بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستانی فوج کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس
ہوئی ہے جس میں موجودہ سیاسی بحران پرکا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور اس عزم
کا اعادہ کیاگیا کہ وقت ضائع کئے بغیر اور پْرتشدد ذرائع اختیار کئے بغیر
مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے اور پرتشدد ذرائع کسی صورت استعمال نہ کئے
جائیں۔ چار گھنٹے تک جاری رہنے والی انتہائی اہم کانفرنس میں جنرل راحیل
شریف نے کور کمانڈرز کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں اور عوامی
تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں پر اعتماد
میں لیا۔کانفرنس کے اختتام پر آئی ایس پی آر کی جانب سے جو مختصر اور نہایت
وضاحت سے بیان جاری کیا گیا اس میں مارشل لاء یا کسی قسم کی فوجی مداخلت کے
خدشات کا مکمل تدارک کرتے ہوئے جمہوریت کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ بیان سے
یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پْرتشدد رویہ ترک کرنے کا پیغام صرف حکومت
کیلئے نہیں بلکہ دھرنا دینے والی جماعتیں بھی اس پیغام کی مخاطب ہیں جن کے
ڈنڈا بردار کارکن شاہراہ دستور پر موجود ہیں اور طاقت کے زور پر اپنے
مطالبات منوانے اورحکومت گرانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک اور آزادی مارچ کے شرکاء لاٹھی اور ڈنڈے کے زور پر
موجودہ نظام کی بساط لپیٹنے کیلئے وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر حساس عمارتوں کی
جانب پیش قدمی میں مصروف ہیں۔ہفتہ اور اتوار کی طرح سوموار کے دن بھی اسلام
آباد بدستور میدان جنگ بنارہا۔دونوں جماعتوں کی قیادت کی جانب سے کنٹینر سے
اشتعال انگیز ہدایات دی جاتی رہیں جس پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مسلح کارکنان
وقفے وقفے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ علامہ صاحب کی جانب سے ماضی میں
فتوے دیے جاتے رہے ہیں کہ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان پر ہتھیار اٹھانا
درست نہیں ہے لیکن اب وہی قیادت کارکنان کے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑوا کر ان سے
’’جہاد اکبر‘‘ کروانے میں مصروف ہے۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہونے والی
لڑائی سے بہت سے خاندان جنہیں کسی قسم کے تشدد نہ ہونے کی یقین دہانیاں
کروائی جاتی رہیں وہ اس ساری صورتحال سے مایوس ہو کرگھروں کو واپس جاچکے
ہیں ۔ بعض اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ دھرنوں کی انتظامیہ
واپس جانے والوں کو گرفتاریوں سے ڈراتی رہی جس پر بہت سے لوگ اپنے خاندانوں
سمیت وہاں رکنے پر مجبور ہیں۔ قوم سوال کرتی ہے کہ بچوں اور عورتوں کو وہاں
لے کر جانااورخود کنٹینر میں بیٹھ کر انہیں پولیس سے باہم دست و گریبان کر
دیناکہاں کا جہاد اورکہاں کا انصاف ہے؟اسلام آباد میں اس وقت جو صورتحال
بنی ہوئی ہے اس میں خواتین اور بچوں کو دیکھ کر ترس آتا ہے۔ آنسو گیس کے
شیل پھینکے جانے سے یہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ دھرنوں میں شامل افراد کی
بڑی تعداداس وقت پارلیمنٹ ہاؤس اور کیبنٹ بلاک میں بیٹھ کر احتجاج میں
مصروف ہے جبکہ شیلنگ سے ریڈ زون، ڈپلومیٹک انکلیو، پی ٹی وی، پرائم منسٹر
ہاؤس، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت، پاک سیکرٹریٹ اور دیگر مقامات پر
دھوئیں کے بادل چھائے رہے۔وفاقی دارالحکومت کے ہسپتال اس وقت زخمیوں سے
بھرے ہوئے ہیں۔پولیس اہلکار بھی کثیر تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ جھڑپوں کے
دوران زخمی پولیس اہلکاروں کو لیجانے والی ایمبولینسوں پر بھی حملے ہوئے
ہیں جس سے احتجاجی مظاہرین کے غصہ اور انتقامی جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔ جھڑپوں کے دوران پولیس کی جانب سے صحافیوں پر بھی زبردست تشد
دکیا گیا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک امر ہے۔ بعض پولیس اہلکار مختلف ٹی وی
چینلز کی گاڑیوں میں موجود رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کو کھینچ کھینچ کر باہر
نکالتے اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ڈی ایس این جی گاڑیوں اور
کیمروں کی توڑپھوڑ کی گئی اور صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی
رہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ درست نہیں ہے۔ میڈیا سے وابستہ لوگ اسلام
آباد میں کوریج کے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان کی اس طرح
مارپیٹ کو کسی طور درست قرار نہیں دیاجاسکتا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد
رفیق صحافیوں پر تشدد کے مناظر دیکھ کر خود وہاں پہنچے اور کہا کہ ہم ان
واقعات میں ملوث پولیس اہلکاروں کو سخت سزا دلوائیں گے مگر سوال یہ پید
اہوتا ہے کہ کیا پولیس اہلکاروں نے یہ مارپیٹ اپنی مرضی سے کی ہے؟ اگر
انہیں ایسا کرنے کیلئے نہیں کیا گیا تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ میڈیا سے
وابستہ افراد اور ان کی گاڑیوں کو نشانہ بنائیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف
جرنلسٹس کے صدر رانامحمد عظیم کی اپیل پر پورے ملک میں صحافیوں کی جانب سے
احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور دھرنے دیے گئے جن میں صحافیوں کی کثیر تعداد نے
شرکت کی۔وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور مختلف مذہبی،
سیاسی ، سماجی اور صحافتی تنظیموں نے صحافیوں پر تشدد کی شدید مذمت کی
ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم ، وزیراعلیٰ کی زبانی مذمت اورخواجہ سعد
رفیق کی طرف سے اتنا کہہ دیناکہ ان واقعات میں ملوث پولیس اہلکاروں کو
سزائیں دلوائیں گے‘ کافی نہیں ہے۔ انہیں فی الفورایسے واقعات کا ازالہ کرنا
چاہیے اور پی ایف یو جے کے مطالبات پر عمل درآمد کرتے ہوئے صحافیوں کا تحفظ
یقینی بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کیلئے ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔
حکومت پہلے ہی بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے اسے اپنے لئے مزید مسائل کھڑے
نہیں کرنے چاہئیں۔بہرحال دھرنوں کے دوران کئے جانے والے فیصلوں کی وجہ سے
علامہ صاحب کا تو شاید اتنا نقصان نہ ہوکہ موجودہ سیاست میں ان کیلئے پہلے
ہی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ وہ اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن تحریک انصاف
کے سربراہ عمران خاں نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس پر دھاوا بولنے
کیلئے شرکاء کو شہ دیکر اپنی سیاسی موت کو دعوت دی ہے۔ ان کی اپنی پارٹی کے
صدر جاوید ہاشمی کا یہ کہنا کہ عمران خاں نے شاہراہ دستور سے آگے پیش قدمی
نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی مگر شیخ رشید اور سیف اﷲ نیازی کے کان
میں کوئی پیغام دینے کے بعد عمران خاں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ آگے بڑھنا
ہماری مجبوری بن چکی ہے‘یہ صورتحال بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔آخر وہ
کیا اور کس کا پیغام تھا جس کے متعلق پوچھنے پر عمران خاں نے کہاکہ میں
شاہراہ دستور سے آگے بڑھنے کی وجہ نہیں بتاسکتا اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ
یہاں سے چلے جائیں؟۔ جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ اگر اسلام آباد میں کوئی بڑا
واقعہ رونما ہوتا ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو اس کے ذمہ دار
عمران خاں ہوں گے۔ وہ اب بھی کارکنان کو لیکر واپس آجائیں میں ان کے ساتھ
ہوں گا۔ ادھر عمران خاں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اب میرے اور ہاشمی کے راستے
جدا ہوچکے ہیں۔ عمران خاں کی پارٹی میں استعفوں کے مسئلہ پر بھی شدید
اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔حکومت کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خاں،
علامہ ناصر عباس، صاحبزادہ حامد رضا اور دیگر کئی افراد پر لوگوں کو
پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھائی کیلئے اکسانے اور بغاوت کے الزامات
عائد کرکے مقدمات درج کروادیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے تصادم والے فیصلوں
پر عوامی سطح پر ان کی حمایت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ
ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دینے کے باوجود لوگوں کی قابل قدر
تعداد کو دوسرے شہروں میں سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ دونوں
پارٹیوں کی قیادت وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبہ سے کسی صورت
پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ فوج آئے اور سب کو
چلتا کر دے لیکن کور کمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت
میں جو فیصلے کئے گئے ہیں وہ بالکل درست ہیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو
انا پرستی کے خول سے باہر نکلنا چاہیے اور مل بیٹھ کر سیاسی طریقہ سے مسئلہ
کا حل نکالنا چاہیے۔ دھرنا دینے والی پارٹیاں بھی تشدد کا راستہ اختیار نہ
کریں۔ کلمہ طیبہ کی بنیا د پر حاصل کئے گئے ملک کو مصر اور الجزائر نہ
بنایاجائے۔ دھرنا پارٹیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مصر میں ہونے والے
واقعات کی تصاویر کو اسلام آباد ہونے والے تصادم کی بنا کر پیش کیاجارہا ہے۔
یہ انتہائی قابل مذمت حرکت ہے اور ان خدشات کو تقویت دے رہی ہے کہ یہ سیاسی
بحران بیرونی اشاروں پر پیدا کیاگیا ہے اور اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے
پاکستان اور چین کے مابین ہونیوالے معاہدوں سے روکنے اور ملک کو عدم
استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کا حصہ ہے۔
|