سیلاب متاثرین 2 ملین سے متجاوز....سندھ کے 8 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ

 پاکستان میں شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو رہی ہے۔ دریائے چناب میں راوی کا 80 ہزار کیوسک پانی شامل ہونے کے بعد انتہائی اونچے کا درجہ کا سیلاب ملتان میں تباہی پھیلاتا ہوا دیگر علاقوں خاص طور پر قریب موجود پنجند کے لیے شدید خطرہ بن گیا ہے۔ منجھی وال بند میں ایک شگاف پڑنے کے بعد سیلابی پانی مظفر گڑھ کی جانب بڑھنا شروع ہوگیا تھا۔ مظفرگڑھ کے ڈی سی کا دعویٰ تھا کہ سیلابی پانی کو شہر کے نواح میں تلہیری کینال کے پشتے پر روک لیا جائے گا، حالانکہ ایسا 1993 میں نہیں ہوسکا تھا، جب شدید سیلاب نے مظفرگڑھ شہر کو ڈبو دیا تھا۔ سیلاب کی شدت سے دوآبہ پر دباﺅ بڑھا، ضلعی انتطامیہ اس میں شگاف ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن اتوار کے روز مظفرگڑھ کو بچانے کے لیے دوآبہ بند میں دھماکا کرکے شگاف ڈال دیا گیا ہے۔ فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن (ایف ایف ڈی) نے آئندہ 36 گھنٹوں کے دوران پنجند کے موقع پر 7 لاکھ کیوسک کے انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی پیشگوئی کی ہے، جس سے مظفر گڑھ اردگرد جنوبی پنجاب کے متعدد علاقوں کے ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ سیلابی پانی شیرشاہ اور محمد والا پلوں کے مقامات پر جمعے کو ڈالے گئے شگافوں کے باعث ملتان ڈویژن میں داخل ہوا اور بڑے پیمانے پر علاقے کے ڈوبنے، آبادی اور فصلوں کو متاثر کرنے کا سبب بنا ہے۔ سیلانی پانی آگے بڑھ رہا ہے۔ مقامی انتظامیہ میں خوف موجود ہے۔ ہزاروں افراد اس وقت دریا کے ڈومر والا پشتے پر بیٹھے ہیں اور وہ وہاں شگاف ڈالنے کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ محمد والا اور شیر شاہ پلوں کے قریب شگافوں سے خارج ہونے والے سیلابی پانی نے متعدد دیہات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ دریائے چناب سے ملتان ڈویژن کے علاقے شجاع آباد، جلالپور پیروالا، خان پور ہمار، گھاگھرا کچھور، حاجی پور اور دیگر علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ شیرشاہ کے قریب محمد پور گوٹھا، بکھری فلائی اوور اور ریلوے کراسنگ کے حافظی پشتوں کو کسی قسم کے نقصان سے پہنچانے کے لیے مضبوط بنایا گیا ہے۔ شجاع آباد میں دریائی کنارے پر واقع درجنوں دیہات کو نقصان پہنچا ہے۔ ہفتے کو پنجند سے تین لاکھ چالیس ہزار کیوسک پانی گزرا، جس سے متعدد دریائے چناب کے کناروں پر واقع متعدد دیہات غرق ہوگئے، اس کے علاوہ خشک دریائے ستلج کے کنارے پر واقع بستیاں بھی ڈوب گئیں۔ ہیڈورکس کے تمام اسپل ویز کھول دیے گئے ہیں، تاکہ سیلابی پانی کے رواں اخراج کو یقینی بنایا جاسکے۔ دریائے چناب میں سیلاب نے دوآبہ کو نشانہ بنایا، مگر ضلعی انتظامیہ وہاں شگاف ڈالنے میں ہچکچا رہی تھی، سیلاب سے شہر سلطان پور اور علی پور میں آدھی رات کو دباﺅ بڑھ گیا تھا، جس کے بعد انتظامیہ نے خطرے کی زد میں آنے والے علاقوں سے لوگوں کے انخلاءکی ہدایت جاری کردی تھی۔ یہ علاقے پہلے ہی ملتان اور جھنگ اضلاع سے کٹ چکے ہیں ۔ حکام نے بتایا کہ چودہ یونین کونسلیں سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں اور ہزاروں افراد خوراک و خیموں کے منتظر ہیں۔

فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن کے مطابق ترابیلاڈیم میں پانی کی آمد 87 ہزار600 اور اخراج 58ہزار کیوسک ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی کی آمد اور اخراج 69ہزار 158 کیوسک ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس اہم ترین ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ایک ہزار 242 کی انتہائی سطح پر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر دونوں ڈیموں میں قابل استعمال پانی کا ذخیرہ ایک کروڑ 36 لاکھ 34 ہزار ایکڑ فٹ پر پہنچ گیا ہے۔ دریائے راوی میں سدھنائی کے مقام پر پانی کی آمد79ہزار843 اور اخراج 64ہزار 843 کیوسک ہے۔ دریائے چناب میں تریموں پر پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 52 ہزار کیوسک ہے۔ دریائے سندھ میں گڈو کے مقام پر پانی کی آمد 2 لاکھ 19 ہزار 654 کیوسک اور اخراج ایک لاکھ 97 ہزار 142 کیوسک، سکھر پر پانی کی آمد ایک لاکھ 35 ہزار 860 اور اخراج 81 ہزار 950 کیوسک جبکہ کوٹری پر پانی کی آمد 25 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔ دریائے چناب میں 6 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا مظفرگڑھ اور شجاع آباد میں تباہی پھیلاتا ہوا ہیڈ پنجند کی جانب رواں دوں ہے۔ ہیڈ پنجند کے قریب 2 عارضی بند رسول پور اور بختیاری ٹوٹ گئے۔ مظفر گڑھ کے علاقے ٹھٹھہ سیالاں میں سیلابی ریلے کے باعث تلیری نہر کا حفاظتی بند ٹوٹ گیا، جس سے درجنوں بستیاں زیرآب آگئی ہیں۔ رحیم یارخان میں نوروالا کے مقام پر سیلابی ریلے کے باعث زمیندارہ بند ٹوٹ گیا، جس سے 25 دیہات زیرآب آگئے۔ پاکستان قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق رواں سال شدید مون سون بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دو ملین سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ مختلف حادثات میں سیکٹروں افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق صوبہ پنجاب میں سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثر ہونے والے علاقوں میں ریسکیو کا کام مسلسل جاری ہے، پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے پاکستان فوج، ریسکیو 1122 اور دیگر محکموں کی مدد سے 276681 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ پاک فوج نے ملتان اور مظفر گڑھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے 3000 افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا ہے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین کو خوراک بھی فراہم کی جا رہی ہے اور اب تک انھیں 15000 کلو گرام راشن مہیا کیا گیا ہے۔ اسی طرح فوج نے سیلاب کے متاثرین کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ملتان اور مظفر گڑھ میں میڈیکل کیمپ بھی قائم کیے ہیں۔ این ڈی ایم کے بیان کے مطابق اقوام متحدہ کے تعاون سے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ہونے والے نقصانات کا ابتدائی جائزہ لینے کے کام کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے مطابق پنجاب میں سیلاب کے باعث 21 لاکھ سے زاید بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئی ہے۔ پنجاب کے 11 اضلاع میں 1954 اسکول اور 51 سے زاید کالجز متاثر ہوئے، ان اسکولز و کالجز کی بحالی کے لیے سرکار کو 7ارب 80کروڑ روپے سے زاید درکار ہوں گے۔ سب سے زیادہ جھنگ میں 426 اسکولز متاثر ہوئے، جبکہ کئی کالجز کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ شیخوپورہ 250 سے زاید، سیالکوٹ 178، چنیوٹ 143، نارووال 80، حافظ آباد 160 او ر دیگر کئی اضلاع میں متعدد اسکولز کو شدید نقصان پہنچا ہے اور کئی اسکولز ختم ہو گئے ہیں، بعض اسکولز ایسے بھی تھے جن کی عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا اور ان کی دوبارہ تعمیرکے لیے اقدامات کرنے کے لیے درخواست کی گئی تھی۔ محکمہ تعلیم حکام کا کہنا ہے کہ 2ہزار کے قریب اسکولز متاثر ہوئے ہیں۔

دوسری جانب دریائے سندھ میں سیلاب کی ممکنہ صورتحال کے تناظر میں حکومت سندھ نے 8 اضلاع میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ ان اضلاع میں کشمور، جیکب آباد، گھوٹکی، لاڑکانہ، سکھر، میرپور، نواب شاہ اور دادو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ کے کنارے کچے کے علاقے سے لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کا عمل بھی جاری ہے اور حکومت نے لاڑکانہ میں اس مقصد کے لیے پانچ طبی کیمپوں سمیت 22 کیمپ قائم کیے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 15 سے 16 ستمبر کے درمیان گڈو بیراج، جبکہ 16 سے 17 ستمبر کے درمیان سکھر بیراج سے چھ سے سات لاکھ کیوسک پانی گزرے گا۔ جبکہ محکمہ صحت سندھ نے ابتدائی طور پر 8 اضلاع کو سیلاب سے خطرہ قرار دیتے ہوئے پورے صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی ہے، جس میں زیادہ توجہ 8 شمالی اضلاع پر دی جائے گی۔ وزیر صحت سندھ نے جمعرات کو ہدایات جاری کی تھیں کہ صوبے بھر میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی جائے، جبکہ ان 8 اضلاع پر زیادہ توجہ دی جائے۔ محکمہ صحت کے ایک ترجمان کے مطابق سیلابی پانی اپنے ساتھ بیماریوں اور مضر صحت عناصر بھی لے کر آتا ہے، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی وزیر صحت نے تمام سرکاری ہسپتالوں اور دیگر چھوٹے مراکز کو ہوشیار رہنے کی ہدایت کی ہے، تاکہ قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔ تعطیلات پر گئے عملے کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کر دی گئی، تاکہ ہنگامی حالات کے خلاف محکمے کی تیاریوں کو بہتر بنایا جاسکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر سیلاب نے شہری علاقوں کی بجائے صرف کچے کے علاقے کو نشانہ بنایا تو ایسی حاملہ خواتین کی تعداد چند ہزار ہوگی، جن کی دیکھ بھال کے لیے بہتر آلات کی ضرورت ہوگی۔ محکمہ صحت چاہتا ہے کہ موجودہ صورتحال سے سندھ میں جاری ویکسنیشن پروگرامز متاثر نہ ہو۔ اپنے وسائل کے ساتھ ساتھ حکومت ڈونرز اور این جی اوز سے بھی رابطے میں ہے، تاکہ طے کردہ اہداف کو حاصل کیا جاسکے۔مبصرین کے مطابق ان حالات کے پیش نظر پاکستان کو مزید ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔ سیلاب نے تباہی پھیلائی اور سیکڑوں لوگ سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں، چند روز میں پاکستان میں سیلاب کی صورت میں کتنا پانی ضائع ہوا، حالانکہ سارا سال ملک میں پانی کی قلت رہتی ہے، اگر ڈیمز بنائے جائیں تو پانی کو محفوظ کر کے سارا سال استعمال بھی کیا جاسکتا ہے اور اتنی بڑی تباہی سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان ہر سال مون سون کی بارشوں سے ہونے والی تباہی سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ہر بار آفت آنے کے بعد آئندہ کے لیے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا جاتا اور ذمہ دار حضرات لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.