کہتے ہیں وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے
جب تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے تووہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا ہمارے ساتھ
ایسا بھی ہو سکتاہے۔۔۔ تماشا بنانے والے خود تماشا بنتے ہیں تو ان پر جو
بیتتی ہے وہی جانتے ہیں دراصل یہ مکافات ِ عمل ہے جس کا سامنا کرنے سے
اکثروبیشتر ڈرتے ہیں بیس سال پہلے میاں نوازشریف نے اس وقت کی وزیر ِ اعظم
محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک ِ نجات چلائی تھی1994ء میں یوم ِ نجات
بھی منایا تھاوہ ہر قیمت پرپیپلزپارٹی کی حکومت گرانا چاہتے تھے لیکن ان کی
تحریک ِ نجات ناکام ہوگئی جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق آج میاں نوازشریف
کے خلاف ان کے بدترین مخالف عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری یوم ِ نجات
منارہے ہیں کل بے نظیر بھٹو ہدف تھیں اور آج خودمیاں نوازشریف ہدف ہیں یعنی
تماشا بنانے والے خود تماشا بن گئے مزے کی بات یہ ہے کہ جو باتیں وہ اور ان
کے وزیر مشیر کررہے ہیں بیس سال پہلے بھٹو کی بیٹی زچ ہوکر کررہی تھی۔۔۔۔
لیکن کیا کیجئے وقت بڑابے رحم ہوتاہے جب تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے تووہم
وگمان میں بھی نہیں ہوتا ہمارے ساتھ ایسا بھی ہو سکتاہے۔۔۔ تماشا بنانے
والے خود تماشا بنتے ہیں تو ان پر جو بیتی ہے وہی جانتے ہیں دراصل یہ
مکافات ِ عمل ہے جس کا سامنا کرنے سے اکثروبیشتر ڈرتے ہیں۔۔۔اخبارمیں آیاہے
یہ جو دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہواہے اس پر80000فی منٹ خرچہ آیاہے
یعنی کروڑوں صرف کرکے بھی کسی مسئلے کا کوئی حل تجویز نہیں کیا گیا حتیٰ کہ
سیلاب سے متاثرین کو کتنی امداد دی گئی۔۔حکومت نے اب تلک کیا اقدامات
کئے۔۔۔سیلاب سے بچاؤ کی آئندہ حکمت ِ عملی کیا ہوگی؟ عوام کے منتخب
نمائندوں کو بھی کچھ نہیں بتایا گیایہ توکھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ
آنے والا محاورہ ہوا جسے ہماری حکومت نے پھرسے زندہ کردکھایاہے دھرنے والوں
کے خلاف قرارداد تو پہلے ہی دن منظور کی جا سکتی تھی اور ہمارے پارلیمنٹرین
اس بات پر اتراتے پھرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے
طویل ترین اجلاس کاانعقادکیا اور وہ اس کا حصہ تھے لیکن زیادہ تر ارکان
درباری مسخروں کی طرح میاں نواز شریف کی مدح سرائی کرتے رہے کچھ کا خیال
تھا ہم جمہوریت بچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں کچھ نے فوج پر بھی تنقیدکی
دو معزز ارکان ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگاتے رہے پھر اس کرپشن کو
چھپانے کیلئے روکا گیا سپیکر، وزیراعظم یا کسی نے اس بارے سوال جواب نہیں
کیا۔۔سب پارٹیوں کے ارکان گھی شکر اور شیرو شکرہوگئے۔۔یہ ملک و قوم کی کتنی
بدقسمتی ہے کہ ایک معزز رکن کو بھی ترقی و خوشحالی کی کوئی تجویز دینے کی
توفیق نہیں ہوئی انہوں نے مشترکہ اجلاس کو تماشا بنادیا دھرنا دینے والے
پاکستانیوں کو گولیاں ماری گئیں،ایکسپائر آنسو گیس کے ہزاروں شیل ٹھیک ٹھیک
نشانوں پر پھینکے گئے۔وحشیانہ لاٹھی چارج کیا گیا۔۔پورا پاکستان کنٹینر لگا
کربند کردیا گیا،مظاہرین کا پانی بند کرکے ریڈ رون کو عملاً کربلا بنانے سے
بھی دریغ نہ کیا گیا، کھانالانے والی گاڑیوں کو آنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔
بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔ خوف و ہراس کے ماحول میں ہزاروں کو اذیت
دی گئی بچے، بوڑھے خواتین میں کوئی تفریق نہ روا رکھی گئی ، ہسپتالوں میں
علاج کیلئے داخل رخمیوں کوگرفتار کرنے کی اطلاعات بھی آتی رہیں۔۔۔عمران خان
نے تو17لاشیں غائب کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔۔۔حیف صد حیف جمہوریت کے نام
نہاد چمپئن اپنے آپ کا دفاع کرتے رہے کسی نے اس ظلم و تشدد کے خلاف آواز
بلندکرنا تو کجا بات کرنا بھی پسند نہیں کیا۔۔۔مظاہرین پاکستان کے شہری
نہیں ۔؟ ان کے کوئی حقوق نہیں کیا؟۔۔ کیا ان لوگوں کو وہ وقت بھول گیا جب
سابق وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی پر کرپشن کے الزامات لگے تویہ میاں
نوازشریف ہی تھے جنہوں نے ان سے بریت تک مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا آج
بعینہـٰ ایسا ہی مطالبہ عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری بھی کررہے ہیں جس
کے جواب میں میاں نوازشریف کا کہناہے مجھے18کروڑ عوام نے منتخب کیا میں
5000افرادکے مطالبے پر استعفیٰ کیوں دوں؟۔۔۔جناب یہ ہے مکافات ِ عمل ۔۔۔
ویسے ایک بات ہے اگرواقعی میاں نوازشریف کو پاکستان کے18کروڑ عوام نے منتخب
کیاہے تو ان کے خلاف احتجاج کرنے والے،دھرنا دینے والے اور مخالفین کیا
بارڈرپار سے آئے ہیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک میں میاں نوازشریف کا
ایک بھی مخالف نہیں ہے۔۔ کاروباری ہونے کے باوجود لگتاہے وزیرِ اعظم حساب
کتاب میں خاصے کمزورہیں یا پھر کسی خوش فہمی کا شکار۔۔۔ اسی لئے توانہیں
لگتاہے پورے پاکستان نے انہیں ووٹ ڈال دئیے تھے کوئی پوچھے یہی حقیقت ہے تو
دھرنے دوسرے ماہ میں کیوں داخل ہوگئے ہیں؟مابدولت جہاں جہاں بھی سیلاب
متاثرین کیلئے دوروں پر جاتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو ’’گو نوازگو کے نعرے
‘‘لگاتے ہیں۔۔۔ حکومت اگر عوام کو کچھ ریلیف دینے میں کامیاب ہو جاتی تو
یقین جانئے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک اپنی موت آپ مر جاتی ۔۔ لوگ کبھی
ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان کی آواز پر کان نہ دھرتے دراصل یہ مکافات ِ
عمل ہے جس کا سامنا کرنے سے اکثروبیشتر ڈرتے ہیں۔۔۔عمل کا درِ عمل اور
ایکشن کا ری ایکشن ایک فطری بات ہے اکثرو بیشتر لوگ ماضی سے پیچھا بلکہ جان
چھڑانا چاہتے ہیں لیکن ماضی تو بھوت کی مانند پیچھا کرتا رہتاہے دنیا میں
ہر شخص کو مکافات ِ عمل کا سامنا کرنا پڑتاہے یہی زمین کی تلخ حقیقت
اورزندگی کی بڑی سچائی ہے یہ کیسے ہو سکتاہے کوئی گندم کا شت کرے اور چنے
کی فصل کا طلبگارہو؟۔۔۔ آج کے دور میں حکمرانی تو ایک بڑی سائنس ہے۔۔ایک
آرٹ۔۔۔دلوں پر حکمرانی کرنے والے کسی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے محتاج
نہیں ہوتے۔۔انہیں اپنے اتحادیوں کی بیساکھیوں کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔۔۔وہ
اپنے مخالفین پر تشدد کرنابھی نہیں کرتے۔۔ انکے دور حکومت میں کنٹینر
لگاکرراستے بھی بند نہیں کئے جاتے ۔۔ مظاہرین کا حقہ پانی بند بھی نہیں کیا
جاتا اور جب وہ دوروں پر جاتے ہیں انہیں گو۔۔۔ گو کے نعرے بھی نہیں سننا
پڑتے۔ وہ مکافات ِ عمل کا سامنا کرنے سے بھی نہیں ڈرتے۔۔پاکستان میں
جمہوریت کا بول بالااسی صورت ہو سکتاہے جب جمہوریت کے ثمرات عام آدمی
پہنچیں۔اب تلک تو عوام محرومیوں کا شکاراور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی
محروم چلے آرہے ہیں۔۔سماجی انصاف سے معاشی اور معاشرتی انصاف کسی بھی ادارے
میں میسر نہیں۔۔ بیشتر سیاستدان جمہوریت۔۔۔جمہوریت کا دن رات راگ الاپتے
ہیں مگرپورے ملک میں کسی بھی چھوٹے بڑے شہرمیں پینے کا صاف پانی دستیاب
نہیں۔۔سب سے بڑھ کر امیر اور غریب کے بڑھتے ہوئے فرق نے پاکستانی معاشرے کو
تباہی کے دہانے پر لا کھڑاکیاہے امیر کے پاس لا محدود وسائل اور غریب روٹی
کے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کیلئے حکومتی
اقدامات نہ ہونے کے برابرہیں اور پارلیمنٹ میں بھی ان کے حقوق کی آواز کوئی
بلندنہیں کرتا عوام کوموقعہ ملتاہے تو دل کا غبار ایسے نکلتا ہے جیسے پریشر
ککر پھٹتاہےٍ جب تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے تووہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا
ہمارے ساتھ ایسا بھی ہو سکتاہے۔۔۔ تماشا بنانے والے خود تماشا بنتے ہیں تو
ان پر جو بیتتی ہے وہی جانتے ہیں دراصل یہ مکافات ِ عمل ہے جس کا سامنا
کرنے سے اکثروبیشتر ڈرتے ہیں۔۔۔کل تک مسلم لیگ ن کے کارکن’’ گوزرداری
گو’’کے نعرے حلق پھاڑکر لگایا کرتے تھے آج ملک کے کئی شہروں میں’’گو نوازگو
کے نعرے ‘‘ لگ رہے ہیں پیر صابرشاہ نے تو انتہا کردی اپنے پرائے سب حیرت سے
سینکڑوں مسلم لیگی کارکنوں کو ’’گو نوازگو کے نعرے ‘‘لگاتا دیکھ اور سن رہے
تھے شاید ان کی’’ مت‘‘ ماری گئی تھی کہ انہوں نے ’’ گوعمران گو’’کی بجائے
اپنے ہی وزیر ِاعظم کے خلاف احتجاج کرڈالا مجھے ڈاکٹرطاہرالقادری کے ایک
کارکن نے فون کرکے کہا۔۔یہ ہے آواز ِ خلق۔۔۔جسے نقارۂ خدا کہا جاتاہے
بلاشبہ اﷲ دلوں کو پھیردیتاہے۔۔۔موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی
بجائے ان کو ہائی وولٹیج کرنٹ لگا دیاہے بجلی کے بلوں پر نئے ٹیکس لگا دئیے
گئے ہیں بجلی چوری اور لائن لاسزکا کھاتہ بھی عوام کے میٹروں کے ساتھ
جوڑدیا گیاہے کئی لوگ اسے ڈاکہ زنی سے بھی تعبیر کرتے ہیں بجلی کے بلوں میں
کئی نئے خانوں کی لکیریں ڈال کر نہ جانے کون کون سے ٹیکسز لگا دئیے گئے ہیں
اس سے پہلے عوام ٹی وی فیس، نیلم جہلم سرچارج، انکم ٹیکس،GSTاور نہ جانے
کون کون سے ٹیکس دے رہے ہیں۔۔یہی حال موبائل فون کاہے جتنے کارڈ ری چارج
کریں تقریباًآدھے پیسے ہی پلے پڑتے ہیں عام آدمی انپے حالات سے عاجز آگیاہے
،اشرافیہ کے اثاثے ان کے پیٹ کی طرح بڑھتے ہی جارہے ہیں اور عوام کو آئین ،قانون
اور پارلیمنٹ کی با لا دستی کا سبق دیا جارہاہے ان سے مزیدقربانیاں مانگی
جارہی ہیں، عوام کی کوئی سننے کو تیارنہیں پھر بھی اپنے مفادات کے تحفظ
کیلئے حکمرانوں کو یہ جمہوریت عزیزہے توکیا کہا جا سکتاہے؟کہتے ہیں وقت
بڑابے رحم ہوتاہے جب تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے تووہم وگمان میں بھی نہیں
ہوتا ہمارے ساتھ ایسا بھی ہو سکتاہے۔۔۔ تماشا بنانے والے خود تماشا بنتے
ہیں تو ان پر جو بیتتی ہے وہی جانتے ہیں دراصل یہ مکافات ِ عمل ہے جس کا
سامنا کرنے سے اکثروبیشتر ڈرتے ہیں حقیقت میں یہ ڈر اس وقت تک دور نہیں ہو
سکتا جب تلک حقیقی جمہوریت کا بول بالا نہیں ہو جاتا حالات بتاتے ہیں وہ
وقت جلد آنے والا ہے شاید انقلاب کی آمد آمدہے کہتے ہیں انقلاب دلوں میں
جنم لیتاہے۔۔ مضطرب سینے میں پرورش پاتاہے اورہونٹوں پر نعروں کی مانند
مچلتاہے پھر بے اختیاروں کو نئی زبان مل جاتی ہے جو مکافات ِ عمل کا سامنا
کرنے سے ڈرتے ہیں یہ انقلاب ان کے خلاف جنگ کااعلان ہے۔
|