پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔۔!!

 برصغیر ایشیا میں سن انیس سو سینتالیس کو دنیا کے نقشے پر دو ممالک وجود میں آئے ان میں ایک ہندووں کے نظریات پر بھارت اور دو سرا خالصتا اسلام کے نظریہ پر پاکستان ، اسی لیئے پاکستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سن انیس سو چوون میں پہلا آئین یعنی دستور قائم ہوا لیکن اس زمانے میں پاکستان دو حصوں یعنی دو یونٹ پر مشتمل تھا ایک مغربی پاکستان دوسرا مشرقی پاکستان،وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دو بڑے واقعات نے پاکستان کی سیاست اور انتظامیہ میں دشمنانان پاکستان کو مداخلت کا موقع دے دیا ان دو افسوسناک واقعات میں ایک قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال دوسرا قائد ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت تھی،سن انیس سوپینسٹھ میں پاکستان کو بھارت پر جنگی سبقت حاصل ہوئی اور بھارت کو بھاری نقصان اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اسی لیئے بھارت نے پاکستان میں سازشوں کا جال پھیلا کر اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کیلئے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے غدار وں کا انتخاب کیا اور بھاری دولت کے عوض انہیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے ٹاکس دیا گیا چنانچہ سیاسی میدان میں اپنے گھوڑے دوڑا دیئے گئے اور بنگالیوں کے حقوق کو غصب کروانا شروع کردیا ، تاریخ بناتی ہےکہ مشرقی پاکستان کی آبادی اور ایوان میں ممبران کی تعداد سب سے زیادہ بنگالیوں کی تھی لیکن انہیں سراسر نظر انداز کیا جاتا رہا جس کا برملا اظہار شیخ مجیب الرحمٰن نے کیا تھا لیکن مغربی پاکستان میں موجود بھارتی آلہ کار سیاستدانوں اور دیگرنے وہی کیا جو بھارت چاہتا تھا یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے مابین جنگ ، اس جنگ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر آزاد ملک بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان ، پاکستان کے نام سے علیحدہ ملک سامنے آیا، دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بنگالی بھی مسلمان ہیں جن سے حقوق غضب کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کرکے ایک تاریک رقم قائم کی گئی جس کا برا اثر یہ ہوا کہ پاکستان کی سیاست آئین کی پاسداری کے بجائے اپنے مفادات کی ترجیحات میں لگ گئی، کہیں نسل و قوم کے تعصب تو کہیں سیاسی جماعت کے کارکنان کی اقربہ پروری گویا پاکستان میں اہلیت و قابلیت کا جنازہ نکال دیا گیا ، کرپشن اور ناانصافی کا عمل سو فیصد تک جا پہنچا ، عوام بد حال اور حکمران خوشحال، یہ پاکستان کی بد قسمتی رہی کہ آمر دور تین بار گزرے اور انہی ادوار میں کئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئین اور کئی سیاسی رہنما بھی پیدا ہوئے، بعد میں یہی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں مارشل لا کی شدید مخالف ہونے کا دعویدار پھرتی ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں نے عوام کو نا صرف مایوس کیا بلکہ عوام کو بدحالی کے نہج پر پہنچادیا، دھرنوں، ہڑتالوں سے ملک معاشی طور پر بہت کمزور ہوجاتا ہے اور بیرون ملک سے آنے والے تجارتی مراسم منفی حیثیت میں چلے جاتے ہیں ، ترقی کا پہیہ جام ہوجاتا ہے اور بیروزگاری و مہنگائی بڑھنے لگتی ہے، پرویز مشرف وہ واحد آمر تھا جس نے ملکی معیشت اور کاروبار کے ساتھ ساتھ ترقی کو پروان چڑھایا ، ڈالر اور پیٹرول کو کنٹرول میں رکھا ، لیکن مولویوں کو پھر بھی سکون نہ آیا اور بلا وجہ لال مسجد کا فتنہ پیدا کیا، اگر مخالفین کی بات رکھ لی بھی جائے کہ اس کا وقت بہت برا یا خراب تھا تو سردار آصف علی ذرداری نے کون سا عوام کیلئے پھول و کلیاں بچھا دی تھیں اور میاں نواز شریف جنہیں وزارت کا تیسری بار تجربہ ہوا ہے انہوں نے سابقہ تجربات پر قطعی نظر نہ ڈالی اور آمروں سے بڑھ کر اکڑ اور سختی برتی اس کا نتیجہ آپ سب دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور عوام کیلئے اگر یہ سب سیاستدان اور ان کی پارٹیاں مخلص ہیں تو اپنی املاک و دولت کا تیس فیصد حصہ قومی خذانے میں جمع کرادیں تاکہ پاکستان قرض کے جال سے باہر آکر اپنے قدرتی وسائل کو بروکار لاتے ہوئے دنیا کے ترقی پسند ممالک میں شریک ہوسکے، پاکستان جن حالات سے دوچار ہے وہ اب ان حالات کا متحمل نہیں ،موجودہ سیاسی حالات کی روشنی میں اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ سب سے پہلے الیکشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے، میڈیا کو اخلاقی پابندیوں کیساتھ آزاد کیا جائے، ٹیکس کا نظام کو جدید انداز میںبہتر کی ضرورت ہے جبکہ تمام اشیا کی خرید و فروخت معمولی کیبن سے لیکر تھوک ایجنسیوں کو پابند بنایا جائے کہ ہر شے کی خرید و فروخت پر مکمل پکی رسید لازم قرار دینے کی بھی شدید ضرورت ہے تاکہ ٹیکس مکمل حکومت کو حاصل ہوسکے اور قومی خذانے میں ٹیکس کی مد میں آنے والی دولت پہنچ سکے، تمام علاقوںلیز اور ان لیزمیں بجلی کے بلوں اوربجلی کے میٹروں کو یقینی بناکر لوڈ شینڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے،بس پاکستان کو اگر خوشحال دیکھنا ہے تو قانون کی پاسداری کو ہر ایک کیلئے یکساں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہوسکے ، اسی طرح سرکاری اداروں میں ترقی و تنزلی بھی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائے تو سینئرٹی کے عمل کو شفاف بنادوں پر استوار کیا جانا چاہئے تاکہ بد نظمی، بے چینی کا عمل پیدا نہ ہوسکے، بہترین کارکردگی پر خصوصی انعامات و ترقی کا عمل کو اجاگر بھی کیا جانا چاہئے،پاکستان کے تمام اداروں بشمول بیوروکریٹس کی بھی از سر نو تشکیل کرنے کی ضرورت ہے ، اکائونٹینٹ جنرل آفس میں برسوں سے کھلے عام رشوت کی روک تھام اور ریٹائرڈ حضرات کی پینشن کو آسان اور غیر مشروط رشوت میں پابند کیا جانا چاہیئے، اب ناگریز ہوگیا ہے پاکستان کہ ہر محکمہ، ہر شعبہ ہر زاویہ سے اسے مثبت انداز میں استوار کیا جائے ورنہ موجودہ حالات کیلئے پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا ہے،اللہ پاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 245983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.