ہر ہاتھ میں ہے زہر کا پیالہ

 معاشرہ جس روش پہ چل رہا ہے، اس میں بیمار ذہنوں کی پیداوار ایک لازمی امر ہے۔ انتہاپسندی اور عدم برداشت کے رویے زندگیوں ہی کے چراغ گُل نہیں کر رہے یہ عفریت انسانیت، علم، ہم دردی، یگانگت اور علم وآگہی سمیت تمام روشن اقدار کو نگلے جارہے ہیں۔9 mm کی گولی ہر اُجالے کا نصیب بن جائے تو کہاں روشنی رہے گی۔ اور ہمارے دیس میں یہی ہورہا ہے۔ انتہاپسندی کے اندھیروں کی یلغار اور تشدد کی کالی آندھی اس زور سے چل رہی ہے کہ سب چراغ بجھتے جارہے ہیں۔

نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر کسی کی جان لے لینے کی خوف ناک روایت مذہبی حلقوں سے سیاسی جماعتوں تک ہر جا اپنے منحوس سائے پھیلاچکی ہے۔ اس صورت حال کا سب سے خوف ناک پہلو فرقہ واریت میں شدت اور تشدد کا عنصر آجانا ہے۔ مساجد کی ملکیت اور گلی محلوں میں ہونے والی سرپھٹول سے بڑھ کر اب فرقہ واریت امت مسلمہ کے لیے ماضی کے مقابلے میں کہیں بھیانک ہوچکی ہے۔ فرقہ واریت کو اسلام دشمن قوتیں اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے سیدھی سادی سیاسی اور جمہوری تحریک یا غیرملکی طاقت کے غلبے کے خلاف جدوجہد کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ عراق میں ہوا اور یہی شام میں ہورہا ہے۔

بدامنی کا شکار دیگر ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں واضح ہے کہ کون کر رہا ہے اور کیوں ہورہا ہے، لیکن ہم اس بدقسمت ملک اور بدنصیب شہر کے باسی ہیں جہاں اکثر مرنے والے کو پتا ہوتا ہے کہ اسے کیوں مارا گیا نہ اس کے ورثاء جان پاتے ہیں کہ ان سے ان کا پیارا کس جرم کی پاداش میں چھین لیا گیا اور نہ ہی عوام کے سامنے یہ حقیقت آتی ہے کہ قتل کا سبب کیا تھا؟ ہمارے شہر میں قتل کرنا شاید سب سے آسان عمل ٹھہرا ہے۔ کسی کی بھی جان لے لو، خون مٹی میں جذب ہونے سے پہلے ہی قانون میں دب جائے گا اور لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجائے گا۔ پھر کون قاتل کیسا قتل، ’’نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا۔‘‘ کراچی میں اس وقت صرف لاقانونیت کی صنعت پروان چڑھ رہی ہے۔ اہدافی قتل، دہشت گردی، ڈکیتیاں اور رہزنی کی وارداتوں سے اس شہر کا ہر باسی براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوا ہے۔ اس صورت حال کے باعث کراچی کی پچاس فیصد آبادی مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوگئی ہے۔ یہ ان ہی حالات کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے ملک میں ذہنی امراض وبائی امراض کے مقابلے میں دُگنی رفتار سے عوام کو دبوچ رہے ہیں۔

قتل اور لوٹ مار کے واقعات تو اب اس شہر کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب تو ایک عرصے سے ایسے واقعات کی خبروں کو سرسری طور پر پڑھا اور دیکھا جاتا ہے، لیکن خون سے تر اس فضا اور بدامنی کے شکار اس ماحول میں بھی کوئی واقعہ دلوں کو دہلا جاتا ہے اور ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ ہم یہ سماج میں رہ رہے ہیں؟ ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل بھی ایک ایسا ہی اندوہ ناک واقعہ ہے۔

ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل فقط اُن کے اہل خانہ، احباب اور اُن کے ہزاروں طلبا ہی کے لیے ناقابل تلافی نقصان نہیں، یہ تو پوری قوم اور ریاست کا زیاں ہے۔ ایک اسکالر، ایک استاد، کئی کتابوں کے مصنف، جامعہ کراچی کے اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، ڈی لٹ، تمغۂ امتیاز۔ گویا علم وآگہی اور اعزاز کا شہر مٹادیا گیا۔ سسٹم یا ریاست کئی عشرے اور نہ جانے کتنے پیسے خرچ کرکے ایک اسکالر تیار کرتی ہے، اور اسے چند سو روپے کی گولی یک دم ختم کردیتی ہے۔ ریاست کو اپنے اس ہول ناک نقصان کے بارے میں اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔

یہ سب کہنا تو لایعنی ہوگا کہ قتل کی یہ روح فرسا واردات دن دیہاڑے اور بھری پری سڑک پر ہوئی، کہ ہمارے شہر میں قاتلوں کو نہ دن کی روشنی میں قتل کرتے خوف آتا ہے نہ کسی پُررونق علاقے میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے انھیں کسی کا ڈر ہوتا ہے۔ خوف اور دہشت تو بس اس شہر کے نہتے اور پُرامن باسیوں کا مقدر ہے، چاہے وہ قانون کا خوف ہو یا قاتلوں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں کی دہشت۔

دانش اور علم کا یہ چراغ بجھانے والے کون تھے؟ ڈاکٹر شکیل اوج کو کس ’’جرم‘‘ کی سزا دی گئی؟ ان کے قتل کے پیچھے کیا مقاصد اور محرکات کارفرما تھے؟ ان سوالوں کا جواب تو پولیس کی تفتیش کے بعد ہی سامنے آسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح معنوں میں تفتیش ہو اور مجرموں تک پہنچنے میں کوئی مصلحت نہ آڑے آئے، اور ہمارے یہاں ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔

خبروں کے مطابق ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جس وقت یہ فتویٰ جاری ہوکر گردش میں آیا اس وقت حکومتی ادارے کہاں تھے؟ یہ ایس ایم ایس موبائل فونز پر گردش کر رہے تھے کہ ڈاکٹر شکیل اوج واجب القتل ہیں، اس وقت اس معاملے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا۔ سی پی ایل سی ایسے ایس ایم ایس روکنے کا انتظام کیوں نہیں کرتی جن میں کسی کو بھی واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے؟ موبائل میسیجز اور دیگر ذرایع سے نفرت انگیز، اشتعال انگیز اور کسی کو کافر اور واجب القتل قرار دینے کی عبارتوں کی روک تھام یقینی کیوں نہیں بنائی جاتی۔ کچھ نہیں تو کم ازکم ڈاکٹرشکیل اوج کو سیکیوریٹی تو فراہم کی جاسکتی تھی۔ اس سانحے کے بعد حکم رانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور ایسے فتوؤں کی روک تھام اور ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے خلاف کارروائی یقینی بنانی چاہیے۔

یہ دردناک واقعہ جانے کب تک دل کو نڈھال اور روح کو گھائل کیے رکھے گا۔ کیا قیامت ہے، ڈاکٹر شکیل اوج جیسا نیک سیرت، وسیع المطالعہ، وسیع النظر اور امن پسند عالم اور دانش ور قتل کردیا گیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ہمارے ملک اور خاص طور پر کراچی میں کتنے ہی علمائے دین، اساتذہ، ڈاکٹر اور وکیل خون میں نہلائے جاچکے ہیں۔ علم ودانش اور فکر کی اعلیٰ سطح صاحب الرائے افراد کو جنم دیتی ہے، اور ہمارے ہاں اختلاف رائے اور اظہاررائے ’’واجب القتل‘‘ قرار پائے ہیں۔ اگر یہی ہوتا رہا تو ہمارے یہاں کوئی دانش ور ہوگا نہ مفکر، علمی لحاظ سے بنجر ہوجانے والی اس سرزمین پر ہر طرف سہمی ہوئی خاموشی کا راج ہوگا۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پلانے کے لیے تو عدالت لگی تھی، لیکن ہمارے ہاں ہر شخص ہاتھوں میں زہر کا پیالہ لیے پلانے کو تیار کھڑا ہے۔ ہم تو عدم برداشت کے معاملے میں قبل مسیح کے یونانیوں کے دور سے بھی پیچھے جاچکے ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311960 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.