نواز شریف سمیت اکیس نامزد

علامہ طاہرالقادری 2012ء کے آخر سے اُس پاکستانی سسٹم کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت انتخابات ہوتے ہیں، وہ جمہوری سسٹم کے طریقہ کار جس میں الیکشن کمیشن کا قیام اور ووٹ دینے کا طریقہ بھی شامل ہےکو بدلنا چاہتے ، اسکے علاوہ انہوں نے عوام کے سامنے ایک دس نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیا ہے جو عوام کی بہتری کےلیے ہے، جس کی لازمی تعریف کرنی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس دس نکاتی ایجنڈئے پر عمل کیسے ہو اسکے لیے لازمی ہے کہ علامہ طاہر القادری کے پاس پاکستانی عوام کی رضامندی یعنی نمایندگی ہو۔ پرانے زمانے میں طاقت ور لشکرکشی کرکے ملکوں پر قبضہ کرلیتے تھے اور پھر اپنا حکم صادر کرتے تھے، جبکہ جدید دور میں امریکہ جیساطاقتور ملک عراق اور افغانستان پر قبضہ کرتاہے، علامہ امریکہ کی طرح پاکستان پر قبضہ تو نہیں کرسکتے لیکن آجکل وہ ایک لشکر لیکر اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دئے رہے ہیں اوراپنے مطالبات ماننے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ شاید آج طاہرالقادری اسلام آباد میں نہ ہوتے اگر مرکزی اور صوبہ پنجاب کی حکومتیں پے در پہ حماقتیں یا پھر ایسا بھی کہا جاسکتا ہے کہ اپنا جرم چھپانے کی کوشش نہ کرتیں۔ طاہر القادری نے 23 جون کو پاکستان آنے کا اعلان کیا تو 17 جون کی رات کو پنجاب حکومت ادارہ منہاج القران کے مرکز ماڈل ٹاون لاہور پر چڑ ھ دوڑی، بقول حکمراں پولیس منہاج القران سے غیرقانونی تجاوزات کا خاتمہ کرنے گی تھی، رات ڈیڑھ بجے سے اگلے بارہ تیرہ گھنٹے گھمسان کا رن پڑا ، نتیجہ میں 14 لاشیں گریں جن میں دو خواتین بھی تھیں اور 80 زخمی ہوئے۔ شاید علامہ طاہر القادری کو اپنے دس نکاتی ایجنڈئے پر اتنی حمایت بھی نہ ملتی مگر اب اُن کے پاس 14 مظلوموں کی لاشیں اور 80 سے زیادہ زخمی افراد ہیں۔

معافی چاہتا ہوں لیکن سچ کڑوا ہوتا ہے، ایک بات یاد رکھیں پاکستان کے سیاستدان لاشوں کے اوپر سیاست کرتے ہیں یہ لاشوں کے سوداگر ہیں، شہید بھٹو، شہید بینظیر کی سیاست تو اس ملک میں عرصے سے چل رہی ہے۔ماڈل ٹاون میں مرئے بیچارے تقلید کے مارے مریدین۔ فاہدہ کس کا ہوا؟ سیدھا سیدھا طاہرالقادری کا، 14لاشیں کم نہیں ہوتی سیاست چمکانے کےلیے اور مخالفوں کو ختم کرنے کےلیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 14 افراد کے قتل کی ایف آئی آر اُنکے ورثا کی مدعیت فورا درج کرلینی چاہیے تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی حالات کو آج جو بدترین سامنا ہے اور حکومت جو بند گلی میں قید ہوگی ہے اُس کی بنیاد منہاج القران ماڈل ٹاؤن لاہور میں رکھی گئی ہے، جہاں کم ازکم 14 بے گناہوں کو دن دیہاڑے بہت سارئے کیمروں کی آنکھوں کے سامنے سیدھی گولیاں مار کر خون میں لت پت کر دیا گیا۔ ماڈل ٹاون حادثہ کے ذمیداروہ ہیں جو ماڈل ٹاون لاہور کے واقعہ کو لیڈ کررہے تھے، بقول وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف انہیں تو پتہ ہی نہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا، انہوں نے جو نادان دوست پالے ہوئے ہیں وہ یہ سب کررہے تھے جو اب ثابت بھی ہوچکا ہے اور اس قتل عام کے وہ بھی ذمیدار ہیں۔

پاکستان پہنچنے سے چار روزقبل ہی طاہرالقادری کوچودہ لاشیں مل گیں تھیں جنکو اُنہوں نے بھرپور سیاسی طریقے سے کیش کرانے کی کوشش کی، اس سلسلے میں میڈیا کے کچھ چینل بھی خرید لیے گے تھے جنکی رپورٹنگ صاف بتارہی تھی کہ یہ وہی کچھ رپورٹ کررہے ہیں جو طاہرالقادری کی سیاسی ضررورت ہے۔ انقلاب مارچ کے دھرنے میں ہونے والی تقاریر میں بار بار سب سے بڑا مطالبہ بے گناہوں کے خلاف مقتولین کے ورثاء کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرنے کا تھا۔ یہ وہ مطالبہ ہے جس کی حمایت پاکستان کے طول و عرض میں تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ پہلے 27 اگست کو اور اب دوبارہ دو ستمبر کو تھانہ فیصل ٹاون پولیس نے بالآخر سترہ جون کے خونیں پولیس آپریشن کی نئی ایف آئی آر سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرہ فریق ادارہ منھاج القرآن کی درخواست پر درج کر لی ۔ درخواست میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز، چار وفاقی وزرا، ایک وزیر مملکت اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ سمیت نو مقتدر سیاسی شخصیات اور بارہ پولیس و انتظامی افسران کو قتل اور اعانت قتل کا ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

پاکستانی سیاست میں ویسے تو عام طور فاہدہ ہی فاہدہ ہے لیکن کبھی کبھی کسی سیاست دان کے قدم خارزار جھاڑیوں پر پڑجاتے ہیں اور پھراُن سیاستدانوں کو اُس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، نواز شریف اگر اپنی ، اپنے بھائی اور ساتھیوں کی خیریت چاہتے تو پہلی فرصت میں اس ایف آئی آر کی صاف اور شفاف تفتیش مکمل کرواکر اُسکو عدالت میں لےجایں، اگر وہ یا نامزد کردہ افراد میں جو بھی مجرم ہو اُسکو لازمی سزا بھگتنی چاہیے۔ سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کی تاریخ میں اس طرح کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں، ان میں سے ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔ علامہ طاہر القادری کے پاس تو چودہ لاشیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے باغی احمدرضا قصوری کے پاس تو صرف ایک لاش اُسکےاپنے والد نواب محمد احمد خان کی تھی، لیکن اُس ایک لاش سے فاہدہ اٹھانے والے بہت تھے، احمد رضا قصوری کے تو باپ کی لاش تھی وہ تو تھا ہی بھٹو کے خون کا پیاسا، بھٹو سے اقتدار چھینے والےضیاالحقء کو بھی سمجھادیا گیا تھا کہ بھٹو اگر بچ گیا تو پھر اپنی قبر کی جگہ طے کرلو، لاہور ہائی کورٹ کےجسٹس مولوی مشتاق کو بھی بھٹو سے بدلا لینا تھا کہ اُسکو بھٹو نے چیف جسٹس نہیں بنایا تھا، لہذا انصاف کے تقاضے پورئے کیے بغیر بھٹو سے اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس مولوی مشتاق نے اُسکو سزائے موت دی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کو بھی ضیا الحقء کا حق نمک ادا کرنا تھا، جبکہ جسٹس نسیم حسن شاہ جو کبھی جماعت اسلامی کا وفادار تھا، اُسکو بھی اپنے آقاوں کا حکم ماننا تھا، دوسروں کے ساتھ دونوں نے بھٹو کےلیے پھانسی کے پھندئے کا انتخاب کیا، ایک عرصے بعد جسٹس نسیم حسن شاہ کا ضمیر جاگا تو انہوں نے بھٹو کے عدالتی قتل کا اقرار کیا۔

نواز شریف آپ یہ بات یاد رکھیں کہ بھٹو نے جس ایف آئی آر کو اہمیت نہیں دی وہی اُسکو پھانسی کے پھندئے پرلےگی۔ بھٹو بھی وزیراعظم تھے اور آپ بھی ہیں، مشرف کے پاس اپنی کٹوائی ہوئی ایف آئی آرتو تھی مگر ایسی کوئی ایف آئی آر موجود نہیں تھی جیسی ضیاالحقء کو مل گئی تھی۔ آپ جس رات دس سالہ معاہدہ پر سعودی عرب جارہے تھے توآپکی بیگم، بیگم کلثوم نواز نے فرمایا تھا کہ جنرل کا بھروسہ نہیں ہوتا وہ کب پھانسی دئے دے۔لہذا میں ان سب کو لازمی یہاں سے لیکر جاونگی، وہ ضیا الحقء کی بربریت کو سامنے رکھ کر ایسا کہہ رہی تھیں، ویسے بھی ضیاالحقء کے بعد آپکے کسی فوجی جنرل کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے، ہاں ججوں سے ضرور آپکے تعلقات اچھے رہتے ہیں، لیکن نظریہ ضرورت کے تحت یہ جج صاحبان کسی وقت بھی اپنی نظر پھیر لیتے ہیں۔ لہذا آپکو مشورہ ہے کہ اپنے نادان دوستوں سے بچتے ہوئے اس ایف آئی آرپر عدالتی کارروائی تک کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ شاید بھٹو صاحب بھی اپنےکسی نادان دوست کا کہنا مان بیٹھے تھے اور ایک برئے انجام سے دوچار ہوئے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 445140 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More