ریفرنڈم استصواب رائے عامہ کی
ایک شکل ہے اس کے ذریعے حکومت کی پالیسیاں یا مجوزہ قانون کے بارے میں عوام
کی رائے معلوم کی جاتی ہے۔ مثلاً مجلس آئین ساز میں کسی قانون کے بارے میں
اختلاف پیدا ہو جائے اور اسے مقررہ اکثریت سے حل نہ کیا جاسکے۔ یا ملک کی
طاقت ور حزب اختلاف حکومت کے کسی قانون یا پالیسی کی مخالفت کرے اور امن و
امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے تو اس صورت میں حکومت ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی
رائے لیتی ہے۔ ریفرنڈم میں شریک ہونے کے لیے ووٹر ہونا ضروری ہے۔دوسری جنگ
عظیم کے بعد دنیا کے تیس ممالک ریفرنڈم کے ذریعے آزاد ہوئے تاہم کشمیری
عوام سڑسٹھ سال بعد بھی حق خود ارادیت کے لیے ترس رہے ہیں۔ تین سوسات برس
سے برطانیہ کا اٹوٹ انگ سمجھے جانے والے اسکاٹ لینڈ میں بھی بالآخر ریفرنڈم
کا فیصلہ ہوا اوہاں عوام نے رائے دی۔ پچاس لاکھ نفوس پرمشتمل اس خطہ زمین
کے عوام نے تقریباً اسی وقت برطانیہ سے آزادی کی تحریک شروع کی جب 1948 میں
کشمیر کے معاملے پر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے مقابل آئے۔کشمیر پر
بھارت کی جانب سے شب خون مارے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت نے اقوام
متحدہ کی قرارداد کیمطابق ریفرنڈم پرآمادگی ظاہر کی لیکن سرسٹھ برس بعد بھی
معاملہ جوں کا توں ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعددنیا کے تیس ممالک ریفرنڈم کی
بدولت آزادی حاصل کرچکے ہیں ، لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں
لاکھوں افراد کے قتل کے باوجود یہ دیرینہ تنازع آج بھی حل طلب ہے۔برطانیہ
سے علیحدگی حاصل کرنے یا ساتھ رہنے کے لئے تاریخی ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈکے
عوام نے برطانیہ کے حق میں فیصلہ دے کر علیحدگی کو مسترد کر دیا ہے۔ 55
فیصد نے برطانیہ سے علیحدگی کی مخالفت کی جبکہ 45 فیصد نے تاج برطانیہ سے
علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ 32 کونسلز میں سے 26 نے ’’نہ‘‘ کے حق میں ووٹ
دیا جس سے سکاٹش نیشنل پارٹی کو عبرتناک شکست ہو گئی۔ ریفرنڈم میں ووٹروں
سے پوچھا گیا تھا کہ کیا سکاٹ لینڈ کو آزاد ملک ہونا چاہئے۔ اس پر ہاں یا
نہ میں جواب مانگا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق 2,001,926 ووٹرز نے ’’نہ‘‘ اور
1617,989 ووٹرز نے ’’ہاں‘‘ کے حق میں ووٹ دیا۔ اس عمل سے برطانیہ 2 ٹکڑے
ہونے سے بچ گیا۔ سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر ایلیکس سیمنڈ نے شکست تسلیم کر لی
ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد خطاب میں
کہا ہے کہ انہیں اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ برطانیہ متحد رہے گا اور اضافی
اختیارات دینے کے وعدوں کا احترام کیا جائے گا۔سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر
ایلیکس سیمنڈ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ’ یہ کہنا اہم ہو گا کہ
ریفرنڈم کا عمل رضامندی اور منظوری پر مبنی تھا۔ سکاٹ لینڈ کی اکثریت نے اس
وقت علیحدہ ملک بننے کے بارے میں طے نہیں کیا۔برطانیہ سے آزادی کے حق میں
مہم چلانے والی سکاٹش سیاسی جماعتوں میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنما نکولا
نے بھی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر لوگوں کی طرح میں نے
بھی سکاٹ لینڈ کی آزادی کی مہم میں پورے صمیم قلب کے ساتھ کام کیا تھا،
مجھے بھی شدید مایوسی ہوئی۔ ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے باشندوں نے برطانیہ
سے آزادی کے آپشن کو مسترد کردیا ہے۔ اگر سکاٹ لینڈ کی عوام کی اکثریت ملکہ
برطانیہ کے ساتھ رہنے کی مخالفت کر دیتی تو پھر 300 سال تک برطانیہ کا حصہ
رہنے والا سکاٹ لینڈ دینا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی صورت میں وجود میں آ
جاتا۔ 42 لاکھ 85 ہزار 323 ووٹر نے حصہ لیا، ٹرن آؤٹ توقعات سے زیادہ رہا۔
سکاٹ لینڈ میں 5579 پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ امریکی صدر اوباما،
یورپی یونین نے سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کے نتائج پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلز نے کہا کہ سکاٹ لینڈ کے عوام نے برطانیہ
سے آزادی کے خلاف فیصلہ دے کر یورپ کے دیگر خطوں میں خود مختاری کے لیے
جدوجہد کرنے والوں کو واضح اشارہ دیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے فوگ
راسموسن نے کہا کہ انہیں ریفرنڈم کے نتیجے سے خوشی ہوئی ہے۔ اس ریفرنڈم کے
بعد جیتنے والوں میں خوشی اور ہارنے والوں میں غم کی ایک لہر دوڑ گئی۔اسکاٹ
لینڈ کے آزادی ریفرنڈم کے بعد بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں بھی اسی طرز کے
ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے۔قوم پرستی کی شدید لہر کے باوجود اسکاٹ لینڈ کی
اکثریت نے سلطنت برطانیہ سے علیحدگی کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن یہ ریفرنڈم
دنیا کے دیگر خطوں میں بھی چلنے والی آزادی کے تحریکوں کے لیے مشعل راہ بنا
ہے۔ بھارتی زیر کنٹرول کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید عبدالرحمان گیلانی
نے کہا کہ کشمیر میں بھی اسکاٹ لینڈ کی طرز کا ریفرنڈم کروایا جانا چاہیے،
جس میں کشمیری خود یہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
یا نہیں۔ کشمیری ’حق خود ارادیت‘ کے لیے گزشتہ دہائیوں سے نئی دہلی حکومت
کے خلاف جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نئی دہلی حکومت نے بھی اپنے زیر
کنٹرول کشمیر میں فوجیوں کی ایک بڑی تعداد تعینات کر رکھی ہے۔آزادی ہر قوم
کا بنیادی حق ہے اور یہ حق کسی بھی قوم سے چھینا نہیں جا سکتا لیکن بھارت
گزشتہ چھ دہائیوں سے یہی کچھ کر رہا ہے۔ یہ غیر انسانی فعل ہے۔بھارت کو
برطانیہ سے کچھ سیکھنا چاہیے اور کشمیریوں کو یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ
اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر 1947ء سے عالمی
برادری کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر 1989ء کے بعد سے بھارت سے
آزادی کی جنگ میں ہزاروں افرادشہیدہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر تعداد
عام شہریوں کی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی میں انتخابات
کا ڈرامہ استصواب رائے کا متبادل نہیں۔ سکاٹ لینڈ کی طرز پر مقبوضہ کشمیر
میں بھی حق خودارادیت کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی
سطح پر اجاگر کرنے کیلئے بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کے
رہنماؤں نے بھی بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کی طرح وہ
بھی کشمیریوں کو حق رائے دہی کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دے۔ حریت
پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ایک مثال
ہے کہ کشمیریوں کو بھی اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دے کر اس مسئلے
کو پرامن طور پر حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت بھی
اپنی سوچ تبدیل کرتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک کرے گا کہ عوام کے حقوق کو غصب
نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں عوام پرامن طریقے
سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کررہے ہیں۔ حریت کانفرنس کے سربراہ علی گیلانی نے
سکاٹ لینڈ کے عوام کو ووٹ کا حق دینے کے برطانیہ کے اقدام کو سراہا اور
امید ظاہر کی کہ برطانیہ اب بھارت پر بھی دباؤ ڈالے گا کہ وہ کشمیریوں کو
بھی ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے۔ بھارت کو
برطانیہ سے سبق سیکھنا چاہئے اور کشمیریوں کو حق خودارادی دینے کا اپنے
وعدے کی پاسداری کرنی چاہئے۔ جمہوری کرادار اب بھی برطانیہ میں زندہ ہے،
آزادی کا انتخاب کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی قوم سے
نہیں چھیننا چاہئے جب کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں یہ غیر جمہوری رویہ
گذشتہ 60 سال سے اختیار کر رکھا ہے جو غیرانسانی ہے بھارت برطانیہ کے اس
طرز عمل سے سبق سیکھتے ہوئے کشمیریوں کو بھی حق خود ارادیت دے۔ مقبوضہ
کشمیر کے لوگ گذشتہ 6 دہائیوں سے استصواب رائے کا حق مانگ رہے ہیں اوراس کے
لیے جاری تحریک میں اب تک ہزاروں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش
کرچکے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت کشمیر میں
استصواب رائے کرانا کے لیے تیار نہیں۔ |