پاکستان: میں اپنی فتح سمجھتا تھا ، ہار ہونے تک

کرکٹ ایک عجیب و غریب کھیل ہے ۔ اس کے اسرارو رموز سے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا ناواقف ہونا تو قابلِ فہم ہے لیکن عمران خان صاحب کا اسے بھول جانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔علامہ طاہر نہ سیاسی کھلاڑی ہیں اور نہ کرکٹ کے مہارتھی لیکن یہ استثناء عمران خاں کو حاصل نہیں ہے اس لئے ان سے سوجھ بوجھ کی توقع کرنا کوئی نامعقول بات نہیں لیکن افسوس کہ عمران خان کے موجودہ موقف پر مشہور شاعر افتخار عارف کی نظم بارہواں کھلاڑی یاد آتی ہے ۔ بارہویں کھلاڑی کی حالت بھی عمران خان کی مانند ہوتی ہے جو میدان یعنی ایوان پارلیمان سے باہراقتدار کا منتظر ہوتاہے ۔اس نظم میں شاعر کے نام کو’ کیپٹن صاحب‘ سے بدلنے کی گستاخی کیلئے میں معذرت چاہتا ہوں۔ افتخار عارف بارہویں کھلاڑی کے دل کی کیفیت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ؎
کھیل سے کھلاڑی کا ، عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کا یہ رشتہ ، چھوٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ ، ڈوب جانے والا دل
ٹوٹ بھی تو سکتا ہے
تم بھی کیپٹن صاحب، بارھویں کھلاڑی ہو

علامہ طاہر القادری کا دانستہ یا نادانستہ طور پر پرویز مشرف کو بچانے کیلئے سرگرم عمل ہونا قرین قیاس ہے اگر اس کوشش میں فوج برسرِ اقتدار آجائے تو اس میں ان کا کوئی نقصان نہیں ہے اس لئے کہ وہ مشرف کے ساتھ شمالی امریکہ چلے جائیں گے جہاں سرخ قالین بچھا کر ان کا استقبال کیا جائیگا لیکن اس صورت میں عمراں خان کا کیا ہوگا ؟ وہ توہٹ وکٹ ہوکر میدان سے باہر ہو جائیں گے اور اس سے قبل کے آئندہ انتخاب کا اعلان ہو ممکن ریٹائرمنٹ کی عمر میں داخل ہو جائیں۔ اس لئے خان صاحب کو چاہئےکہ کسی اور کاچراغ جلانے کیلئے اپنا آشیانہ پھونکنے سے پر ہیز کریں۔ عمران خان اس بار جوش میں آکرخود اپنے ملک و قوم اور جماعت و صدر کے ساتھ بھی انصاف نہ کر سکے اس لئے کوئی بعید نہیں کہ آئندہ انتخاب میں عوام ان کا سپڑاصاف کردے ۔

پاکستان کی لوگ عمو ماً ہندوستانی جمہوریت کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے کہ دور کے ڈھول بہر حال سہانے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال ہندوستان میں دو بڑی عوامی تحریکیں چلیں ۔ پہلی بابا رام دیو نے چلائی ۔ بابا رام دیو کی مقبولیت علامہ طاہر القادی سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے ۔ اس تحریک سے اگر علامہ کوئی سبق لیتے تو اچھا تھا لیکن ان کے سامنے یقیناً مصر کی مثال رہی ہوگی لیکن یہ حقیقت اس بار کھل کر سامنے آگئی کہ پاکستانی سیاست فی الحال مصر کے مقابلے ہندوستان کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتی ہے ورنہ کب کا فوج اقتدار پر قابض ہو چکی ہوتی اور حسنی مبارک کی مانند پرویز مشرف پر چلنے والے مقدمات کو کمزور کرنے کا کام شروع ہو گیا ہوتا۔ بابا رام دیو نے نعرہ تو کالے دھن کو بیرونی ممالک سے واپس لانے کا لگایا تھا لیکن بالآخر اندرون ملک کے ایک دونمبری سیاستداں کو وزیراعظم بنانے کی مہم میں لگ گئے اور اس میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن اگر وہ قادری صاحب کی طرح اڑیل رویہ اختیار کرلیتے تو یہ چمتکار کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ باباجی کے رویہ میں صوفی صاحب کیلئے عبرت کا سامان ہے۔

ہندوستان میں چلنے والی دوسری تحریک انا ہزارے کی تھی ۔ اس تحریک کے مطالبات کا اگر آزادی و انقلاب مارچ سے موازنہ کیا جائے تواچھی خاصی مشابہت دکھلائی دیتی ہے ۔ بدعنوانی اور انتخابی اصلاحات پر ہر دو جگہ زور دیا گیا تھا ۔ اِدھر انا ہزارے کے ساتھ اروند کیجریوال تو اُدھر طاہر القادری کے ساتھ عمران خان تھے لیکن ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اروند کیجریوال نے عوامی تحریک چلانے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور عمران خان سیاست کے میدان سے نکل کر سڑک پر آئے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ جب اروند نے انتخابی سیاست کی راہ لی تو اناجی نے ان سے دوری اختیار کرلی جبکہ سیاست کے میدان سے عوام میں آنے والے عمران خان کو طاہر القادی نے گلے لگا لیا۔

ہندوستان کے لوگوں نے جس طرح کی توقعات لوک پال تحریک سےوابستہ کی تھیں وہی معاملہ انقلاب مارچ کے ساتھ تھا۔ عوامی تحریک نے اروند کیجریوال کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ بھی کیا لیکن جب انہوں نے اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کی کوشش کی تو نہ صرف چادر پھٹ گئی بلکہ خود بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے خدا نہ کرے عمران خان کا یہ حال ہو۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اروند کیجریوال سے سبق حاصل لیں جنہوں نے جوش میں آکر دہلی کی حکومت گنوا دی اور اس کے نتیجے میں نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ عمران کی حالت اب بھی کیجریوال سے بہت بہتر ہے لیکن اگر فوج برسرِ اقتدار آجاتی ہے تو صوبہ پختونخواہ میں ان کی حکومت منٹوں میں برخواست کردی جائیگی اور اگر وہ سڑک پر اسی طرح نکلیں گیں تو جیل بھیج دئیے جائیں گے۔ اس وقت ان کی مدد کو نہ پرویز آسکیں گے اورنہ طاہر۔ اس لئے عمران کو خود اپنے پیر پر کلہاڑی چلانے کے بجائے کنٹینر سے باہر آکر کھلے دماغ سے سوچ کر آگے کی سیاسی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے ۔ ویسے شاہراہ دستور سے واپس ڈی چوک پر آنے کے فیصلے امیدکرن ضرور ہے۔

عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ابتدائی زمانے میں کرکٹ کا میچ غیر میعادی ہوا کرتا تھا لیکن جب شائقین کے ساتھ کھلاڑیوں کی بھی دلچسپی اس طول طویل میچ سے ختم ہونے لگی تو اس پر پانچ دنوں کی میعاد مقرر کردی گئی ۔ٹسٹ میچ میں ہر ٹیم کو دو مرتبہ کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہےتاکہ ایک مرتبہ کی غلطی کو دوسری بار ازالہ ممکن ہوسکے۔ اس کے باوجود کئی میچ ہار جیت کے بغیر ختم ہو جایا کرتے ہیں۔ دونوں حریف جماعتوں کے درمیان مصالحت کی کوشش کرنے والاحزب اختلاف کا سیاسی جرگہ اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح اس میچ کو ڈرا ڈکلئیر کردیا جائے۔ عمران خان کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اسلام آباد نواز شریف کا ہوم گراؤنڈ ہے اس پر شکست کوئی بڑی اہمیت کی حامل نہیں ہے لیکن اگر کل کو پشاور کے اندر بھی ہار گئے تو وہ بڑی خواری ہوگی ۔عمران خان کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ سیاسی جرگہ کی پیشکش کو غنیمت جان کر لوٹ جائیں ورنہ تو وہی ہوگا جو انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ابتدائی سیریز میں ہوا تھا ۔

کرکٹ کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے ۔ اس کی ابتداء برطانیہ میں ہوئی لیکن برطانوی ٹیم نے سب سے پہلا دورہ امریکہ کا کیا۔ یہ دلچسپ انکشاف ہے یوروپ کے بے شمار ممالک کو چھوڑ کر اسے سات سمندر پار امریکہ جانا پڑا اس لئے کہ یوروپ کے لوگوں کے پاس لہو ولعب میں ضائع کیلئے اتنا وقت نہیں تھا ۔ امریکہ اور کینیڈا کواس سیریز کے بعد وقت کے بے انتہا ضیاءکا احساس ہواتو وہ دونوں تائب ہوکر بیس بال کی جانب مڑ گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ کے چھکے چھڑا دئیے تو امریکہ کو اس کی مدد کے لئے دوڑ کر آنا پڑا۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ زمانہ بدل گیا ہے ۔ فی زمانہ ٹسٹ کرکٹ کے شائقین دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ نوجوان نسل تو اب دن بھر ففٹی ففٹی اوورس کا میچ دیکھنےکے بجائے ٹوینٹی ٹوینٹی دیکھنے لگے ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے کھیل کا انداز بدلنا ہوگا ۔عمران خان کیلئے سیاسی کرکٹ میں وقت کی اہمیت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اس لئے کہ اس بار گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ان کی مدد پرآمادہ ہیں لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو جائیگا جیسا کہ فی الحال دریائے چناب میں ہو رہا ہے تو سارے لوگ جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوں گے اورکوئی تعاون کیلئے آگے نہیں آئیگا۔

کرکٹ کا عشق برطانیہ کوہزاروں میل کی دوری پر واقع اپنی نوآبادیات آسٹریلیا لے گیا ۔ اس کے آگے لاہور سے اسلام آباد کے لانگ مارچ کا فاصلہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ برطانوی ٹیم اس زعم میں مبتلاء تھی کہ وہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آسانی سے مات دے دیں گے لیکن بازی اسی طرح الٹ گئی جیسی کہ اب اسلام آباد میں الٹی ہوئی ہے۔ ناکام و نامراد برطانیہ نے واپس آتے ہوئے آسٹریلیا کو ازراہِ تکلف اپنے ملک آنے کی دعوت دی جسے آسٹریلوی ٹیم نے بسرو چشم قبول کرلیا اور برطانیہ پہنچ گئے ۔ اب کیا تھا برطانیہ کی سرزمین پر بھی آسٹریلیا نے انگلینڈ کو دھول چٹا دی ۔

انگلینڈ کی شکست کے بعد برطانوی کرکٹ پر تعزیت نامہ اس طرح لکھا گیا تھا برطانوی کرکٹ کو اوول کے میدان میں جلا کر خاک کردیا گیا اور اس راکھ کو آسٹریلوی اپنے ساتھ لے گئے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انصاف پارٹی کی مشتِ خاک مشرف اورالقادری اپنے ساتھ امریکہ لے جائیں ۔ اس لئے کہ امریکی انتظامیہ کی خدمت میں اس سے قیمتی تحفہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ صوبہ پخونخواہ امریکی نقطۂ نظر سے بہت ہی اہم علاقہ ہے اور وہاں پر صرف عمران خان ہی ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرأت رکھتا ہے اس لئے عمران کا سیاسی سر امریکہ کیلئے بیش بہا اہمیت کا حامل ہے۔

اسلام آباد میں چلنے والا کھیل کھلاڑی کم اور شائقین میں بیٹھے ہوئے جواری زیادہ کھیل رہے ہیں ۔کرکٹ میدان میں مختلف ٹیمیں جیتتی یا ہارتی رہتی ہیں لیکن جواری کبھی نہیں ہارتے وہ ہر حال میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں اگر نواز شریف کی جگہ فوج آجائے تو اس میں امریکہ کا سیدھا سیدھا فائدہ ہے اوراگر عمران خان کی سیاسی ساکھ کا خاتمہ ہو جائے تو اس سے بھی امریکہ کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی بحران امریکہ بہادر کے علاوہ مشرف اور قادری کےلئے بھی فائدہ بخش ہے ۔ سیاسی استحکام امریکی مداخلت کے امکان کو کم کردیتا ہے اوراسی کے ساتھ اس کی اہمیت کو ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فوجی اقتدار نے ہمیشہ ہی امریکی کے عمل دخل میں اضافہ کیا ہے۔
عمران پاکستانی ٹیم کے مایہ ناز آل راؤنڈر تھے ۔ انہوں نے اپنی گیند کے علاوہ بلے سے بھی کمال دکھایا۔ اس بار جب نواز شریف کی گیند پر انہوں نے بلہ گھمایا تو وہ کچھ زیادہ ہی گھوم گیا اور بال باؤنڈری کی جانب جانے کے بجائے آسمان کی طرف اچھل گئی۔ عمران کے اس غلط شاٹ کو بڑے آرام سے جھیلا جاسکتا تھا لیکن اس سے پہلے کہ فیلڈرس اس کو تھامتے تیسرے امپائر نے نوبال کا اشارہ کردیا اس طرح عمران خان کیچ آؤٹ ہونے سے بال بال بچ گئے ۔ عمران کے جو حامی تیسرے امپائر کے تساہلی سے مایوس ہو رہے تھے خوشی سے اچھل پڑے ۔

مذکورہ سانحہ کے بعد عمران کا حوصلہ بلند ہو گیا انہیں یقین ہو گیا کہ تیسرا امپائر( یعنی فوج) ہمارے ساتھ ہے ۔ عمران بار بار کامیابی کی دو انگلیاں اٹھا کر یہ کہتے رہے کہ امپائر کی ایک انگلی اٹھ جائیگی ساری دنیا جانتی تھی کہ اس سے کیا مراد ہے؟ عمران نے اپنے پہلے ہی اوور میں جب یارکر گیند پھینکی تو نواز شریف چوک گئے اور گیند ان کے پیڈ میں الجھ کر رہ گئی۔ یہ دیکھ کرعمران نے ایل بی ڈبلیو کی زوردار اپیل کی اور پہلے امپائر پی پی پی کی طرف دیکھا اس نے اپیل کو مسترد کردیا ۔ اس کے بعد انہوں نے لیگ امپائر کی جگہ کھڑی ہوئی جماعت اسلامی کی جانب بڑی امید کے ساتھ نظر دوڑائی لیکن وہ بھی گم صم رہی ۔ اب تیسرے امپائر یعنی فوج کے علاوہ کوئی اور سہارہ نہ بچا تھا لیکن اس بارتیسر ے امپائرنے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگوٹھا(ٹھینگا) دکھا دیا ۔

عمران کے جن حامیوں کو امپائر کے اس فیصلے نے مایوس کیا ہے انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ موجودہ سیاسی بحران میں عمران کا سب بڑا خیر خواہ وہی تیسرا امپائر ہے اس لئے کہ اس کی انگلی کے اشارے نواز شریف وقتی طور پر تو گھر چلے جاتے لیکن دوبارہ انتخاب جیت کر لوٹ آتے لیکن عمران خان جو سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترے ہیں اس قبر میں لٹا دئیے جاتےجسے مولاناطاہر القادی نے نواز شریف کیلئے کھود رکھا ہے۔ سیاست کی دنیا میں عوام کا اعتماد کوئی گنوا بیٹھنے والوں کی حالت بارہویں کھلاڑی جیسی ہو جاتی ہے؎
تم بھی افتخار عارف ، بارھویں کھلاڑی ہو
انتظار کرتے ہو، ایک ایسے لمحے کا
ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہوجائے ، جس میں سانحہ ہوجائے
تم بھی کیپٹن صاحب
تم بھی ڈوب جاوگے ، تم بھی ٹوٹ جاؤگے

پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران پر ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے ابتداء میں خوب بغلیں بجائیں۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ پاکستان صرف ڈنڈے کے زور سے چل سکتا ہےاس کے ڈی این اے میں جمہوریت نہیں ہے ۔ اس طرح کی بات کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی فوج سرکس کا شیر ہے۔ دانت اور ناخن نکال کر اس کو سدھایا جاچکا ہے لیکن پاکستانی فوج کی زبان سے اقتدار کا خون لگا ہوا ہے اس کے باوجود جس صبر تحمل کا مظاہرہ کمانڈر ان چیف راحیل شریف نے کیا وہ قابل تحسین ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نےاپنے باہمی اختلافات سے اوپر اٹھ کر بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے ملک کو بحران سے نکالنے کی مخلصانہ کوشش کی اور ذرائع ابلاغ نے بھی اپنی شورش کو بڑھا چڑھا کر اپنی مقبولیت بڑھانے کے بجائے فہم و فراست کا ثبوت دیا نیز حکمراں جماعت خوف و اندیشے کا شکار ہو کر طاقت کے بیجا استعمال سے گریز کرتی رہی ۔ اس غیر معمولی تعاون و اشتراک نے دور و نزدیک دشمنوں کو مایوس کردیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران اور طاہر بھی محسن نقوی کی مانند قوم کےمفاد میں اپنی ضد چھوڑ کراعلان کریں
آؤ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی ،شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم
آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
آؤ وعدہ کریں
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450063 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.