پنڈی سے ۔وادی ِ کیلا ش۔ تک

یوں تو ہمارا سفر چترال کی طرف گزشتہ عیدالفطر کے روز ہی شروع ہو چکاتھا لیکن ہم باقاعدہ طور پر۔ لواری ٹاپ۔ پر جولای ٔ کی 30 تار یخ کو ہی پہنچ پاے ٔ جسکی ایک علیحدہ وجہ اور منفرد داستان ہے اور جسے انشاﷲ کسی آ ٔیندہ کے کالم کا مو ضوع بناو ٔں گا۔ ہم کل چار لوگ تھے، سربراہی۔ اختر۔ کر رہے تھے جو اس علاقے میں ٹیکسلا میں واقع اپنے ہائیٔڈ ل ٹربائٔنز بنانے والے ادارے کی وجہ سے خاصے مقبول تھے، ساجد اور طاہر ہمارے دیگرساتھی تھے جو گوناں گوں خصوصیات کے حامل تھے اور اتنے لمبے سفسر میں بہترین ہمسفر ثابت ہوے ٔ۔ ڈبل ڈور کیبن ساجد چلا رہا تھا جو آگے جا کر ہمیں احساس ہوا کہ گاڑی کا ہم نے شاید با لکل صحیح انتخاب کیا تھا کہ جیسے جاپانیوں نے اسے تیار ہی ہمارے جیسے منتخب کردہ مشکل سفر کیلیے کیاتھا کیونکہ ایسا سفر کسی چھوٹی گاڑی میں تکلیف دہ ہی نہیں اذیت ناک بھی بن سکتا ہے۔۔ لواری ٹاپ پر پہنچنے پر انتہای ٔ تیز اور یخ بستہ ہواوؤ ں نے چترال میں ہماے داخلے پر ہمیں خوش آمدید کہا۔ آگے کا سفر جاری رہا اور درمیا ن کے کی ٔ چھوٹے بڑے گاو ٔں کراس کرنے کے بعد ہم نے تھکن اتارنے اور آرام کے پیشِ نظر اپنا دن کا پہلا پڑاو ایک بڑے قصبے ۔دروش۔ میں کیا جہاں ہمارے کچھ جاننے والے دوست پہلے سے ہماری ٹہل سیوا کیلیے موجود تھے جن کی مہمان نوازی اور فراخدلی سے ہم متاثر ہوے ٔ بغیر نہ رہ سکے۔ سفر کی پہلی رات اپنے ایک دیرینہ دوست بابو ظاہر شاہ، جو محکمہ اریگیشن کے آفیسر ہیں،کے گھر بمقام استنگول ہویٔ، جو چترال شہر سے تقریباً 23 کلو میٹر آ گے جانب۔ گاو ٔں بونی۔ اپر چترال ہے۔ یہ چھوٹا سا صاف ستھرا قصبہ لبِ سڑک ہے، سامنے دیو مالای ٔ اونچے پہاڑ جسکے دامن سے خاکی مٹیالے رنگ کا بہتاتیز۔دریاے ٔ چترال۔ اپنی پوری توانا ۓیوں اور آب و تاب سے رواں دواں ہے اور اس آبادی کے پیچھے بھی آسمان کو چھوتے بلند و بالا پہاڑ۔ اس پہلی رات کے اپنے ہی نظارے تھے، ساری رات دریا کی روانی کا مسلسل بہتاشور اور پہاڑوں سے کبھی کبھی پتھر گرنے کی آوازیں، جو شاید یہاں کثرت سے پا یٔ جانیوا لی جنگلی حیات اور نایاب قومی جانور۔۔ مار خور۔ کی آمد و رفت کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ سب سے ششدر کر دینے والی بات میر اکھلے آسمان کے نیچے لیٹے آسمان کی طرف اپنے انتہای ٔ قریب محسوس ہوتے،، لاکھوں کروڑوں صاف ستھرے جگمگاتے ستاروں اور لا تعداد کہکشاوو ٔ ں پر پڑی جسے دیکتے ہی مجھے اپنا بچپن یا د آ گیا جب راولپنڈی جیسے ترقی یافتہ شہر کے آسمان بھی آج سے پینتیس چالیس سال پہلے اسی طرح صاف شفاف ہوا کر تے تھے۔ لیکن ایک بے ہنگم اور بغیر کسی موثٔر پلاننگ کی وجہ سے اس نام نہاد ترقی کی بدو لت مختلف اقسام کی آلودگیوں کی وجہ سے قدرت کے یہ حسین شاہکار ، اب ہمیں ہم سے بہت دور اور دھندلاے ٔ دھندلاے ٔ سے دِکھتے ہیں ۔

منزل ہماری ۔وادیِ کیلاش۔ تھی جسکے دیو مالای ٔ قصے ہم نے عشروں سے سُن رکھے تھے۔ ہم اسے نہایت ہی قریب سے کھوجنا اور پرکھنا چاہتے تھے کہ اسکی حقیقت کیا ہے ، کیا یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسے یہ ہر کسی کا زبان و بیاں ہے یا یہ تجسس بھی تھا کہ اسمیں اندر سے کچھ اور تو نہیں نکلے گا ۔ ہم ان کیلاشوں کی تاریخ پـڑھ کر بھی کوی ٔ راے ٔ قاۓم نہیں کرنا چاہتے تھے،بلکہ ان سے بالمشافہ مل کر اور انکے اندر بیٹھ اور گھل مل کر جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سُنا، ہم اسکی روداد بیان کرنا چاہتے تھے۔ اسلیے اگلا دن ہم نے اپنے اصل ہدف، یعنی سفر وادیِ کیلاش کی طرف مختص کر دیا۔ در و ش اور استنگول کے درمیان ایک نہایت ہی خوبصورت شہر۔ آ یٔیون۔ آتا ہے، یہ تحصیل ہیڈ کواٹر ہے، جسکی کافی بڑی آبادی ہے اور اونچی پہاڑیوں پر والیِ چترال کی اولاد شہزادہ مسعودالملک، اسکے بھای ٔ اور انکا خاندان آباد ہے، جو اپنے علاقے میں نہایت ہی قدرومنزلت رکھتے ہیں۔ وادیِ چترال میں سیاسی طور پر سابق صدر پرویز مشرف کافی مقبول ہیں، اور لوگ انکے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے انہیں ابھی بھی بھولنے کو تیار نہیں، اسی لیے یہاں کی اکلوتی نیشنل اسمبلی کی سیٹ بھی مشرف لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے شہزادہ افتخارالدین ایم این اے کے پاس ہے ، جو اپنے علاقے کی ایک ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔اور شہزادوں جیسا نام و مقام ہونے کے باوجود نہا یت ہی سادہ اور ملنسار انسان ہیں اور اپنے علاقے کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلیے دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ کیلاش لوگ دراصل تین مختلف وادیوں۔۔ بمبوریت۔۔ رنبور۔۔ اور۔۔ بریر۔۔ پر مشتمل تین علیحدہ علیحدہ واد یوں میں آباد ہیں، جو ایک دوسرے سے تھوڑ ے فاصلے پر واقعہ ہیں۔ تاہم کچھ لوگ چترال سے افغانی صوبے کُننڑ کی طرف راستے میں ۔گرم چشمہ۔ کی طرف بھی آباد ہیں لیکن یہ سب کے سب ایک دوسرے سے قریبی رشتہ دار اور رنگ، نسل ، زبان و ثقافت میں ایک بڑے درخت کی مانند اسکے اوپر لا تعداد شاخوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوے ٔ ہیں۔ یہ ہر غمی خوشی میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اور ہر موقع پر ایک دوسرے کے ہمدر و رفیق۔ انکا رونا بھی اکھٹا اور انکے قہقہے بھی سانجھے۔

وادی ِ آیٔیوں کے اندرسے ان تینوں وادیوں کے راستے نکلتے ہیں اور گہریت کے مقام سے بھی جہاں دریا پر بلند ترین پُل ہے وہاں سے بے ان وادیوں کو جایا جا سکتا ہے،،، اور جس طرف سے بھی جاۓں، اسی طرف سے سفر کی دشواریا ں اور مشکلات کا آغاز ہو جاتا ہے ،، کچی سڑکیں اور ٹوٹے پھوٹے ،،لیکن انتہای ٔ خطرناک راستے۔ پہاڑیوں کے بغل سے تنگ سی سڑکیں اور دور نیچے بہتے دریا، منظرنامہ اتنا خطرناک کہ اگر زرا سی بھول چوک ہو جاے ٔ تو انسان تو انسان فولاد سے بنی گاڑیوں کا کچومر نکل جاے ٔ۔ لگتا ہے ان وادیوں کے ذرایع آمد و رفت پر گذشتہ کی ٔ سالوں سے کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی، حالانکہ ان وادیوں اور انکے باسیوں سے ملنے کی تمنا تو شاید پوری دنیا کے لوگوں میں ہمیشہ رہتی ہے اور بڑی مقدار میں اندرون اور بیرونِ ملک سے درجنوں سیاح روزانہ یہاں آتے ہیں۔اور ان گھسے پٹے انتظامات اورمشکلات سے مایوس ہو جاتے ہیں اور لگتا ہے ایک دفعہ جو یہاں کسی نا کسی طرح آے ٔ گا شاید ان سڑکوں کی زبوں حالی کی وجہ سے وہ دوبارہ آنے کی کوشش بھی شاید نہ کرے۔ آیٔیوں سے آٹھ دس کلو میٹر کا دشوار گزار پہاڑی راستہ طے کرنیکے بعد داۓں طرف دریا پر ایک پُل آتا ہے جسے کراس کرنیکے بعد داۓں طرف آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر طرف ۔۔وادی رنبور۔۔ اور باۓں طرف بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ۔۔وادیِ بمبوریت۔۔ واقع ہے۔ اور آپ جس طرف بھی جاۓں گے بد قسمتی سے راستہ دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے لیکن ان حسین وادیوں کے متلاشی کسی بھی مشکل کو خاطر میں نہ لاتے ہوے ٔ اپنے شوق کے سہارے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں، جب تک کہ انکو اپنے خوابوں کی صحیح منزل یعنی رنگ برنگے، منفرد ااور اچھوتے ملبوسات پہنیں اس وادی کی خوبصورت عورتیں اور انوکھی و ضح قطح کے افرا د نظر نہ آ جائیٔں۔

ہمارا پہلا انتخاب ۔وادیِ رنبور۔ تھا کیونکہ وہاں کا ایک بڑا جسکا نام سیف اﷲ جان تھا، وہ ہمارا میزبان بن رہا تھا جس سے ہمیں ہمارے مطلب کی بہت ساری معلومات کی بھی توقعات پوری ہوتی نظر آ رہی تھیں۔ یہ اپنے قبیلے کا ایک بڑا معزز انسان تھا، جسنے ہمیں شام ڈھلے نہایت ہی خندہ پیشانی سے ویلکم کہا اور رات بسر کرنے کیلیے اپنے ریسٹ ہاوس کے دو صاف ستھرے کمرے کھلوا دیے۔ وادیِ کیلاش میں یہ ہماری پہلی رات تھی، رات چھانے کو تھی، لیکن ہر لمحہ گزرنے کے ساتھ ساتھ دور کسی وا دی کے دامن سے ایک مخصوص ڈھول کی تھاپ پر مرد و خواتین کا رقص اور بجتی تیز سیٹیوں کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتے جارہی تھیں، جو معلوم ہوا کہ چند روز بعد انکا ایک بہت بڑا تہوار۔ اُچال۔ آنے کو ہے جسکی وادی کے لڑکے لڑکیاں مل کر تیاری کر رہے تھے۔ اور اس محسور کُن ماحول میں ایسے لگتا تھا جیسے ہم اس دنیا میں نہیں بلکہ پریوں کے کسی دیس میں کہیں گھوم پھر رہے ہیں، گاو ٔں کا نظارہ ہی کچھ اور تھا،،، ایک خاص وضح اور پرانی بناوٹ کے زمین سے اوپر کی طرف پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتے لکڑی کے مکانات اور انکے دالا نوں میں پھولوں اور پھلوں سے لدے درخت اور ان میں چلتے پھرتے منفرد انسان،، خوبصورت اوردیدہ زیب لباس پہنے ہنستی مسکراتی عورتیں، جو چھوٹی بڑی سب ایک جیسی ہی لگ رہی تھیں،، جیسے آ کاش سے اُتری کو ی ٔ حسین و جمیل پریا ں، جو منظر شاید میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کبھی نہ دیکھا تھا ۔۔ اس جگہ کی خوبصورتی میں یہاں کا مخصوص پہاڑی علاقہ، گھنے جنگل، حسین، و جمیل جھرنیں اور آ بشاریں،تند و تیز بہتا چشموں اور گلیشۓر سے آتا پانی، برف سے ڈھکی پہاڑوں کی اونچی چوٹیاں، خطرناک چٹانیں اور ان پر منجمد برف، یہ سب ایک ہی وقت میں ذہن میں رکھ کر سوچنے پر ایک عام انسان محبوط سا ہو جاتا ہے جو ایک لمحے کیلیے کسی اور ہی جہا ں کی تصویر کشی کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔

بات چیت میں ہمارے سادہ طبعیت میزبان نے ہمارے بہت سارے ذاتی بلکہ الٹے سیدھے سوالات کے جوابات بھی نہایت ہی خندہ پیشانی سے دیے جو ہم جیسے اکثر پاکستانیوں کے ذہنوں مین ان لوگوں کے متعلق عموماًگھومتے رہتے ہیں۔ اس سوال کا جواب کہ آپ کو کافر کیوں کہا جاتا ہے یا آپ کے علاقے کو کافرستان کیوں کہا جاتا ہے؟؟؟؟ یہ دیا گیا کہ سب انسان صرف اوپر والے کی مخلوق ہیں۔ یعنی وہ ایک اﷲ پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ انکے آباو اجداد اسکندرِاعظم کے ساتھ اس علاقے میں آ ے ٔ تھے اسلیے اسوقت انکا جو مذ ہب تھا، وہ آج بھی اس پر قاۓم ہیں۔ اسکے خیال میں انکا تعلق شاید تھای ٔ لینڈ قوم سے بھی ملتا تھا۔ مسلمانوں کے بارے میں اس نے کہا کہ جو باتیں اسلام میں درست ہیں، وہ انہیں بھی درست ہی تسلیم کرتے ہیں، بلکہ اس نے اس بوڑھی عورت کے واقعے کو دہرایا جو ہمارے نبی ؓ پر کوڑا پھینکتی تھی اور آپؓ اسکی بیمار پرسی تک چلے گے تھے، اس پر ہمارے میزبان کا کہنا تھا کہ ہمارے نبیؓ جیسا شاید کوی ٔ اور مثال دینے کو کم ہی ملے گا۔کلمہ کے ۔concept ۔سے بھی یہ آگاہ تھے، تاہم نماز، روزہ ادا نہیں کرتے، انکا عقیدہ ہے کہ اگر دنیا میں اچھا کام کیا جاے ٔ تو مرنے کے بعد اچھا اور بُرے کام کا بُرا نتیجہ ملتا ہے۔۔ طلاق بھی یہ دریا کے تین پتھرپھینک کر دیتے ہیں، تاہم یہ معاملہ انکا مذہبی پیشوا ٔ ہی سر انجام دیتا ہے۔ سیف اﷲ نے تسلیم کیا کہ شروع شروع میں یہ لوگ موت کی صورت میں میت کے گرد دو دن تک ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہتے، اسکے کارنامے یاد کرتے اور پھر اسکی قیمتی اشیا ٔ کے ساتھ اسے ایک تختے پر کھلا لٹا دیتے اور لاش وہیں وقت کے ساتھ ساتھ تلف ہو جاتی، اس کا کہنا تھا کہ اب انہوں نے قیمتی اشیا ٔ لاش کے ساتھ رکھنی اسوجہ سے بند کر دی گی ٔ ہیں کہ دوسرے لوگ ان اشیا ٔ کو چرا ٔ لے جاتے تھے،بلکہ اب تو انہوں نے مرُدوں کو دفن کرنا شروع کر دیا ہے لیکن لاش کے گرد رقص کی روایات ابھی تک باقی ہے۔ کیلاش لوگ چوری نہیں کرتے، اپنوں میں سے کسی کا استحصال نہیں کرتے، اپنے چھوٹے بڑے مسائل یا سماجی جھگڑے آپسمیں ہی طے کر لیتے ہیں، پولیس کو کبھی مسائل کے حل کے لیے ملوث نہیں کرتے۔ پوری وادی میں کسی نای ٔ دھوبی ، موچی کی دوکان نہ تھی، ایسے کام یہ خود اپنے ہاتھوں سے ہی کر لیتے ہیں، کسی کو ادنی ٰ یا اعلیٰ نہیں سمجھتے، ہر ایک کی عزت یہاں برابر ہے، ہاں اگر کوی ٔ چھوٹا کسی بڑے کی عزت کرتا ہے تو یہ اسکی خاندانی تربیت ہو سکتی ہے۔ بڑے بوڑھوں کا بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ یہاں سب کا غم سانجھا اور خوشی برابر ہے جسمیں یہ اجتماعی طور پر ایک تہوار کی صورت میں شرکت کرتے ہیں۔ راقم کے ایک سوال پر کہ سُنا ہے کہ کچھ کیلاش مسلمان ہو گے ٔ ہیں، کیا یہ زبردستی مسلمان کیے گے ٔ یا از خود ہوے ٔ یا انہیں یا انکی ثقافت کو اسلام سے کسی طرح کا خطرہ ہے،؟؟؟؟؟ جس پر سیف اﷲ کے ایک مدلل جواب نے بھی ہمیں لاجواب کردیا، اسکا کہنا تھا کہ اسوقت وادی میں کیلاشوں کی کُل تعداد 4500 افراد پر مشتمل ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے کی بجاے ٔ یہ یہاں اپنے آپ کو سب سے ذیادہ محفوظ اور مطمعٔن سمجھتے ہیں،،، یہ اسلام جیسے آفاقی مذہب کی وجہ سے ہی تو ہے کہ وہ اتنی تعداد میں آج تک زندہ ہیں،اسکا کہنا تھا کہ اگر ان کے اوپر دنیا کا کوی ٔ اور مذہب یا تہذیب ہوتی تو وہ کب کے۔ عدم برداشت۔ کی بنا ٔ پر فنا کر دیے گے ٔ ہوتے۔ جن جن کیلاشوں نے مذہب تبدیل کیا ہے، یہ سب انہوں نے اپنی مرضی سے کیا ہے، لیکن اسکے باوجود ایک ہی گھر میں ایک غیر مذہب کیلاش باپ کے ساتھ اسکا نومسلم بیٹا اور اسکا پورا خاندان ویسے ہی مل جل کر رہتے ہے جیسے انکے درمیان مذہب والا کوی ٔ معاملہ ہی نہ ہے۔ سیف اﷲ کا کہنا تھا کہ جہاں چند لوگ کیلاش مذہب تبدیل کر چکے ہیں ، وہیں درجنوں غیر مسلم لوگوں نے جن میں ۔مس اکیکو جاپانی۔ قابلِ ذکر ہیں، انہوں نے کلیتاً کیلاش مذہب اپنا لیا ہے اور انکے اندر ہی عشروں سے رہ رہے ہیں۔ ایک بات نے تو مجھے اس شخص کی عظمت کو سلام پیش کرنیکو دل چاہا،،، جب میں نے پوچھا کہ،، آپ سب لوگ کیا اسی حالت میں خوش ہیں کہ لوگ آپ کو کافر کہتے رہیں؟؟؟ اسکا جواب تھا ،،،کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو مختلف لبا سوں اور پہناووں سے رنگین بنا دیا ہوا ہے، اور اس اوپر والے کی مخلوق روزانہ ہمیں دیکھنے کیلیے دور دور سے آتی ہے اور خوش ہوتی ہے، ہم اسی لیے خوش ہیں اور اپنے لیے خوش بختی سے کم نہیں سمجھتے کہ ہم اﷲ کے بندوں کو اپنی دیدہ زیب اور منفرد تہذیب سے خوش کرتے رہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہی بات ہماری اوپر والے کو پسند آ جاے،،، بھلے ہم چار پانچ ہزار کیلاش لوگوں کیلیے اﷲ کی وسیع و عریض جنت میں جگہ نہ ہو ۔

لڑکیوں لڑکوں کے آپسمیں میل جول کیلیے ہر کیلاش لڑکی اور لڑکے کو مکمل آذادی حاصل ہے، کسی بھی قبیلے کا کیلاش لڑکا ہر کیلاش لڑکی سے بلا روک ٹوک مل سکتا ہے، اسے اپنانے کی پیشکش کر سکتا ہے لیکن خون کے رشتے یا انکا قبیلہ کسی صورت بھی آ پسمیں نہ ملتا ہو۔ لڑکا لڑکی یا لڑکی لڑکے کو پسند کر لے تو یہی سب کی خوشی ہوتی ہے اور انکا آپسمیں رشتہ قاۓم ہو جاتا ہے، لیکن قبیلے کے رسم و رواج کے عین مطابق تمام رسوام اد ا کی جاتی ہیں۔ کوی ٔ بھی غیر مسلم اگر کسی کیلاش لڑکی کو پسند آ جاے ٔ تو وہ اسکے ساتھ جا سکتی ہے، ماں باپ اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، بلکہ اسکے پیچھے جہیز کا کچھ نہ کچھ سامان تک چھوڑ آتے ہیں،یعنی پسند کے معاملے میں کو ی ٔزبردستی نہیں کر سکتا۔ لیکن کوی ٔ مسلمان لڑکی کسی بھی کیلاش لڑکے کے ساتھ بیاہی نہیں جا سکتی۔تاہم شادی شدہ کیلاش عورت کسی بھی وقت اپنی پسند کے مطا بق کسی د وسرے کیلاش کے ساتھ جا سکتی ہے لیکن قبیلے کے رواج کے مطابق سابقہ خاوند کو اسکے خرچ کیے ہوے ٔ اخراجات سے نیا خاونددگنا ادا کر یگا ۔ کیلاش قوم میں قتلِ انسانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انکا ماننا ہے کہ جان لینا صرف اوپر والے کا کام ہے۔ ہاں اگر وہ کسی غیر مرد کو اپنی لڑکی کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لیں تو صرف لڑکے کو زدوکوب کرتے ہیں، لیکن جان سے مارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں عورت اپنے مرد کو کسی دوسری عورت کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی۔ اور اگر کوی ٔ کیلاش لڑکی کسی غیر کیلاش کے ساتھ جانا چاہے تو جہاں کسی قسم کی مما نعت نہیں، لیکن اس لڑکے کو لڑکی کے لیجانے پر لڑکی کے والدین کو لاکھ دو لاکھ جرمانہ دینا پڑتا ہے۔

یہ لوگ اپنی مذ ہبی روایات پر سختی سے کاربند رہتے ہیں، انکی کوی ٔ تحریری مذ ہبی کتاب نہیں، لیکن یہ اپنے مذہبی افکار و عقایدصدیوں سے سینہ بہ سینہ ایک سے دوسری نسل میں منتقل کرتے چلے آ رہے ہیں ہے۔ مذ ہبی رسومات کیلیے ہر وادی میں متبرک مقامات مختص کیے ہوے ٔ ہیں، کیلاش قوم کے تین بڑے تہوار، چلم جوش15 ۔ میٔ کو منایا جاتا، جو ہماری میٹھی عید کی طرز پر ہو تا ہے، یہ تہوار تین دن تک ر ہتا ہے، لوگ نے ٔ کپڑے پہنتے ہیں، تین دن تک اجتماعی رقص ہوتا ہے، ایک دوسرے کو تحفے تحاۓف دیے جاتے ہیں اور لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو آذادی سے اپنا جیون ساتھی بنانے کیلیے پسند کرتے ہیں، دوسر بڑا تہوار۔ اُچال۔ کے نام سے مشہور ہے، یہ 21,22 اگست کے درمیان منایا جاتا ہے جسکا مقصد فصلوں کی کٹای ٔ کے موقع پر خوشیاں منانا ہے، اس علاقے میں آجکل یعنی اگست کے ماہ میں گندم کی کٹای ٔ ہوتی ہے، اور گندم کے علاوہ اس علاقے میں، جوار، مکی ٔ اور ہر طرح کی سبزیاں بھی بکثرت پیدا ہوتی ہیں اور تیسرا بڑا تہوار ۔ چترماس ۔ 15 سے 20 دسمبرکے نام درمیان منایا جاتا ہے ، جو ہماری بڑی عیدِ قربان کی طرز پر ہوتا ہے، یہ لوگ بھی ان دنوں میں قربانی کرتے ہیں، لیکن کسی بھی غیر مسلم مرد عورت سے نہ ملتے ہیں اور نہ ہی انہیں ان دنوں میں کسی کو کھانا پانی دینے کا حکم ہے۔ ان سب تہواروں میں انکے مذہبی پیشوا ٔ جن کی کل تعداد 45 کے قریب ہے ، وہ انہیں انکی مذہبی رسومات کی اداۓگی میں رہنمای ٔ کرتے ہیں۔ مذہبی عبادات کیلیے مختلف عبادت گاہیں موجود ہیں جن میں قابلِ ذکر sajiogor جو تمام مساۓل سے چھٹکارے کا دیوتا ہے اور مہا دیو، جو پوری کاۓنات کو کنٹرول کرتا ہے ۔ اس علاقے میں ہم نے مسلم آبادی بھی دیکھی جہاں مسجدیں بھی قاۓم تھیں، جو کہا جاتا ہے کہ پہلے یہ سب کیلاش تھے اور۔ ریڈ کافر۔ کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ان سب کو وادیِ کیلاش سے ملحق افغان صوبے کنُنڑ کے علاقے نورستان کے۔ والی عبدالرحمٰن۔ نے مسلمان کرنا چاہا تو یہ وہاں سے بھاگ کر یہاں ان وادیوں میں آ کر آباد ہو گے ٔ اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان میں سے کچھ مسلمان ہو گے ٔ جنہیں نورستانی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کھتی باڑی، اور جانور پالنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقوں میں وافر مقدار میں پیدا ہونے والے پھلوں کو خشک کر کے استعمال میں لانا اور بیچنا ہے۔ کوی ٔ قابلِ ذکر امیر ترین آدمی ان کے اندر موجود نہ ہے، بس سب اپنا اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ ہر گھر میں دیسی طور پر شراب تیار کی جاتی ہے جسے اکثر ۔دروشو۔ جو انگور سے تیار کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے، ہم نے تقریباً ہر گھر میں انگور اور خوبانی سے تیار کی جانے والی شراب موجود پای ٔ جسے یہ لوگ اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں، عورتیں مرد سب اکھٹے شراب پیتے ہیں اور گھر آے ٔ مہمان کو مشروب کی طرح پیش کیا جاتا ہے لیکن کیلاش قوم کا کویٔ مرد یا عورت عام شرابیوں کی طرح ہلہ گلہ کرتا کبھی نظر نہیں آتا۔ اکثر ہمارے لوگ وہاں عیاشی کا ذہن میں رکھ کر جاتے ہیں، لیکن راقم نے دیکھا کہ وہاں اگر کسی حد تک جتنی عیاشی میسر آ بھی سکتی ہے تو اس سے کہیں ذیادہ ملک کے ہر علاقے میں ایسے اسباب موجود رہتے ہیں ۔ سیاحوں کی طرف سے عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت کو وہ ۔بد دیانتی۔ کہتے ہیں اور بعض اوقات بُرا بھی مناتے ہیں، ہاں اگر بد قسمتی سے کوی ۔عادی ٔ شرابی۔ ہے،،، تو یہ علاقہ پھر ایسے افراد کیلیے کسی جنت سے کم نہیں ہے، اگر خود خرید کر پینی ہے تو وہ بھی وافر اور اگرساقی آپ کو پلاے ٔ تو اسکے کیلیے جیب زرا ذیادہ ڈھیلی کرنی پڑتی ہے، لیکن کسی بھی طور پر اس جیسی محفل میں بھی کوی ٔ بھی غیر اخلاقی حرکت ناقابلِ برداشت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر کوی ٔ کیلاش عورت کسی غیر کیلاش کو شراب پلا رہی ہے تو اکثر اسکا خاوند یا دیگر رشتہ دار اس محفل میں خود موجود ہوتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ کسی بھی حال میں ریڈ لاۓن کراس کرنیکی کبھی اجازت نہیں دیتے۔۔ دوسری لفظوں میں شراب تیار کرنا، پینا، بیچنا انکا عام معمول، شوق یا پیشہ اور پلانا ذریعہ معاش ہے لیکن وہ بھی کسی خاص حد کے اندر رہ کر۔ کیلاش عورتیں نامعلوم مردوں یا عام سیاحوں سے فوراً گھل مل نہیں جاتیں،بلکہ ایک فاصلہ رکھتی ہیں، اگر کوی ٔ انکا فوٹو بھی بنانے کی کوشش کرے تو بجاے ٔ بُرا منانے کے، منہ دوسری طرف کر لیتی ہیں۔۔ ہم نے اکثر یہ بھی سن رکھا تھا کہ انکی جوان لڑکیاں اور عورتیں مخصوص ایام میں گھر سے نکال کر دور ایک جگہ پر رکھی جاتی ہیں ،اس کی وجہ ہمارے میزبان نے یہ بتای ٔ کہ چونکہ ان ایام میں عورت ناپاکی کی حالت میں ہوتی ہے، اسلیے یہ لوگ انہیں ان چند ایام میں گھر کے کام کاجوں سے فرصت کیلیے تاکہ کھانے پکانے میں پاکیزگی برقار رہے، گاو ٔں سے زرا باہر لیکن ایک محفوظ مختص شدہ مقام پر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ اس جیسی تمام عورتیں اپنے ایام یہاں گزار کرنہا دھو کر واپس آ کر دوبارہ سے اپنے گھر کے کام کاجوں میں لگ جاۓں، بلکہ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ انکے بچوں کی پیداۓش بھی انہی مخصوص مقامات پر کروای ٔ جاتی ہے تاکہ گھر کے عام ماحول کو کسی طرح بھی اس خاص موقع پر متاثر نہ ہونے دیا جاے ٔ۔

ہماری اگلی رات اس قوم کی سب سے بڑی وادی۔۔ بمبوریت ۔۔میں گزری ۔ یہ اس قبیلے کی سیاحت کے لحاظ سے بھی بڑی وادی تھی کیونکہ یہاں بڑے بڑے ہوٹل، PTDC موٹل اور درجنوں دیگر چھوٹے بڑے ر یستوران یا قیام و طعام کے مو ا قع میسرٔ تھے، لیکن سڑکوں اور گلیوں کا و ہی بُرا حال۔ بمبوریت میں کیلاش قوم کے قدیم روایات کا امین ایک بڑا اور جدیدمیوزۓم یونانی قوم کی امداد سے قاۓم کیا گیا ہے، جسے د یکھنے کے بعد اس قوم کے عہد ِ رفتہ کی عظمتیں اور یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ ان لوگوں کی ایک قدیم زبان ہے، جسکا اثر چترالی زبان سے ملتا جلتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو چترال کے حکمرانوں میں بھی شمار کرتے ہیں،، انکا کہنا ہے ،،کہ ا نکے آباو ٔ و اجداد نے سال ہا سال چترال پر حکومت کی۔ یہاں کوی ٔ قابلِ ذکر مو باۓل کمپنی کا نیٹ ورک نظر نہیں آیا،تاہم کچھ، ڈسپنسریاں، د ستکاری کے چند مراکز اور مڈل اور ہای ٔ اسکول ضرور قاۓم ہیں،لیکن یہ شکایت عام تھی کہ ذرایع آمد ورفت کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے عملہ اور ٹیچرز کی ٔ کی ٔ دن یہاں نہیں آتے۔ اس خوبصورت وادی میں علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت ہمارے مہمان فیضی خان تھے، جن کی فراخدلی اور مہما ن نو ازی کو شاید ہم کبھی نہ بھول سکیں گے۔

کیلاش لوگوں کو اپنی اس دہرتی، اپنے ماحول اور ا پنی منفرد ثقافت سے بہت پیار ہے اور وہ اسے کسی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہتے۔ جدید علوم اور تعلیم و تربیت سے بھی انہیں شغف حاصل ہو چکا ہے کیونکہ ڈش ٹی وی اب یہا ں ایک عرصہ سے موجود ہے ، اسی وجہ سے اس قوم نے آ ج تک ایک خاتون پا ۓلٹ لکشمن بی بی اور پنجاب یونیورسٹی سے شازیہ بی بی ایم اے فلاسفی بھی کر چکی ہیں جو اپنی قوم میں ذیادہ سے ذیادہ شعور اور قومی جذبے کیلیے دن رات کوشاں ہیں اور اپنے آپ کو معدوم ہونے کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں، یہ زمانے یا حکومتِ وقت سے کوی ٔ خاص گلہ نہیں رکھتے، لیکن جن جن لوگوں نے انکے ساتھ تعاون یا انکی فلاح کا ایک قدم بھی اٹھایا ہے، یہ اسے دل کی گہراۓیوں سے یاد کرتے ہیں اسی لیے اکثر یہاں کے لوگوں کی زبان پر مجھے اسفند یار بھنڈارا، ملک کے مشہور و معروف صنعتکار ہے اور جو اقلیتی امور کی وزارت میں عہدیدار بھی رہ چکے ہیں ، یہ آج بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ انکا اسوقت سب سے بڑا مسٔلہ خطرناک اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی فوری بحالی جو برف کے دنوں میں مہینوں بند رہتی ہیں ، بلا تعطل بجلی کی فراہمی اور تعلیمی پسماندگی کو بھگانا ہے،، اسلیے وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت انکا از خود ہر طرح سے خیال رکھے انکی ہر ممکن مدد اور مناسب سرپرستی کرے، یہ اسپیشل قوم ہے جسکے لیے تمام ضروریات زندگی کی فراہمی، بہترین ذراۓع آمد و رفت اور مفت تعلیم اوربجلی انکا بنیادی حق بنتا ہے کیونکہ یہ ناصرف ہمارا بہترین ثقافتی ورثہ ہیں، بلکہ یہ اپنی ہزاروں سال کی قدیم ترین تہذیب کے سچے امین اور پاسدار بھی ہیں جن سے نا صرف پورا پاکستان بلکہ پوری دنیا پیار کرتی ہے، یہ ہماری سیاحت کیلیے بھی ایک قیمتی سرمایہ ہیں، اور ان پر خرچ کرنا دراصل اپنے آ پ پر خرچ کرنے سے کسی طور پر کم نہیں، لیکن دیکھا جاے ٔ تو یہاں جیسے حکومتی سطح پر کچھ بھی نہیں ہے اور یہ لوگ خود سے ہی اپنا وجود اور اپنی تہذیب کو اپنی اصل حالت میں برقر ار رکھنے کیلیے دن رات کوشا ں ہیں ، اس علاقے میں پانی اﷲ تعالی ٰ کی مہربانی سے وافر مقدار میں ہمہ وقت دستیاب ہے، جگہ جگہ قدرتی فال ہیں، جن پر صرف چند مقامات پر چھوٹی چھوٹی ٹرباۓنوں سے اپنی مدد آپ کے تحت یا مقامی NGOs یا SRSP محکمہ کے تعاون سے معمولی سی بجلی پیداکی جا رہی ہے ،،، لیکن یہ سسٹم اب بوسیدہ ہو چکا ہے جسے تھوڑی سی تبدیلی سے جدید ٹرباۓنوں سے بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ہماری اطلاع کے مطابق موجودہ وقت کی ایک نہایت ہی جدید اور بہترین منی ٹربا ۓن اسووقت چترال انجینۓر ینگ و ر کس ٹیکسلا میں T-34 کے نام سے تیار کی جا چکی ہے، جو مقابلتاً دیگر تمام ٹرباینٔز سے اعلیٰ کارکردگی کی حامل ہیں ۔ صرف وادیِ کیلاش کے اندر سے گذرتے ہوے ٔ پہاڑی نالے پر اگر موثٔر پلاننگ کی جاے ٔ تو یہاں سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اور دیے کی مانند ٹمٹماتے بلبوں سے او ر مسلسل لوڈ شیڈینگ سے مستقل طور پر چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے لیکن کرے تو کرے کون؟؟؟؟حکومت کو اپنے ہی بکھیڑوں سے فرصت ہی نہیں۔ مرکز صوبے کے خلاف بر سر پیکار ہے اور صوبہ مرکز کو کھانے کو دوڑ رہا ہے جس سے پوری دنیا میں ہماری ثقافت تو کیا ہم عام پاکستانی بھی ایک تماشہ بن کے رہ گے ٔ ہیں۔
Khokhar Latif
About the Author: Khokhar Latif Read More Articles by Khokhar Latif: 4 Articles with 3303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.