مذاکرات سے فرارمنفی اقدام
(Syed Mansoor Agha, India)
ایک طرف تو خبریں یہ آرہی ہیں
ملک کے اعلاترین سول اعزاز ’بھارت رتن‘کے لئے سابق وزیراعظم اٹل بہاری
باجپئی کا نام سرفہرست ہے۔ دوسری طرف مودی سرکار ان پالیسیوں کو حرف غلط کی
طرح مٹادینے پر آمادہ نظرآتی ہے جن سے مسٹر باجپئی کا نام دنیا میں نمایاں
ہوااورانکا مرتبہ سیاست داں (politician) سے بڑھ کر سیاسی دانشور اور مفکر
(statesman) کا ہواجو فوری سیاسی مفادات سے بلند ہوکر دوربینی سے کام لے
سکتا ہے اور ملک و قوم کے مفاد میں ذاتی و پارٹی مفاد کی قربانی دے سکتا
ہے۔ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ پڑوسی ممالک خاص طور سے پاکستان کے ساتھ
تعلقات کی ہمواری کے لئے جس سیاسی دانائی، زیرکی اور دوراندیشی سے انہوں نے
کام لیااس کی کوئی دوسری مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس گمان کی معقول وجوہات ہیں کہ اگر ان کو ایک موقع اور مل جاتا تو ہند
وپاک کے درمیان کی سرحدیں بے معنی ہوجاتیں۔یہ ان کی ہی پہل کا نتیجہ ہے کہ
انتہائی شورش سے گزرنے کے بعد آج کشمیر میں کچھ امن و سکون نظرآتا ہے
اورہماری مغربی سرحدوں پر تجارتی مال کی آمد ورفت ہورہی ہے ۔ تقریباً پچاس
سال کے منافرت کے ماحول کے بعد دونوں ممالک میں سیاسی اور عوامی سطح پر
خیرسگالی، خوش ہم سائیگی اور تجارتی رشتوں کی استواری کا جوجذبہ گزشتہ چند
سالوں میں پنپا ہے،انتخابات کے دوران تمام تر مخالفانہ بیانات کے
باوجود،ایک بڑے طبقے کو توقع تھی کہ نئی حکومت اس کے استحکام میں کردارادا
کریگی۔ یہ توقع دووجوہ سے تھی۔ اول تونئی سرکار کے سامنے باجپئی جی کی
وراثت تھی ۔دوسرے اپنی رسم حلف برادری میں سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو
کرکے اور خاص طور سے مسٹرنوازشریف پر توجہ مرکوز کرکے وزیراعظم نے یہ
تاثردیا تھا کہ وہ دو طرفہ مسائل کے حل کو ترجیح دیں گے۔ مگر اب اندیشہ یہ
لاحق ہوگیا ہے کہ ان امکانات پر این ڈی اے کے ناعاقبت اندیش سیاست داں اپنی
فطری کج فہمی اورآمرانہ ذہنیت کی بدولت یا داخلی سیاسی مفاد کی نیت سے تباہ
کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہند پاک خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان 25اگست کی مجوزہ
ملاقات کامنسوخ کیا جانا اسی سمت اشارہ کرتا ہے۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہند اور پاکستان کے درمیان حل طلب مسائل میں
ایک کشمیر بھی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کے لئے یہ مسئلہ بہت حساس ہے۔خاص
طور سے ایسے موقع پر جب پاکستان میں ایک بے وقت کی تحریک کی وجہ سے شورش
برپا ہے، پاکستانی حکام کی مجبوریاں بڑھ گئی ہیں۔ علاوہ ازیں ہرملک ، چاہے
وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، اپنی خود مختاری کے معاملہ میں حساس ہوتا ہے ۔
اگرکسی ملک کے ساتھ معاملات کی یکسوئی میں ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی
ترجیحات ہماری پسند کو مطابق طے کریگا تو یہ حقیقت پسندی نہیں۔ ایسی صورت
میں تو ہرگز نہیں جب آپ اپنی پسند کااعلان برسرعام کریں اور اس میں آمرانہ
انداز بھی جھلکتا ہو۔ پاکستان مذاکرات کا اپنا ایجنڈہ طے کرنے کے لئے چاہے
جس سے صلاح ومشورہ کرے،ہمیں بدکنا نہیں چاہئے۔جہاں تک حریت کے گرم یا نرم
دل سے بات چیت کا تعلق ہے، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس سے خود حکومت ہند
نے بات نہ کی ہو اور جن کو پاکستانی حکمرانوں سے بات چیت کا موقع فراہم نہ
کرایا ہو۔ اس حکمت عملی کے زیرسطح سوچ یہ کارفرما رہی ہے کہ اگر ہند اور
پاکستان کسی بامقصد نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو اس کے خلاف وادی میں آواز نہ
اٹھے۔ اگربفرض محال مودی سرکار کو پاکستانی سفیر کے اقدام سے کوئی شکوہ تھا
تو اس کے اظہار کی صحیح جگہ اسلام آباد میں مذاکرات کی میز تھی،دہلی میں
میڈیا سے خطاب نہیں۔ شکایت کا جواب وہ تنک مزاجی یا آمرانہ انداز نہیں جس
کا اظہار مذکرات کو منسوخ کرکے مودی سرکار نے دیا ہے۔بیشک اس اقدام سے اگر
کچھ نقصان پاکستان کا ہوگا تواس سے کہیں زیادہ اقتصادی رشتوں میں عدم توسیع
سے نقصان ہمارا بھی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی سرحد پر فوجی کا سر قطع کئے جانے
کے سنگین واقعہ کے باوجود آپ مذاکرات پرآمادہ ہوسکتے ہیں مگر سفیر کی
چندکشمیریوں سے ملاقات کو برداشت نہیں کرسکتے ؟
بیشک ہند کے ساتھ کشمیر کا الحاق ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ یہ الحاق دوطرفہ معاہدے سے عمل میں آیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نہرو سے
لے کرنرسمہا راؤتک، ہمارے ہی حکمرانوں نے الحاق کی بنیادوں پر تیشہ چلایا
ہے ۔ زورزبردستی کی سیاست نے ہند کے تئیں کشمیری عوام کے اعتماد کو متزلزل
کیا۔جبر کی سیاست زبانوں کو گنگ کرسکتی ہے، زبان کھولنے پر بے نشان قبرو ں
کی بستیاں بساسکتی ہے مگراعتماد کی کی شمع روشن نہیں کرسکتی۔ بیشک کشمیر
میں علیحدگی پسندی کے رجحان کا ایک سبب سابق میں پاکستان سے ملنے والی شہ
ہے ، مگر کچھ کوتاہی ہماری بھی ہے کہ لوگ خود سے ہم کو دور اور پاکستان کو
قریب محسوس کرنے لگے۔ ایسا بھی نہیں کہ ان کو پاکستان سے شکایتیں نہ ہوں،
مگر ہم ان کی آواز نہیں بن سکے۔ ان کی نمائندگی کا حق ہندستان کو ہے
مگرعملاً ایسا نہیں ہورہا ہے۔ آخر کیوں؟
ہرچند کہ خارجہ امور میں فیصلے سفارتی سطح پر تمام پہلوؤں پر غور وفکر کے
بعد کیا جاتا ہے، مگر ایک خبر یہ ہے کہ 25اگست کو ہند، پاک خارجہ
سیکریٹریوں کی اسلا م آباد میں مجوزہ بات چیت منسوخ کرنے کا فیصلہ وزارت
خارجہ کے افسران کی سنی بغیر بالا ہی بالا لے لیا گیا۔ خارجہ سیکریٹری کو
بھی مشورے میں شریک نہیں کیا گیا اور پی ایم اور نے از خود مذاکرات منسوخ
کرنے کا فیصلہ لے لیا۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ سفارتی نہیں سیاسی ہے اور وہ بھی
داخلی مفاد کے پیش نظر۔
پاکستان سے تعلقات کے باب میں بھاجپا قیادت کا ذہن ہمیشہ سے مسموم رہا ہے ۔
اس لئے اس فیصلہ میں اعتدال سے زیادہ فکری عناد کی بو آتی ہے۔ اس اقدام نے
اس تاثر پر خاک ڈال دی ہے، جو مئی میں مودی کی حلف برداری میں نوازشریف کی
شرکت سے بنا تھا۔ پاکستانی سفارتکاروں اور لیڈروں کی کشمیریوں سے ملاقات
کوئی نادر واقعہ نہیں۔خود ہماری حکومت نے ان لیڈروں کو پاکستان جانے کا
مواقع بھی دئے ۔یہ ملاقاتیں تقریبا ویسی ہی ہیں جیسی سشماسوراج نے حالیہ
دورہ بنگلہ دیش کے دوران خالدہ ضیا سے کی حالانکہ حسینہ واجد ان سے بدترین
دشمنی نباہ رہی ہیں۔حریت پاکستان لیڈروں ملاقاتوں سے ہند کا موقف کمزور
نہیں ہوجاتا ۔اس لئے اس بہانے مذاکرات کا منسوخ کیا جانا قطعا بچکانہ اور
بدبختانہ ہے۔ محبوبہ مفتی کی یہ رائے درست ہے کہ نئی مرکزی حکومت نے
پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے جس جرأت مندانہ اقدام کا عندیہ ظاہر
کیا تھا اب اس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دینے کا یہ بہانا بہت ہی حقیر
ہے۔‘پروفیسر سیف الدین سوز کی یہ رائے بھی بجا ہے کہ اگر مرکز کو کوئی
شکایت تھی تو پاکستان کو اس سے باخبر کیا جاسکتا تھا، مذاکرات کو منسوخ
نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ نیشنل کانفرنس کی اس رائے کی بھی تائید کی جائیگی
کہ موقف میں اچانک یہ تبدیلی نہ ریاست کشمیر کے مفاد میں ہے اور نہ ملک
کے۔مرکز کے اس اقدام سے کشمیر میں ہند مخالفوں کو ہی مدد ملے گی۔ ہرچند کہ
وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنی حالیہ تقریر میں کشمیریوں کے تعلق سے
’انسانیت ‘ کی بات کہیں تھی، مگر اس تازہ اقدام سے انسانیت تو دور، شرافت
اور صداقت کا بھی خون ہوا ہے۔
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھاجپا سرکار نے یہ سیاسی فیصلہ کیوں کیا؟ اس کا
جواب اس بیچینی اورمایوسی میں ملے گا جو مودی کی ڈھائی تین ماہ کی حکومت سے
عوام میں پیدا ہورہی ہیں۔ ابھی 13؍ستمبر کو بہار سمیت کئی ریاستوں میں ضمنی
چناؤ ہونے ہیں۔ لوک سبھا چناؤ کے بعد ، جس میں بھاجپا کو غیرمعمولی کامیابی
حاصل ہوئی تھی، جولائی کے آخر میں اتراکھنڈ میں تین اسمبلی سیٹوں پر ضمنی
چناؤ ہوئے اور تینوں پر بھاجپا کی کراری شکست ہوئی ۔ ان میں سے ایک سیٹ
بھاجپا کے سابق وزیراعلا پوکھریال نے اور دوسری اس کے ممبر اجے ٹمٹا نے
خالی کی تھیں ۔ یہ پوکھریال اور ٹمٹا مودی کی لہر پر سوا رہوکر لوک سبھا
میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ شکست اس لئے زیادہ شرمناک ہے ریاست سے لوک سبھا کی
پانچوں سیٹوں پردو ہی ماہ قبل بھاجپا جیتی تھی۔افسوس کی بات یہ کہ بھاجپا
قیادت نے اس موہوم امید پر کہ ’’پاکستان کے خلاف کڑا رخ ‘‘عنقریب ہونے والے
ضمنی اور چارریاستی اسمبلیوں کے چناؤ میں اس کو فائدہ پہچائے گا، قومی اور
ملکی مفاد کوقربان کردیا۔
بیچارے راجناتھ سنگھ
صورت سے لگتا ہے بھاجپا کے سابق صدر جن کو مودی نے ان کے لاکھ منع کرنے کے
باوجود اپنے تحت کابینہ میں لے کر ان کی جگہ اپنے خاص معتمد امت شاہ کو
پارٹی صدر بنادیا ہے،کسی گہرے صدمے میں ہیں۔پچھلے دنوں یہ خبر آئی کی پی
ایم نے اعلا مناصب پر تقرریوں کا اختیار اپنے تحت کرلیاہے۔ پہلے طریقہ کار
یہ تھا فائل متعلقہ محکمہ سے وزارت داخلہ میں آتی اور وزیرداخلہ کی منظوری
کے بعد صرف توثیق کے لئے پی ایم او جاتی تھی۔ اب فائل پہلے پی ایم او جاتی
ہے ۔کابینہ سیکریٹری کی منظوری کے بعد متعلقہ محکمہ آرڈر تیار کرکے فائل
وزیرداخلہ کوبھیج دیتا ہے ۔وزیرداخلہ کا کام بس اس پر دستخط کردینا ہے۔
اس تبدیلی کے ساتھ ایک خبر یہ آئی کہ وزیراعظم نے ایک سینروزیر سے کہا کہ
وہ اپنے بیٹے کو ان کے پاس بھیجیں۔ وزیرصاحب خوش ہوگئے ۔ مودی نے وزیرزادے
کی بڑی آؤ بھگت کی، مگردم رخصت یہ نصیحت بھی کردی کہ اعلا مناصب پر تبادلوں
اور تقرریوں کے لئے جن لوگوں سے پیسے لے رکھے ہیں وہ واپس کردینا۔ اس خبر
کے بعد سے وزیر داخلہ کی میز پرپانی دو گلاس رکھے جانے لگے ہیں۔
مسلم طالبہ کو7 گولڈ میڈل
مولانا آزاد میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کی ایک مسلم طالبہ نے، جو
اسکارف پہنتی ہے ، سات گولڈ میڈل حاصل کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ طالبہ
ڈاکٹر سارہ خاندان کی والدہ اور والد دونوں کا تعلق ضلع اعظم گڑھ سے ہے ۔
اس کے والد سعودی عرب میں آنکھوں کے سرجن ہیں۔ سارہ خان نے درج ذیل میڈل
حاصل کئے ہیں۔ ڈاکٹر کے سی گویل ایوارڈ برائے بیسٹ اسٹوڈنٹ آف ایم بی بی
ایس، ڈاکٹر کے سی موڈاوٹ گولڈ میڈل برائے بیسٹ اسٹوڈنٹ آف میڈیسن،لارڈ شوا
ٹرسٹ میڈل برائے بیسٹ گرل اسٹوڈنٹ ان میڈیسن ان فائنل یر، کیپٹن ایس رمپت
گولڈ میڈل فار بیسٹ اسٹوڈنٹ ان میڈیسن، ڈاکٹردھرم ویر گولڈ میڈل برائے بیسٹ
میڈیکل گریجوئیٹ۔ سارہ نے فائنل سمسٹر میں کالج کو ٹا پ ہی نہیں کیا بلکہ
تین مضامین بایو کیمسٹری، فزیالوجی، اناٹومی میں ڈسٹنکشن حاصل کیا۔ اس کو
دوایوارڈ فزیولوجی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے لئے بھی ملے۔ سارہ
ابتدائی تعلیم دمام میں حاصل اور نہایت سادہ رہتی ہیں۔ ہم ان کو اوران کے
والدین کو دلی مبارکباد پیش کرتے ۔ سارہ کی والدہ بیگم ڈاکٹر ظفرالسلام خاں
کی ہمشیرہ زادی ہیں۔ |
|