جبلِ اُحد کے دامن میں چند ساعتیں

۲۹ نومبر۲۰۱۳ء کوہم جدہ پہنچے، عمرہ کیا، کئی بار خانہ کعبہ میں حاضری دی۔۱۲ ربیع الا ول قریب ہی تھی۔ خواہش تھی کہ ۱۲ ربیع الا ول مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے گزاریں۔ اس بار یہ آروزو لیے ہی ہم سعودی عرب آئے تھے۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آرہی تھی اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی کررہے تھے۔ اپنے بیٹے عدیل سے اس بات کا ذکر کیا کہ ہم ایک ہفتہ مدینہ منورہ میں خاص طور پر ۱۲ ربیع الا ول کی شب مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺ کے سامنے گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پروردگار نے ہماری یہ دعا قبول کرلی تھی۔ ۹ جنوری ۲۰۱۴ء بروزجمعرات رات ۱۱ بجے عدیل کے ہمراہ ہم عازم ِسفر ہوئے ۔ سعودی عرب میں رہنے والے رات میں سفر کو فوقیت دیتے ہیں۔ جدہ سے مدینہ کے لیے ہماری کار سرپٹ دوڑی چلی جارہی تھی۔ ابھی مدینہ کا سفر دو گھنٹے کا باقی تھا کہ طوفانی ہوا، گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ بارش کی شدت اس قدر تھی کے گاڑی کو ایک جگہ روکنا پڑا اور جب بارش کم ہوئی تو سفر دوبارہ شروع ہوا صبح پانچ بجے مدینہ پہنچ گئے۔ جوں ہی ہماری کار مدینہ کی حدود میں داخل ہوئی اﷲ کے شکر کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں سلام کا نظرانہ بھی پیش کیا۔ عدیل جدہ میں مقیم ہونے کے باعث مدینہ ، مکہ ، طائف، ریاض اور دیگر شہروں کے راستوں اور ہوٹلوں سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ مسجد بلال کے اطراف میں قائم ہوٹل ’لؤلؤ الخلیج ‘پہنچے جہاں ہمیں ایک مناسب کمرہ بھی مل گیا۔ اس سے قبل بھی ہم نے اسی ہوٹل میں قیام کیا تھا ۔یہاں پر قیام کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نیچے کئی پاکستانی ہوٹل ہیں جہاں پاکستانی کھانا بہ آسانی مل جاتا ہے ۔ مسجد نبوی بھی بہت قریب ہے۔ ہوٹل کے سامنے مین روڈ ہے پل کے نیچے سے سامنے کی جانب جائیں تو مسجد نبوی کی دیوار شروع ہوجاتی ہے یہ راستہ جنت البقیع کے بنیادی دروازے کی جانب نکلتا ہے۔ رات بھر کے سفر نے بری طرح تھکادیا تھا۔ اپنے اپنے بستروں پر لیٹ کر ہوش ہی نہیں رہا آنکھ کھلی تو دن نکل چکا تھا۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا آج جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ مسجد نبوی میں پڑھی ، رش کے باعث مسجد نبوی کی دیوار اور جنت البقیع کی دیوار کے درمیانی راستے میں جگہ ملی۔روضہ رسول ﷺ نظروں کے سامنے تھا سبز گنبد بھی سامنے اپنی بہاریں دکھا رہا تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد سیدھے روضہ رسول ﷺ کا رخ کیا، شہناز خواتین کے حصے کی جانب چلی گئیں مَیں نے اور عدیل نے نبی اکرم ﷺ کی خدمات میں سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ ریاض الجنہ میں نفل کی ادائیگی بہ آسانی نصیب ہوئی روضہ رسول ﷺ کی جالیوں کے سامنے سے ہوتے ہوئے اور نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھ آرام فرما آپ کے رفیق حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ کی خدمات میں سلام کانظرانہ پیش کیا۔اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے یہ سعادت بخشی۔

ہمارا بیٹاعدیل ہمیں مدینہ چھوڑ کر جمعہ کی شام جدہ واپسی ہوئے کیونکہ میری بہو مہوش اور پوتا صائم گھر پراکیلے تھے۔ رات گئے جدہ پہنچنے کی اطلاع ملی ۔اﷲ کا شکر ادا کیا۔ ہمیں ایک ہفتہ مدینہ منورہ میں رہنا تھا۔ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کیں، عصر کی نماز کے بعد جنت البقیع کا دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ لوگ اس مقدس قبرستان میں آرام فرما محترم ہستیوں کی قبور کی زیارت کرسکیں اور فاتح پڑ سکیں۔ خواتین کا داخلہ جنت البقیع میں ممنوع ہے چنانچہ میں تنہا ہی قبرستان میں جاتا رہا اور فاتح پڑھتا رہا۔ ۱۲ ربیع الا ول کا شدت سے انتظار تھا ۔ پیر ۱۲ ربیع الا ول ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۳ جنوری ۲۰۱۴ء (سعودی عرب میں )ہم نے تمام شب روضہ رسول ﷺ کے سامنے اور مسجد بنوی میں گزاری، نفل پڑھتے رہے، دعائیں کرتے رہے۔ نصیب کی بات ہے اﷲ نے یہ سعادت بخشی ۔ ریاضہ الجنہ میں متعدد بار نفل کی ادائیگی کرتے رہے ۔پاکستان میں آج کی رات سماء ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ مسجدوں میں خاص اہتمام ، ٹیلی ویژن رات بھر خصوصی پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہاں سعودی عرب مختلف نظریات رکھتا ہے۔ مدینہ میں یا مسجد نبوی میں اس حوالے سے خاموشی تھی۔ مجھ جیسے کتنے ہی لوگ اپنے اپنے طورپردل ہی دل میں حضواکرم ر ﷺ کی پیدائش کے حوالے سے خصو صی دعائیں کررہے تھے وہ بھی اس طرح کہ ہمارے کسی عمل سے یہ ظاہر نہ ہوکہ ہم کیا کررہے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی بدعت اور شرک سے محفوظ رکھے۔

اتوار ۱۲ جنوری ۲۰۱۴ء ۱۰ بجے صبح ہم جبلِ اُحد کے دامن میں تھے۔ ہمارے دائیں جانب اُحد اپنی وجاحت لیے فخریہ انداز سے یہاں آنے والوں کا استقبال کررہا تھا تو بائیں جانب ایک بڑی چاردیواری جس کے اوپر کی جانب جنگلہ لگا ہوا تھا موجود تھی۔ گاڑی سے اتر کر معلوم ہوا کہ وہ سامنے جو اونچا وسیع و عریض پہاڑ ہے جبل ِاُحد ہے اور یہ چاردیواری جنگ احد میں شہادت حاصل کرنے والے شہدا کی قبروں پر مشتمل ہے۔ شہدا کی یادگار کے بعد ایک اورکم اونچا پہاڑ بھی نظر آرہا تھا جس پر لوگ کافی تعداد میں موجود نظر آرہے تھے معلوم ہوا کہ یہ چھوٹا سا پہاڑ جسے اب ٹیلہ کہا جاسکتا ہے’’ جبلِ روما‘‘ ہے ۔ اس چھوٹے سے پہاڑ پر اور اس کے ارد گرد جنگ ِاحد کا معرکہ عمل میں آیا،۷۰ جلیل القدرصحابہ اکرم ؓنے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ان کی قبریں جبلِ احد اور جبلِ روما کے درمیان چار دیواری میں موجود ہیں۔ان شہدا میں سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کے چچا سید الشہدا سیدنا حمزہ ؓ بن عبدالمطلب کی قبرمبارک بھی ہے۔

ہم اپنی قسمت پر نازاں تھے، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یاہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ ابھی تک تو ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا، علماء اکرم سے جنگ اُحد کے معرکے کی تفصیل سنی تھی کہ غزوہ اُحد جبلِ اُحد کے دامن میں۳ ہجری بروز جمہ ۱۵ شوال کو وقوع پذیر ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا لشکر اُحد کے دامن میں کرانہ وادی میں درہ (شعب) کے نذدیک جمع ہوا۔ جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے کفار کے ساتھ جنگ میں از خود حصہ لیا اور اس جنگ میں ۷۰ صحابہ اکرمؓ نے شہادت نوش کیا۔ آج میں یہ سب کچھ ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اس مقدس زمیں پر موجود تھے۔ پروردگار تیرا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے ؂
جبلِ اُحد تیری عظمت کولاکھوں سلام
نبی ؑ سے تیری محبت و عقیدت کو سلام

اول جبلِ احد کی جانب رخ کیا اسے غور سے،نگاہ جما کر، جی بھر کر دیکھا اور سلام ِ عقیدت پیش کیا۔ پہاڑ تو بے جان ہے پھر اسے سلام عقیدت پیش کرنا؟جی ہاں میں نے اس عظیم المرتبت ، مقدس پہاڑ کو سلامِ عقیدت پیش کیا اس لیے کہ جمادات میں دوستی و دشمنی نیک بختی و سعادت مندی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔فرمان خدا وندی ہے (ترجمہ ) ’’اور ہر ایک چیز اﷲ کی حمد بیان کرتی ہے‘‘۔ (سورۃ بنی اسرائیل)۔ جبل ِاُحد سے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو بھی خاص انسیت و محبت تھی۔ ارشاد نبوی ہے کہ ’’کوہِ اُحد سے ہم محبت کرتے ہیں اور یہ بھی ہماری محبت کا دم بھر تا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث نبوی ہے جس کے راوی حضرت انس ؓہیں آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کی نظر شفقت جبلِ اُحد پر پڑی تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے بے ساختہ ’اﷲ اکبر‘ کہا اور فرمایا کہ ’ یہ پہاڑ ہمیں محبوب رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہے‘۔ جبل ِ اُحد کے بارے میں ایک اور حدیث جو کتابوں میں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’کوہِ اُحد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہوگا جب تم اس کے پاس سے گزروتو اس کے درختوں کا میوہ کھا لیا کرواگر کچھ بھی نہ ملے تو وہاں صحرا کی گھاس ہی چبا لیا کرو ‘‘ ۔ یہ حدیث میں نے بعد میں پڑھی، انشاء اﷲ اب اگر یہ سعادت حاصل ہوئی تو حدیثِ مبارکہ کے مطابق اُحد کے درختوں کامیوہ میسر آیا تو ضرور کھاؤں گا اگر وہ نہ ملا تو وہاں کے صحرا کی گھاس ہی چباؤں گا۔ جبلِ اُحد کی عظمت کا اندازہ اس روایت سے بھی لگا یا جاسکتا ہے ۔ سیدنا انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ’’ جب اﷲ تعالیٰ نے کوہِ طور پر نور کی تجلی ڈالی تو وہ عظمتِ خدا وندی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا۔ جس میں سے تین ٹکڑے مکہ مکرمہ میں اور تین ٹکڑے مدینہ منورہ میں جاپڑے۔ مکہ مکرمہ میں جبلِ حرا ، جبلِ ثبیر اور جبلِ ثور معرض وجود میں آئے اور مدینہ منورہ میں جبلِ اُحد، جبلِ ورقان اور جبلِ رضوی ظہور پذیر ہوئے‘‘۔الحمد ﷲمجھے ان پہاڑوں میں سے جبلِ حرا، جبلِ ثوراور جبلِ اُحد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ زندگی نے وفا کی ، اﷲ کی رضا ہوئی تو دیگر تین پہاڑوں جبل ِثبیر، جبلِ ورقان اورجبلِ رضوی کی زیارت کی بھی سعی کروں گا۔ جبلِ اُحد کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ اس پہاڑ پر جب نظر پڑتی ہے توٹھنڈک ، خوشبو، پیار و محبت کا منفرد احساس ہوتا ہے،اس کے اوپر شفقت کی کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں، آنکھوں میں ٹھنڈک اور نمی کا احساس ہوتا ہے،یہ عظمت و بزرگی لیے ہوئے ہے۔

جبلِ اُحد کی زیارت کے بعد ہم نے شہدائے اُحد جو اُحد کے دامن میں ایک چار دیواری میں ابدی نیند سورہے ہیں کا رخ کیا۔ شہدائے اُحد کی عظمت اور مقام تاریخ اسلام میں سنہرے حروف سے درج ہے۔ اُحد کے دامن میں ایک چار دیواری جسے خستہ حال ہی کہا جائے گا موجود ہے نیچے کوئی چار فٹ پکی دیوار ہے اس کے اوپر لوہے کی جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چاردیواری ایک مستطیل ہے اندر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پتھر نظر آرہے ہیں جن کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ قبریں ہیں اس مستطیل کے درمیان میں ایک قبر ہے جس کے اوپر صرف ایک پتھر ہی لگا ہوا ہے اس کے چاروں طرف کوئی دو فٹ اونچی بوسیدہ دیوار بھی ہے ۔
یہ قبر شہدا ء اُحد کے سردار سید الشہدا سیدنا حمزہ ؓ کی قبرمبارک ہے۔ سعودی حکومت نے اسے محفوظ رکھا ہوا ہے نہیں معلوم اس میں کیا مصلحت ہے ورنہ اس قسم کے نشانات کو مٹادینا عام سے بات ہے۔

اس چاردیواری میں صرف اُحد کے شہدا ہی دفن نہیں بلکہ ان کے بعد مختلف ادوار میں لوگوں کی تدفین اس میں ہوتی رہی ہے۔ ’’تاریخ مدینہ منورہ‘‘ کے مصنف محمد عبد المعبود نے مو طا امام مالک کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’شہدائے اُحد کے ۴۶ سال بعد ایک مرتبہ سیلاب کی وجہ سے سید نا عمرو بن الجموع اور سید نا عبداﷲ بن عمر ؓ کی قبریں کھل گئی تھیں۔ یہ دونوں انصار غزوہ اُحد میں شہید ہوئے تھے۔ ان کے وجود اس طرح تروتازہ پائے گئے گویا کہ کل ہی دفن ہوئے تھے۔ دونوں میں سے ایک نے ہاتھ زخم پررکھا ہوا تھا۔ اور اسی حالت میں دفن کردیا گیا ۔ پس جب ان کا ہاتھ اس زخم سے ہٹایا گیا تو چھوڑتے ہی وہ فوراً زخم پر حسب سابق آگیا‘‘۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ شہداء احد کی زیارت کو ہر سال تشریف لے جاتے تھے اور ان الفاظ میں سلام پیش کیا کرتے تھے۔’’سلام علیکم بما صبر تم فنعم عقبی العدار‘‘ ۔ہم نے بھی شہدائے احد اور دیگر اہل قبور کے لیے مغفرت کی دعا کی اور اب ہم اس مقام کی جانب چل دئے جہاں پر شہدائے احد کی شہادتیں ہوئیں اور معرکہ اُحد وقع پذیر ہوا ۔ ویسے تو یہ پورا میدان جہاں پر اس وقت شہدا کی قبریں ہیں میدان جنگ بنا ہوا ہوگا۔

غزوہ اُحد کا معرکہ جبلِ اُحد کے دامن میں ہوا۔وادیٔ کرانہ میں ایک چھوـٹا سا پہاڑ بھی موجود ہے جسے ’جبلِ روما‘ کہا جاتا ہے۔ میں اپنی شریک حیات شہناز کے ہمراہ جبل روما کی چوٹی پر ہوں یہ ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جس کی اونچائی ۲۰ سے۲۵ فٹ ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پرسب ہی لوگ بہ آسانی موجود ہیں ۔ اس کے چوٹی پر پہنچ کر شہدائے اُحد کی یاد گار واضح طور پر نظر آتی ہے اس میں موجود تمام قبروں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نیز اسی جانب جبل اُحد تا حد نظر انتہائی اونچا صاف طور پر جلوا نماہے۔ جبل روما پرپہنچ کر میری سوچ کا دھارا غزوہ احد کی جانب ہوگیا اور وہ تمام واقعات جو میں نے غزوہ کے حوالے سے پڑھ رکھے تھے ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے آنے لگے۔

جنگِ بدر میں شکت کھا کراس وقت کے قریشِ مکہ کی حالت اس مچھلی کی طرح تھی جسے پانی سے نکال کر خشکی میں چھوڑ دیا جائے۔ وہ اپنی شکت کا بدلہ لینے کے لیے ایک ایک دن مشکل سے گزار رہے تھے اور بھر پور انداز سے جنگی تیاروں میں مصروف تھے۔ ہجرت کا تیسرا ہی سال تھا۔ مشرکین مکہ نے تین ہزار کا لشکر ابو سفیان کی سر کردگی میں تیار کیا ۔ عورتوں کی سرپرستی ابو سفیان کی بیوی ’’ہندہ بنتِ عتبہ‘‘ کر رہی تھی ۔ یہ وہی ہندہ ہے جس نے حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب کی شہادت کے بعد ان کاجگر نکال کر چبا یا جب نگلا نہ جاسکا تو تھوک دیا تھا۔ مسلمانوں کو جب مشرکین کی اس سورش کا علم ہوا تو نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے مشرکین کامقابلہ کرنے کے اقدامات کیے ، صرف ایک ہزار کا لشکر تیار ہوسکا ۔ ا ن میں سے ۳۰۰ افرادکی کمان عبد اﷲ بن اُبی کے ہاتھ میں تھی ۔عبد اﷲ بن اُبی نے عین وقت پر غداری کی اوراپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس مدینہ چلا گیا اب ۱۰۰۰مشرکین کے مقابلے میں صرف ۷۰۰ مسلمان رہ گئے۔اس موقع پر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی (ترجمہ۔ پس کیا ہے واسطے تمہارے بیچ منافقوں کے دو فرقے ہورہے ہو۔ اور اﷲ نے الٹا کیااب ان کو بسبب اس چیز کے کہ کما یا انہوں نے ۔ کیا ارادہ کرتے ہو تم یہ کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا! اﷲ نے ؟ اور جس کو گمراہ کرے اﷲ پس ہر گز نہ پائے گا تو واسطے اس کے راہ‘‘) ایک طرف کفار تعداد میں بہت زیادہ اور جنگی ساز و سامان سے آراستہ تھے تو دوسری جانب مسلمانوں میں جذبہ اور ایمان کی قوت تھی۔ معرکہ جبلِ اُحد کے دامن میں ہوا جہاں اس وقت ہم موجودہیں۔ میری سوچ کا دھارا اس معرکہ پر مرکوزتھا ، نظروں کے سامنے مسلمان اور کفار آمنے سامنے نظر آرہے تھے۔ مسلمانوں کی سرپرستی اور رہنمائی نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کر رہے ہیں جب کہ کفار کا لشکر ابو سفیان کی کمان میں تھا۔ اس جنگ میں مشرکین کا پلڑا بھاری رہا ، بظاہر انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کامیاب ہوئے اور انہوں نے جنگ ِبدر کا بدلہ لے لیا ۔دوسری جا نب اﷲ کے نبی ﷺ اور ان کے ساتھی تھے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور غزوہ احد کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس غزوہ میں مسلمانوں کا جوش و جذبہ بلند تھا اور وہ مشرکین کو بہادری کے ساتھ پے در پے وار کرکے ختم کر رہے تھے ۔ مشرکین پسپہ ہورہے تھے محسوس ہوا کہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کے ۵۰ تیر انداز جنہیں آؓنحضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کی پشت پر موجود کوہ عینین میں ایک شگاف یا درہ پر معمور کردیا تھا جہاں سے مشرکین کے حملے کا خطرہ تھا۔ ان تیر اندازوں کی کمان حضرت عبد اﷲ بن جبیرؓ کر رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے انہیں تاکید فرمائی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے اس درہ کو کسی صورت نہیں چھوڑ نا ۔

پیراویسی تبسم نے اپنے مضمون’ غزوہ امت اور تعلیم امت ‘ میں’ صحیح بخاری کتاب الجہاد‘کے حوالے سے حضور ﷺ کی اس ہدایت کواس طرح نقل کیا ہے ’’اگر تم دیکھو کہ کہ پرندے ہم کو اچک لیے جارہے ہیں تو اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس کسی کو بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور مار کر پامال کردیا ہے تب بھی ایسا نہ کرنا‘‘۔ جب ان تیر اندازوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔کفارِ مکہ شکست کھاتے اور بھاگتے نظر آئے تو انہوں نے سمجھا کہ فتح ہوگئی ہے چنانچہ ان تیر اندازوں کی اکثریت نے درہ کو چھوڑ دیا اور میدان جنگ میں چلے آئے اور مالِ غنیمت جمع کرنے لگے ۔ در ہ پر صرف ۱۰ تیر انداز رہ گئے تھے۔ مشرکین کی فوج میں شامل خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور عکرمہ بن ابی جہل درہ کی جانب سے آنکلے اور عبداﷲ بن جبیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے مسلمانوں کے لشکر پرچڑھ دوڑے ۔ ان کے اس حملے نے جنگ کا نقشہ ہی پلٹ کر رکھ دیا ۔ مشرکین کی فتح کے آثار نمایاں نظر آنے لگے۔ مسلمانوں کو فتح کے بعد شکت کا سامنا کرنا پڑا۔ حضور ﷺ کی اس ہدایت سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کسی صورت بھی اس درہ کو خالی نہیں چھوڑ نا چاہتے تھے۔ درہ پر معمور مسلمانوں نے حضور ﷺ کی اس ہدایت پر عمل نہ کیا جس کے نتیجے میں فتح شکست میں بدل گئی۔

’جبلِ روما ‘کے اوپر سے بہت کوشش کی کہ اس درہ کو تلاش کرسکوں جہاں پر آنحضرت محمد ﷺ نے ۵۰ تیر اندازوں کو معمور کیا تھا اور تاکید کی تھی کہ وہ ہر صورت میں اس جگہ پر موجود رہیں اور اسے خالی نہ چھوڑیں ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کے نتیجے میں فتح شکست میں تبدیل ہوئی۔ گویا نبیﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نے فتح کو شکت میں تبدیل کر دیا۔ بہت کوشش کے باوجود مجھے یہ درہ دکھائی نہیں دیا۔ خیال ہے کہ جبلِ اُحد کے کسی بھی حصے میں یہ درہ موجود ہوگا ، ہوسکتا ہے کہ اب یہ درہ میدان بن گیا ہو یا کسی بھی وجہ سے اس نے اپنی ہیٔت بدل لی ہو۔

غزوہ احد کے حوالے سے دوسرا اہم واقعہ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا ہے۔ میں اس سوچ میں گم تھا اور خیال کر رہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مَیں اس وقت جس جگہ موجود ہوں حضرت حمزہؓ کو اسی جگہ وحشی نے شہید کیا ہو۔ان کا خون اسی جگہ گراہو اور اسی مٹی نے ان کے خون کو اپنے اندر جذب کر لیا ہو ۔ میں نے اس جگہ اور اس مٹی کوسلام ِعقیدت پیش کیا اپنی خو ش بختی پر مسرور ہوا۔ پھر یہ سوچ کردل بوجھل ہوگیا ، آنکھیں نم ہوگئیں کہ حضرحمزہؓ کو شہادت کا رتبہ تو ملا لیکن مشرکین نے آپ کے مردہ جسم کی بے حرمتی کی، آپ کے کان ، ناک اور دیگر اعضاء کاٹ دیے۔ ابو سفیان کی بیوی ’’ہندہ ‘‘ نے حضرت حمزہؓ کے شہید ہونے کے بعد ان کے جسم مبارک کو چیرکر ان کا جگر نکالا، اسے چبایا جب نگل نہ سکی تو اسے تھوک دیا۔ ہندہ نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے پر اپنے کڑے، بالیاں اور گلے کا ہار انعام میں وحشی کو دیا۔ حضرت حمزہؓ ایک بہادر اور دلیر صحابی تھے آپ نے جنگ بدر میں بے شمار مشرکین کو موت کے گھاٹ اتارا تھا یہ بات مشرکین کے علم میں تھی چنانچہ وہ دیگر کے علاوہ حضرت حمزہ ؓ کے خون کے پیاسے تھے ۔ مشرک جبیر بن مطعم نے ’وحشی‘ نامی ایک غلام کو آزاد کردینے کا لالچ دیگر حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ اس نے ایسا ہی کیا موقع دیکھ کر حضرت حمزہؓ پر ایسا وار کیا کہ وہ شہید ہوگئے۔ آنحضرتﷺ نے جب حضرت حمزہ ؓ کی شہادت شدہ لاش دیکھی تو بہت غم گین ہوئے ، فرمایا ایسا درد ناک منظر میری نظر سے کبھی نہیں گزرا‘۔ آپﷺ نے شہدا ئے اُحد کے لیے فرمایا کہ ’’میں قیامت کے دن ان کاشفیع ہوں‘‘۔

وحشی بعد میں ایمان لے آیاتھا لیکن حضور ﷺ نے اسے اپنے سامنے آنے سے منع فرما دیا تھا۔

غزوہ اُحد میں آنحضرت ﷺ کی شہادت کی خبر کا عام ہوجانا اور آپ ﷺ کے دندانِ مبارک کے شہید ہوجانے کا واقع بھی یاد آگیا ۔مَیں اس خیال میں گم ہوگیا کہ کس قدر تکلیف دہ وہ لمحات ہوں گے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ پر کیا گزری ہوگی ۔ ایک لمحہ کو یہ خیال بھی آیا کہ کیا پروردگار مشرکین کو اس مکروہ عمل سے نہیں روک سکتا تھا۔ یقینا اس کے لیے یہ کوئی مشکل عمل نہیں تھا ۔ جب وہ اپنے گھر خانہ کعبہ کی حفاظت کے لیے ننھی ننھی ابابیلوں کو کنکریوں کے ساتھ بھیج سکتا ہے جنہوں نے ہاتھیوں جیسے لہیم شہیم جانوروں کا بھوسا بنا دیا تھااور خانہ کعبہ مشرکین کے ہاتھوں محفوظ رہا تھاتو اس کے لیے اُحد کے میدان میں مشرکین کو تہس نہس کردینا کیا مشکل تھا لیکن اﷲ کے ہر معاملے میں ، اس کے ہر فیصلے میں حکمت ہوتی ہے۔ اﷲ کا فرمان ہے کہ ’جو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں‘۔ یقینا اس عمل میں بھی کوئی حکمت رہی ہوگی۔ حضرت مُصعب بن عمیرؓ کی شکل و صورت نبی اکرم محمد ﷺ سے ملتی جلتی تھی۔ جس وقت مشرکین مسلمانوں پر حملہ آور ہوکر انہیں شہید کررہے تھے تو حضرت مُصعب ؓ آنحضرت ﷺ کو محفوظ رکھنے اور انہیں بچانے کی کوشش میں شہید ہوگئے۔ مشرکین نے یہ افواہ پھیلا دی کہ (معاذ اﷲ) محمد ﷺ شہید ہوگئے۔ یہ خبر صحابہ اکرم پر بجلی بن کر گری ، ایک سراسیمی پھیل گئی، افراہ تفری کا پھیل جانا ایک قدرتی عمل تھا۔ مسلمانوں میں جو تھوڑا بہت دم خم تھا وہ بھی اس خبر کے پھیل جانے سے جاتا رہا۔ مشرکین کی عورتوں نے اس خبر پر خوشی کے ترانے گائے۔ لیکن یہ خبر سچ نہیں تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت ابو دجانہؓ اور دیگر صحابہ اکرم نے آپ ﷺ کو گھیرا ہوا تھا دشمنوں نے تیروں کی بارش کی، پتھر پھینکے، صحابہ نے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا اس کے باوجود آپ ﷺ کی پیشانی اور بازو زخمی ہوگئے اور آپ ﷺ کے دو دانت مبارک بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت بھی اﷲ کے نبی ؑ نے مشرکین کو بد دعا نہیں دی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’اے اﷲ! میری قوم کو ہدایت فرما کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتی‘۔ اس جنگ میں ۷۰ مسلمان شہید ہوئے۔ اس روز تکلیف اور زخموں کے باعث نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز بیٹھ کر ادا کی اور آپ ﷺ کے ساتھ مقدیوں نے بھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔

غزوہ اُحد میں نبی ﷺ کے دندان مبارک کے شہید ہونے کی بات ہو تو یمن کے محلے قرن کے باسی حضرت خواجہ اویس قرنی کا خیال آنا لازمی ہے۔مَیں مکمل طور پراُحد کی اس زمین کو تکے جارہاتھا خیال تھا کہ شاید یہ ہی وہ جگہ ہو کہ جہاں حضور ﷺ زمین پر گرے ہوں گے ، صحابہ اکرم نے انہیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہوگا ، بہادر صحابی مشرکین کے ساتھ لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کررہے ہوں گے۔ اس دوران عتبہ بن ابی وقاص نامی ایک مشرک نے موقع جان کر ایک پتھر حضور ﷺ کی جانب اس طاقت سے ماراکہ حضور اکرم ﷺ کا ایک دانت بعض روایت میں ہے کہ دو دانت مبارک شہید ہو گے۔ حضرت اویس قرنی احسان و مہر بانی اور نبیؑ سے محبت کے اعتبار سے محترم تابعین میں سے ہیں۔ آپ یمن کے شہر قرن کے رہنے والے تھے۔ آپ اتنے درویش منش اور ایسے فقیر تھے کہ لوگ آپ کو دیوانہ تصور کیا کرتے تھے۔ سید علی ہجویری نے اپنی تصنیف ’کشف المحجوب‘ میں اویس قرنی کو اہل تصوف کا عظیم مشائخ قرار دیا ہے۔ قر نی سچے عاشقِ رسول ؑ تھے عالم جسمانی میں حضرت محمد ﷺ کو دیکھنے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا لیکن روحانی طور پر آپ اپنے نبی ؑ کے خیال میں گم رہا کرتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اویس قرنی اپنی والدہ محترمہ کے واحد کفیل تھے اور اپنی والدہ کی خدمت کے علاوہ تنگ دستی نیزانہیں تنہا نہ چھوڑ نے کے باعث قرن سے باہر نہیں جاسکتے تھے یہی وجہ رہی کہ آپ نبی اکرم ﷺ کی ظاہری زندگی میں زیارت نہ کرسکے۔ ان کا ذریعہ معاش شتر بانی یعنی اونٹ چرانہ اور زمین پر گری ہوئی کھجور کی گٹھلیاں اکٹھی کرکے انہیں بازار میں بیج کر اپنا گزر بسر کرنا تھا۔اویس قرنی کو جب غزوہ اُحد کے حالات خصوصاً حضرت محمد ﷺ کے دانت کی شہادت کا علم ہوا تو حضور ؑ کو پہنچنے والی اذیت و تکلیف کے خیال سے آپ تڑپ اٹھے اور زارو قطارروتے تھے آنسوں تھے کہ تھم نے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ جب آپ کو احساس ہوا کہ دانت ٹوٹنے سے حضورﷺ کو اس قدر شدید تکلیف ہوئی ہوگی تو آپ نے ایک پتھر اپنے دانت پر مار کر اپنا دانت توڑ ڈالا ، پھر آپ کو خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دانت نہیں بلکہ اس کے برابر والا دانت حضور ؑ کا ٹوٹا ہوتو آپ نے دوسرا دانت توڑ ڈالا، پھر سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ حضورؑ کا نیچے والا دانت ٹوٹا ہو تو آپ نے اپنا نیچے والا دانت توڑ ڈالا ۔ اس طرح آپ نے یکے بعد دیگر تمام دانت توڑ ڈالے کہ کسی طرح اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کا کامل اتباع حاصل ہوسکے۔اﷲ اﷲ اپنے نبیؑ سے محبت کی لازوال مثال ہے ۔اُحد کے مقام سے مَیں نے
حضرت اویس قرنی کو سلام عقیدت پیش کیا ۔

غزوہ اُحد کے شہداء کو غسل دیے بغیر نیز ایک قبر میں کئی کئی شہدا کو دفن کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی گئی۔ انہیں باقاعدہ کفن بھی نہیں پہنا یا گیا اس کی وجہ اس وقت کفن کے کپڑوں کا میسر نہ ہونا تھا۔ یہی نہیں بلکہ کفن کے لیے جو چادریں میسر تھیں اور لمبائی میں کم یا چھوٹی تھیں جس کے باعث حضور ﷺ نے ہدایت کی کہ منہ ڈھانپ دیا جائے اور پیروں کوحرمل ، گھاس یا پتوں سے ڈھانپ دیاجائے۔البتہ سید الشہدا حضرت حمزہؓ کو ایک ہی چادر میں دفن کیا گیا۔صحابی حضر ت حنظلہ بن ابی عامر انصاری کو غسل الملائکہ کہا گیایعنی جنہیں فرشتوں نے غسل دیا ۔ اس واقع کا ذکر پیر اویسی تبسم نے اپنے مضمون ’غزوہ اُحد اورتعلیم امت‘ میں ’سیرت ابن ہشام‘ کے حوالے سے اس طرح کیا ہے کہ ’ حضر ت حنظلہ بن ابی عامر انصاری نے مشرکین کے سپہ سالار ابو سفیان پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ ابوسفیان کو قتل کردیتے ۔ مگر شداد بن الا سود نے ان کے وار کو روک لیا اور اپنی تلوار سے حضر ت حنظلہ بن ابی عامر انصاری کو شہید کردیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔ ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کرو۔ بیوی نے کہا کہ شبِ اُحد ان کی شادی ہوئی تھی۔صبح کو اٹھے غسل کی حاجت تھی ۔ غسل کیلے آدھا سر دھویا تھا کہ دعوت جنگ کی آواز کان میں پڑی ۔ فوراًاسی حالت میں وہ شریک جنگ ہوگئے۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسی سبب سے اسے فرشتے غسل دے رہے ہیں۔چنانچہ حضرت حنظلہ غسیل الملائکہ کہلاتے ہیں‘‘۔روایت ہے کہ اس واقع کے کئی برس بعد آنحضرت محمد ﷺ شہدائے احد کی قبروں پر آئے اور شہداء پر نماز جنازہ پڑھی۔

اُ حد کے میدان میں مسلمان خواتین بھی شریک جنگ تھیں۔ ان میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، ام سلیمہ ؓ، ام سیطؓ، ام ایمنؓ، حمنہ بنت حجشؓ، ام عمارہؓ، نسیبہ بنت کعب انصاریؓ، حضرت صفیہؓ (حضرت حمزہؓ کی بہن) اور دیگر شامل تھیں۔ یہ خواتین مشکیں بھر بھر کر لاتیں اور مسلمانوں کوپانی پلاتی تھیں۔بعض خواتین زخمیوں کے زخموں کو دھوتیں، انہیں صاف کرتی اور ان کی مرہم پٹی کیا کرتیں۔ سلام ان تمام مومن خواتین پر جنہوں نے اُحد کی جنگ میں مردوں کے شانا بشانہ حصہ لیا۔

واپسی کا سفر شروع کرنے سے قبل ہم نے ایک بار پھر جبلِ اُحد اور اس کے ار گرد وادی کو بغور دیکھا، اس خیال سے بھی کہ ہمارے نبی ؑ اس پہاڑ سے محبت رکھتے تھے اور اس پہاڑ کو بھی نبی سے عقیدت تھی ، آپ ﷺ نے اس پہاڑ کو یقینا بغور دیکھا ہوگا ، آپ ﷺ کی نگاہ اس پہاڑ اور اس وادی پر پڑی ہوگیں۔یہ پہاڑ آج بھی اپنی اصل کیفیت میں موجود ہے۔ پہاڑ کو ، وادی کو دیکھنا ہی ہمارے لیے باعث برکت و ثواب تھا۔ اب ہم جبلِ روما سے نیچے اترے ، جس راستے سے اوپر گئے تھے واپسی کا راستہ ہم نے بدل لیا اس خیال سے کہ شاید وہ مٹی ، وہ جگہ ہمیں نصیب ہو جائے کہ جہاں اُحد کے شہدا کا خون زمین کے اوپر نہ سہی اندر کسی جگہ محفوظ ہو ۔ آہستہ آہستہ پہاڑ سے واپسی کا سفر مکمل ہوا۔ شہدا کی یادگارکے برابر ایک کچا بازار بنا ہوا ہے جہاں مختلف سامان فروخت کرنے والی زیادہ تر کالے برقعوں میں ملبوس سیاہ فام خواتین ہیں۔ بازار سے غربت کا احساس ہورہا تھا۔ یہ دکانیں پکی نہیں ہیں، ان پر سائیبان بھی نہیں تھے بلکہ کھلے آسمام تلے سامان لیے یہ خواتین اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روزی کا سامان کیے ہوئے ہیں۔ اس بازا سے ہوتے ہوئے ہم ایک بار پھر شہدائے اُحد کی یاد گار پر پہنچے۔ دوبارہ تمام شہدا کو سلام عقیدت پیش کیا خاص طو ر پر نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓجن کی قبر بہت واضع طور پر درمیان میں دکھا ئی دے رہی تھی کی خدمت میں سلام عقیدت پیش کیا اور ہاتھ اٹائے بغیر فاتح پڑھی ۔ اپنی گاڑی کی جانب بڑھے تو سامنے اُحد اپنا دامن واہ کیے ہماری جانب متوجہ تھا۔ اپنے نبیؑ کی اتباع کرتے ہوئے ہم نے اسے دیکھ کر اﷲ اکبر کہا اور نبی کے فرمان کہ’ کوہ احد سے ہم محبت کرتے ہیں اور یہ بھی ہماری محبت کا دم بھر تا ہے‘، ہم نے اس سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ بنیؑ کے فرمان کے مطابق یہ پہاڑ’ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہے‘ہم نے با ادب و احترام ، محبت و عقیدت سے سلام پیش کیا اور خدا حافظ کہہ کر واپسی کے سفر پر چل دیے۔پاکستان آکر جب بھی اُحد کے سفر کا حال لکھنے بیٹھتا تو کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی، پاکستان کے حالات ، اپنی صحت کی خرابی ،۱۶ فروری ۲۰۱۴ء کو پیش آنے والا حادثہ دیگر گھریلوں معاملات کے باعث اس سفر کی داستان لکھی نہ جاسکی۔ آٹھ (۸) ماہ بعد ۲۰ اگست ۲۰۱۴ء کو قسمت پھر سے اماں حوا کے شہر جدہ لے آئی، یہاں فرست ہی فرست ہوتی ہے۔ چنانچہ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے
اُحد کے سفر کی داستان کومکمل کیا۔ اﷲ تعالیٰ میری اس خدمت کو قبول فرمائے۔ (جدہ ۲۵ اگست ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 868 Articles with 1458687 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More