اسلام آباد میں دھرنوں کے تماشے
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
عمران خان اور طاہر القادری کی
اس ملک میں مختلف النوع عظیم خدمات ہیں ، جن کا تعلق کھیل ، تعلیم ، صحت ،
سماج اور رفاہ ِعامہ جیسے بنیادی سماجی ضرورتوں سے ہے ، ان دونوں کی
شخصیتوں میں بلاکی جاذبیت اور کشش بھی ہے ،ان دونوں کے اپنے اپنے ویژن اور
اپنے اپنے مشن بھی ہیں ،اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان تھک محنت اور جدوجہد
بھی یہ دونوں بہت کرتے ہیں ،ان کے اخلاص پر بھی شبہ کرنا مناسب نہیں ہے ،دھرنے
میں دونوں نے مناسب تعداد بھی جمع کی ہے ، موروثی سیاست سے بھی ان کا کوئی
تعلق نہیں ہے ، دولت کی بھی ان دونوں کو کوئی ضرورت نہیں ہے،عمر کے
اعتبارسے عیاشیوں سے دونوں ہی آگے قدم رکھ چکے ہیں ، شہرت بھی ان کی چہار
دانگ ِعالم میں ہے۔
عمران خان اگر ایک قومی ہیرو اور سیاستداں ہیں تو ڈاکٹر طاہر القادری ایک
تجربہ کار اور وسیع المطالعہ محقق ، مؤلف اور مصنف ہیں ،دونوں کی اولادیں
بھی کسی حدتک دھنی ہیں ،پاکستانیوں کے اموال ہڑپ کرکے ، ان کا خون چوس کر ،ان
کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ان کے موجودہ مقام ومرتبے سے زیادہ مقام ومرتبہ ان
کو ملنا بھی ممکن نہیں ہے ۔
لیکن پھربھی کپتان اور شیخ الاسلام عجیب وغریب حرکتیں یہاں اس ملک میں
کررہے ہیں ، کبھی لانگ مارچ تو کبھی دھرنے ،آج ایک طرح کا بیان توکل دوسری
طرح کا، صبح ایک پینترا تو شام بدلا ہوا ،روز بروز نیا نیا پتّہ ،ٹی ٹو
ینٹی سے بات نہیں بنتی ،تو ون ڈے ،اس سے بھی بات نہیں بنتی توٹیسٹ میچ،ورنہ
لمبی سیریز کھیلنا شروع کردیتے ہیں ، حالانکہ یہ دونوں تاریخ کا حصہ ہیں ،عمران
خان پاکستان اور کرکٹ کی تاریخ کا ،قادری پاکستان اور تحقیق کی تاریخ کا ۔یہ
دونوں اگر آج ہی اپنی اپنی پارٹیوں سے استعفاء دیدیں اور گھر جاکر بیٹھ
جائیں تو تب بھی یہ دیومالائی شخصیات کے مالک ہونے کے ناتے کروڑوں لوگوں کے
دلوں میں بستے ہیں ، یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں ، جو سرکاری عہدہ ومنصب
یاکسی پارٹی ،جماعت اور ادارہ کی مرکزی یا علاقائی قیادت سے سبکدوش ہونے کے
بعد گوشۂ گمنامی میں جلے جاتے ہیں ۔
ہم بذاتِ خود کپتان اور قادری کی سیاست کے حوالے سے تائید کنندگان میں ہیں
نہ ہی مخالفین میں ،کپتان کی تائید نہ کرنے کی وجوبات میں سے ان کے جلسوں
میں رقص وسرود اور ناچ گانے کے علاوہ ان کے ایجنڈے میں مغربیت کا عنصر ہے ،
قادری کی تائید نہ کرنے کی وجوبات میں ذکر واذکار کی مقدس محافل میں ان کی
جماعت کے لوگوں کی بدعات، خرافات،شرکیات اور بھنگڑوں کے علاوہ ان کے خواب
،کشف ،قبروں کی پوجا پاٹ اور وہ مزعومہ کرامات ہیں جن میں وہ انتہائی بے
سروپا دعوے کرتے رہتے ہیں۔
اور مخالفت نہ کرنے کی وجوہات میں سے شریف برادران کی ذاتی شرافت ونجابت کے
باوجود ان کاانحطاطی سیاسی کیریئر ہے ، سوچتا ہوں نواز شریف کو ماضی میں
دومرتبہ کرسیٔ اقتدار پر جب شرمناک شکست ہوگئی تھی ، تو اس اﷲ کے بندے کو
پھر کیا پڑی تھی کہ کوچۂ سیاست میں قدم رنجائی فرماتے ہیں ،اگر بہت ہی
ضروری تھا، تو دہاندلی زدہ وزارت عظمی کی ضرورت کیا تھی ،سرپرستی ہی فرماتے
،چلے یہ بھی تسلیم ہے ، توپنجاب کی وزارت اعلی کو گھر ہی میں پالنے کی
کونسی حاجت تھی ، مرکزی وصوبائی حکومتوں اور ملک کے دیگر اہم اداروں میں
اقرباء پروری کیوں کی ، تعلیم ، بجلی، اور تھانے وعدالت میں عام آدمی کو
واضح ریلیف کیوں نہ دی ، لاہورکے علاوہ کسی اورشہر کو دلہن کی طرح سجانے کے
احکامات کب جاری کیئے ، اور جب تقریباً تمام سیاسی جماعتوں بشمول نون لیگ
نے انتخابات میں دھاندلی کی ایک حدتک تصدیق کی ، تو اس کا کیا مداوا کیا،
نجم سیٹھی جیسے خبطی کا باربار کرکٹ بورڈ کا چیرمین رہنے پر کیوں اصرار
کیا، پختونخوا، بلو چستان اور سندھ صوبائی حکومتیں نون لیگ کی نہیں تھیں
،تو پھر اکثر یتی اکائیوں کو ناراض رکھکر اقلیتی اکائیوں میں سے گورنر ز کی
تقرری کیوں کی ، موجودہ بین الاقوامی سنگین حالات میں وزیر خارجہ کا تقرر
کیوں نہیں کیا، اندرون ملک پر توجہ دینے کے بجائے بے تحاشہ ملکی سرمایہ
بیرونی دوروں پرکس لئے صرف کیا ،صدارت کی کرسی پر ممنون حسین صاحب کی شکل
میں پتلی تماشہ کیوں کیا، فوج میں اگر کوئی رشتے دار نہیں ملا ،تو دوسروں
کو نظر انداز کرکے صرف نام کے ساتھ’’ شریف‘‘ کے لاحقے والے ہی کا انتخاب
کیسے ہوا، اور ان سب سے بڑھ کر ماضی کی غلطیوں سے سبق کیوں نہیں سیکھا گیا؟
لہذا جلد یا بدیر وزارت عظمی کی کرسی کو توجانا ہی ہے ،پھر قوم ملک او
رافواج پاکستان کو کیوں اتنے بڑے مخمصے میں مبتلا رکھاجا ئے ، چارحلقوں میں
جانچ پڑتال بروقت نہ کی ،اب تمام حلقوں میں نئے انتخابات پر قوم کا پیسہ کن
کے اشارے پر ضائع کیاجائے؟
ہم غیر جانب دار ہیں ،لیکن اسلام آبادمیں ریڈزون کی پامالی کے بعد کے حالات
کا تقاضا یہ ہے کہ عقل کے ناخن لیئے جائیں او رخامخواہ کیلئے یا صرف اپنے
ذاتی انا کیلئے پورے ملک اورقوم کو قربانی کی بھینٹ نہ چڑھا یا جائے،
کیونکہ مصر ،لیبیا، یوکرائن ، عراق وشام اور وہاں کے حکمرانوں کے ناگفتہ بہ
حالات ہم سب کے سامنے ہیں ۔ |
|