سلمان شاہد
ہر حکومت ترقی کا واویلا کرتی رہتی ہے،ہر سیاسی جماعت کے منشور میں ترقی کا
ذکر ضرورہوتا ہے اور ہر سیاستدان ملک وقوم کی ترقی کاوعدے کا راگ الاپتا
رہتا ہے لیکن نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی یوں لگتا ہے جیسے ہم نے ترقی کا
سفر دائرے میں کیا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ترقی کا مفہوم کیا ہے؟اور اس
کے ماپنے کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے قوموں کی تاریخ میں فقط صنعتی ترقی ایسی
چیز ہے جوواضح طور پر نظر آتی ہے مگر جہاں بجلی24گھنٹے آنکھ مچولی کھیلتی
رہتی ہو وہاں صنعتی ترقی کا اندارہ کیسے لگایا جا سکتا ہے ہاں اس کا موازنہ
اپنے ہمسایہ ممالک کی اقتصادی صورت حال سے کیا جاسکتا ہے فرض کیا اگرایک
ملک کی سالانہ آمدنی200ڈالر سے بڑھ کر300ڈالر ہو گئی ہے ،قوم کا رہن سہن
بلند ہوگیا ہو تو کہا جا سکتا ہے وہ ملک ترقی پذیر ہے یاعوام میں شرح
خواندگی میں اضافہ ہو گیاہو،یا ملک کے سائنسدانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے یا
پھر ملک کے ریسرچ کرنے والے اداروں کی افراط ہوگئی ہے۔ ’’ایک سہیلی نے
دوسری سے کہامیں نے شادی کرنے کا فیصلہکرلیاہے ـ’’تمہارا کس سے شادی کرنے
کا ارادہ ہے ؟ پہلی نے اس سے پوچھا ’’ ہے ایک سیاستدان ۔ سہیلی نے جواب دیا
’’ نہ بابا نہ اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا میری مانو سیاستدان سے
کبھی شادی نہ کرنا وہ کمبخت وعدے تو بہت کرتا ہے پورا ایک بھی نہیں
کرتا۔ہمارے ملک کے سیاستدان بھی دن رات ملک وقوم کی ترقی کے بلندبانگ وعدے
کرتے نہیں تھکتے ،جس طرح انصاف نظر آنا چاہیے بعینہـٰ ترقی کیلئے بھی یہی
شرط ہے،ہر گورنمنٹ نے تعلیمی ترقی کیلئے اپنی ترجیحات اور پالیسیاں تشکیل
دی ہوئی ہیں لیکن سکولوں کی تعداد بڑھانے، کالجوں کواپ گریڈ کرنا جیسے
اقدامات کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاتاپاکستان میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ جس
گھر میں دوتین بچے کالجز میں پڑھ رہے ہیں اس گھر کاسربراہ سارا مہینہ خرچے
کرکرکے گنجا ہو جاتا ہے اور ایجوکیشن کیلئے گورنمنٹ نے جتنے فنڈ سالانہ
مختص کرتی ہے اس سے زیادہ توگھر گھر چلنے والی کیبل سے اکھٹے ہو جاتے ہیں
۔یہ ساری باتیں یہ سارے اقدامات ہماری رسائی سے باہر ہیں لیکن چندشعبے ایسے
بھی ہیں جنکی ترقی کی اشدضرورت ہے اخلاق،ضمیر اور کردار ایسے شعبے ہیں جن
کی ترقی محسوس کی جاسکتی ہے بیان نہیں۔ اخلاق،ضمیر اور کردار کی ترقی قوم
کے بڑے بڑے فیصلوں میں بے حد معاون ثابت ہو سکتی ہے اس کیلئے آپ سب کو
سوچنا ہوگا، اپنے آپ کو بدلنا ہو گا اور اگر ملت کا ہر اپنی سوچ میں تبدیلی
لائے تو اخلاق،ضمیر اور کردارکی بنیادنئے سرے سے تعمیر کی جا سکتی ہے،آپ نے
دیکھا ہو گا کئی اہم عدالتی فیصلے کبھی کالعدم اور کبھی بحال ہو جاتے ہیں
اگر ہم میں اخلاق،ضمیر اور کردار کی پختگی ہوتی تو شاید ہمارے قومی معاملات
ایسے نہ ہوتے جیسے اب الجھ گئے ہیں۔ |