تقریباًساڑھے تین سو سال قبل مسیح کی بات ہے جب کوٹلیہ
چانکیہ نے ہندوستان کے بادشاہوں کو حکومتی اسرار رموز سکھانے کیلئے ایک
کتاب ”ارتھ شاستر“ لکھی،یہ کتاب جھوٹ، مکر و فریب، منافقت، دھوکہ دہی، دغا
اور چالبازی کے گُر وںپر مبنی ہے،منافقت،مکروفریب اور دغابازی کے اصولوں پر
مبنی یہ کتاب صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی بھارتی سیاست کا مزکر و محور
ہے،بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم
نریندر مودی تک ہر بھارتی حکمران ہمیں چانکیائی سیاست پر پوری طرح عمل پیرا
نظر آتا ہے۔چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کا ایک اصول ہے کہ”دشمن کو کبھی
اعتماد میں نہ آنے دو، کہو کچھ، کرو کچھ، جب دباؤ آئے، تو وعدہ کرلو، جب
دباؤ ہٹے، تو مکر جاؤ۔“ چانکیہ کا یہ منافقانہ گر بھارت کی سیاسی اور خارجہ
پالیسی کی اصل بنیاد واساس ہے، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایسے بے شمار
مواقع آئے جب بھارت کے بڑے بڑے لیڈروں نے پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل کے
اعلانات اور وعدے کئے، لیکن بعد میں اپنی کمٹمنٹ سے مکر گئے،اَمر واقعہ یہ
ہے کہ بھارت جو اعلان کرتا ہے، ا_±س سے بھاگ جاتا ہے، جو وعدہ کرتا ہے، اس
سے مکر جاتا ہے اور جو معاہدے کرتا ہے، اسے خود ہی توڑ دیتا ہے،67سالہ
تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جو بھارت کی دوغلی پالیسی کے آئینہ دار
ہیں۔
سردست ہم1961-61 کے سندھ طاس معاہدے کی بات کرتے ہیں جس کے تحت بھارت اِس
اَمر کا پابند ہے کہ پاکستان کو ممکنہ سیلابی خطرے سے پیشگی آگاہ کرے، مگر
ماضی کی طرح ایک بار پھر بھارت نے پاک بھارت دوستی کی بحالی کے بلند بانگ
دعووں اور اعتماد سازی کی یقین دہانیوں کے باوجود انتہائی منفی کردار ادا
کرتے ہوئے دریائے چناب اور ستلج میں پیشگی اطلاع دیئے بغیر سیلابی ریلا
چھوڑ کر ہمارے ارباب اقتدار کی یک طرفہ محبت کی پینگوں کا برہمنیانہ اندار
میں جواب دیا۔بھارت کی جانب سے چھوڑے گئے سیلابی ریلوں کی وجہ سے سیکڑوں
پاکستانی دیہات وقصبے زیر آب آئے اور اربوں کی املاک ، اراضی اور مویشیوں
کا نقصان الگ ہواہے، جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کا فرض تھا کہ وہ
اپنے اِس اقدام کی پیشگی اطلاع دیتا لیکن اُس نے ماضی طرح اس بار بھی ایسا
نہ کیا،لہٰذا اس تناظر میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ بھارتی
حکمران پاکستانیوں سے” آستیں میں دشنہ پنہاں اور ہاتھ میں خنجر کھلا “ قسم
کی ”دوستانہ ڈپلو میسی “ بروئے کار لاتے ہیں۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے دریاوں میں پانی چھوڑنے اور بارشوں
کے سبب سیلابوں کا آنا ہر سال کامعمول بنتا جارہا ہے،اس کی بڑی وجہ
پاکستانی دریاوں پر متنازعہ بھارتی ڈیموں کی تعمیر اور پاکستان میں کالا
باغ ڈیم جیسے سود مند منصوبوں پر عمل درآمد کا نہ ہوناہے، جب سے بھارت نے
سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر شروع کی ،اُس وقت
سے محب وطن حلقوں حکومت کو آگاہ کرتے رہے کہ بھارتی آبی جارحیت کوفوری روکا
جائے وگرنہ بھارت جب چاہے گا پانی روک کر پاکستان میں خشک سالی کی کیفیت
اور جب چاہے گا دریاوں میں یکدم پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کر دے
گا، مگر صد افسوس کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔نائن الیون کے بعد
بھارت نے اسرائیلی ماہرین اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تعاون سے
جنگی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر مکمل کرنا شروع کی، مگر پرویز مشرف اوربعد
میں آنے والی حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں بلکہ متنازعہ ڈیموں کی تعمیر
کے مقدمات بھی عالمی ثالثی عدالت میں صحیح معنوں میں نہیں لڑے گئے اور
بھارت سے یکطرفہ دوستی پروان چڑھانے کیلئے پاکستان کے اصل موقف کوعالمی
ثالثی عدالت میںپیش ہی نہیں کیا گیا،جس کا نقصان یہ ہوا کہ بھارت ڈیموں پر
ڈیم تعمیر کرکے پانی ذخیرہ کرنے اور روکنے کی صلاحیت بڑھاتا رہا ۔ اس وقت
صورتحال یہ ہے کہ جب پاکستان میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو فصلوں کو پانی
نہیں ملتا اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو بھارت یکدم پانی چھوڑ کر ملک میں
سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والا ازلی دشمن
بھارت 2020ءتک تمام دریاوں کے پانیوں کو اپنی حدود میں ذخیرہ کرنے کے
منصوبہ پر عمل پیرا ہے جس کی تصدیق بھارتی انسٹی ٹیوشن آف انجینئرزنے نیپال
کانفرنس2011ءمیں کرچکے ہیں،جبکہ عالمی ماہرین کی جائزہ رپورٹ کہتی ہے
کہ1922ءسے 1961ءتک تقریباًچالیس سال میں دریائے سندھ میں 93 ملین ایکڑ فٹ
پانی، دریائے جہلم میں 23ملین ایکڑ فٹ اور دریائے چناب میں 26 ملین ایکڑ فٹ
پانی رہ گیا،اس ناقابل تردید جائزہ رپورٹ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے حصہ
میں آنے والے مغربی دریاوں چناب، جہلم اور سندھ کا 56ملین ایکڑفٹ یعنی کہ
5کروڑ 60لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہڑپ کر لیاہے،حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل
3 شق نمبر 1 کے تحت پاکستان کو بغیر کسی پابندی کے مغربی دریاوں کے پانیوں
کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح آرٹیکل 3 شق نمبر 2 میں بھی تاکید
کی گئی ہے کہ بھارت پرلازم ہے کہ وہ مغربی دریاوں کو بہنے دے اور اس حوالہ
سے بھارت کو کسی قسم کی مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہو گا اور وہ ان پر
سٹوریج ڈیم ہرگز نہیں بناسکتا اور نہ ہی کسی دریا اور نالے کا رخ موڑ سکتا
ہے، لیکن بھارت کے جو دل میں آتا ہے وہ کر رہا ہے کوئی اسے پوچھنے والا
نہیں ہے۔
یہی وہ حکومتی کمزوریاں ہیں جس سے غاصب بھارت کے حوصلے بڑھ رہے ہیں، بھارت
نے پن بجلی کی آڑ میں پاکستان کی جانب بہنے والے دریاوں کے 56 ملین ایکڑ فٹ
پانی کا رخ شمال سے جنوب کی طرف موڑنے کی مکمل صلاحیت حاصل کرلی
ہے،یوں1961ءکے مقابلہ میں پاکستانی دریاوں میں دو تہائی پانی کم ہو چکا
ہے،بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی آڑ میں پہلے ہی پاکستان کی طرف بہنے والے
مشرقی دریاوں ستلج، بیاس اور راوی کا 33ملین ایکڑ فٹ پانی روکا اور 12بڑی
نہریں نکال کر راجھستان کا غیر آباد بنجر علاقہ آباد کیا،9ملین ایکڑ فٹ
پانی مشرقی دریاوں کی زندگی، آبی حیات، جنگلی جانوروں، چرند پرند اور ان
دریاوں کے کناروں پر عہد قدم سے آباد کروڑوں انسانوں کے پینے و دیگر گھریلو
استعمال کے لئے مختص تھا ،بھارت نے اُسے بھی روک لیا ہے حالانکہ یونیورسل
ڈیکلریشن1948ءکے آرٹیکل 3 کے تحت یہ پانی بھارت کسی معاہدے اور قانون کے
تحت ہرگز نہیں روک سکتا،مگر کھلی جارحیت اور ہٹ دھرمی کے باوجود پاکستانی
حکمرانوں نے اس مسئلہ پر مجرمانہ خاموشی اور غفلت کا مظاہرہ کیا اورہماری
کرپٹ بیوروکریسی اور نااہل حکومتوں کی وجہ سے بھارت کو دریاوں پر غیر
قانونی ڈیموں کی تعمیر کا موقع ملا اور وہ ابھی تک پاکستانی دریاوں کے
علاوہ مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی جانب بہنے والے ندی نالوں پر بھی ڈیم
تعمیر کر رہا ہے تاکہ پاکستانی پانی ایک ایک بوند کو ترسیں اور وہ بغیر جنگ
لڑے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکے،ایک طرف بھارتی آبی دہشت گردی پورے زور
وشور سے جاری ہے تو دوسری جانب ہمارے حکمران بھارت سے یک طرفہ محبت و دوستی
کی پینگیں بڑھانے کیلئے انہیں آموں کی پیٹیاں بھیج کر ہندو بنیئے کی کاسہ
لیسی میں لگے ہوئے ہیں۔
اس وقت حال یہ ہے کہ بھارت کی جانب مزید پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے
پاکستانی دریاوں میں سیلاب بڑھ رہا ہے ، دریائے چناب میں ہیڈ خانکی اور
قادر آباد کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، جہاں سینکڑوں دیہات
زیر آب آگئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں،اسی طرح دریائے جہلم میں
منگلا اور رسول کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب سے پانی درجنوں دیہات میں
داخل ہو گیا ہے،جبکہ 5 لاکھ کیوسک سے زائد کا ریلا جہلم شہر میں داخل ہو
گیا، ادھر سیالکوٹ کاپسماندہ دیہاتی علاقہ بجوات کا سیالکوٹ سے زمینی رابطہ
منقطع ہوگیا ہے، دریائے جہلم کی قریبی تحصیل ملک وال کے 30 سے زائد دیہات
پانی میں گھر گئے اور زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ
اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے صوبے پنجاب میں کم از کم دس لاکھ سے زائد افراد
متاثر ہوئے ہیں،پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی
تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے،جبکہ سیلابی ریلے میں سینکڑوں مکانات
منہدم، سڑکیںاور ہزاروں ایکڑ رقبے پر مشتمل کھڑی فصلیں الگ تباہ ہو گئی
ہیں، موجودہ سیلاب نے دو ہزار دس کے سیلاب کی یاد تازہ کر دی جو ملک کی
تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 18 ملین
متاثر ہوئے تھے۔
قارئین محترم ! یہ درست ہے کہ آبی تنازعہ پاکستان اوربھارت کا بنیادی مسئلہ
ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نے اس سلسلے میں اپنا فریضہ ادا
کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے،ذرائع ابلاغ اور سیاسی قیادت ایک طویل عرصے
سے بھارت کی آبی دہشت گردی پر آگاہ کرتے رہے ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ارباب
اقتدار کے پاس اس مسئلہ کے حل کیلئے کوئی فوری اور طویل المیعاد منصوبہ
بندی موجود نہیں ہے،جبکہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ روزبروز طول
پکڑتا جا رہا ہے، وہ ایک طرف پاکستانی دریاوں پر غیر قانونی ڈیم بناکراپنی
بنجر زمینوں کو سیراب اور ہمارے ہی دریاوں سے بجلی پیدا کر کے ہمیں فروخت
کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے،ساتھ ہی بارشوں کے دوران ڈیموں میں ذخیرہ کیا
گیا زائد پانی چھو ڑ کر ہمارے لہلہاتے ہوئے کھیتوں اورکھلیانوں کو برباد
بھی کر رہا ہے،یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کوہر تیسرے چوتھے برس سیلابوں
کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر برس آنے والے چھوٹے بڑے
سیلابوں کے طوفانی ریلے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں،مگر
اس کے باوجود مقامِ حیر ت ہے کہ فلڈ کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کو حکومت
نے سردخانے کی نذر کر رکھا ہے۔
دوسری طرف ہماری حفاظتی تدابیر کے فقدان کا عالم یہ ہے کہ پاکستان میں
سیلاب کی ہنگامی اطلاع دینے والے صرف 7 ریڈار ہیں، محض بڑا ڈیم نہ ہونے کی
وجہ سے پاکستان میں اب تک کروڑوں ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو چکاہے، جبکہ بارانی
پانی کو محفوظ کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اگر ملک
میں چھوٹے اور بڑے ڈیموں کا نیٹ ورک موجود ہوتا توکروڑوں ایکڑ فٹ قیمتی
پانی کے ضیاع کو روکا جا سکتاہے، اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کا اقتصادی،
زرعی، صنعتی، دفاعی اور ریاستی استحکام ڈیموں کی تعمیرسے مشروط ہے،چنانچہ
ہم اپنے ارباب اقتدار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ بڑے ڈیموں
کے ساتھ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی ناگزیر ہے اور اسے ہمیں اپنی قومی
ترجیحات میں سرفہرست رکھنا چاہیے اور یہ کہ موجودہ صورتحال پر ہمارے
حکمرانوں کو کسی صورت خاموش نہیں رہنا چاہئے، بلکہ بھارتی آبی جارحیت روکنے
کے لئے بھرپور کردار بھی اداکرنا چاہئے،یاد رکھئے بھارت کے تعمیر کر دہ
متنازہ ڈیم وطن عزیز پاکستان کے دفاع کیلئے سخت نقصان دہ ہیں ،اس لئے حکومت
کو بھارتی آبی دہشت گردی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچناہوگا اور اس کے تدارک
کیلئے عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ |