ہمارے یہاں لوگ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام
ہونے کے باوجود بھی ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ عوامی یا اسلامی انقلاب کے
نام نہاد داعی موت کے ڈر سے مغرب اور امریکہ بھاگ جاتے ہیں۔ عوام کو بیوقوف
بنانے کیلئے کچھ دنوں کیلیے پاکستان تشریف لائیں بھی تو موت کے خوف سے بم
پروف کنٹینر سے باہر نہیں نکلتے۔ آج بہادری اور جرات کی علامت ہونے کے
دعویدار سابقہ جرنیلی آمر بھی قانون اور انصاف سے فرار کیلیے دل کے جعلی
دوروں اور فیک میڈٰکل رپورٹس کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ لیکن اس وقت یونان کے
حاکم اور سقراط کے مخالفین جانتے تھے کہ سقراط جیسا خود دار اور اصول پرست
شخص شہر چھوڑنے پر موت ہی کو ترجیح دے گا۔ بعض روایات کے مطابق سقراط کے
دولتمند شاگردوں نے داروغہ جیل کو بھاری رشوت دے کر اس کے جیل سے فرار کا
منصوبہ بھی مکمل کر لیا تھا۔ لیکن اس نے جیل سے فرار کو بزلانہ فعل، حق
گوئی کی شکست اور ذلت آمیز قرار دیکر فرار ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
اس کا اٹل موقف تھا کہ ہر شخص پر قانون اور قانون کے فیصلے کو تسلیم کرنا
لازم ہے۔ وہ اس حد اصول پسند تھا کہ اس نے قانون کی بالادستی کیلیے، ایک
متنازعہ اور غلط فیصلے کو بھی قانون کا فیصلہ سمجھ کر قبول کیا اور حتی کہ
اس پر اپنی جان بھی قربان کر دی۔ اس کی خود کشی نما سزائے موت نے تاریخ اور
آنے والے زمانے پر یہ اثر ڈالا کہ لوگ آج بھی اس کے سنہرے اقوال بڑے فخر سے
پیش کرتے ہیں۔ آج صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اس کا نام ایک صاحب علم دانشور
کی حیثیت سے عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قرآن حکیم میں مذکور بزرگ
ہستی ” حضرت لقمان ” تھا یا کوئی تھا، اس کا اصل مذہب اور روحانی عقائد کیا
تھے، تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے۔ لیکن ہاں وہ دور حاضر کے قلم فروش
دانشوروں، ابن الوقت سیاست دانوں اور انقلاب کے نام نہاد داعی خودساختہ
جلاوطن حضرات کی طرح، دو چہرہ منافق اور موت کے خوف سے ملک چھوڑنے والا
بزدل ہرگز نہ تھا۔ اس لیے اس کا نام اور کردار آج بھی زندہ ہے اور کل بھی
زندہ رہے گا۔ |
|