حیدرآباد شہرسینکڑوں سالوں پر محیط تاریخ
اور ثقافتی ورثہ کا حامل شہر ، جس کی ٹھنڈی شامیں دنیا بھر میں مشہور تھیں
۔ آج بھی ان شاموں کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہے ۔ اس دھرتی کے باسیوں کے
لئے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے ۔ لیکن اس کے وجود پر رعنائیاں جو ماضی میں اس
شہر کی پہچان تھیں آج انہیں تہس نہس کردیا گیا ہے ۔ مختلف سرکاری اداروں کی
ملی بھگت اور ان اداروں کے ملازمین کی ہٹ دھرمی ، کوتاہی ، نااہلی اور عدم
توجہی نے اس شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے ۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ
چکے ہیں کہ تاریخی شہر حیدرآباد اپنی شناخت کھو بیٹھا ہے ۔ لگتا نہیں کہ یہ
سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ شہر کے حالات کو سمجھنے کے لئے ہم اس کی موجودہ
صورتحال آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس سے قارئین بخوبی اندازہ لگاسکیں گے کہ اس
وقت حیدرآباد کے شہر کس قدر کرب و اذیت میں مبتلا ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ ہر دو تین ماہ بعد واسا اور بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد سے
وابستہ ملازمین اپنی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں
اور ان کے احتجاج کاہر بار اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نکاسی و فراہمی آب
کا نظام معطل کرتے ہیں ، شہر میں صفائی ستھرائی اور کچرا اٹھانے کا کام بند
کردیا جاتا ہے ۔ اور اس وقت بھی یہ ہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے نصف سے زائد
حیدرآباد کے رہائشی علاقوں میں نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہوا اور
گندہ پانی سڑکوں پر جگہ جگہ پھیل گیا ۔ شہریوں کو اس صورتحال میں انتہائی
پریشانی کا سامنا کرنا پڑاہے ۔
ہم سمجھتے ہیں تنخواہوں کی عدم ادائیگی متعلقہ ادارے کے اعلیٰ افسران کی
کمزوری اور نااہلی ہے ۔ مزدوروں کو وقت پر تنخواہ اداکرنا ضروری ہے۔ ورنہ
یہ انتہائی غیر قانونی و غیر شرعی عمل ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں واضح ہے کہ
مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی جائے ، لیکن دیکھا
گیا ہے کہ واسا اور بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے ملازمین اکثر اوقات تنخواہوں
کی ادائیگی کے لئے سراپا احتجاج بن جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے شہریوں کو بڑی
اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ضلع حیدرآباد کے عوام پہلے ہی ان دونوں
اداروں کے افسران و ملازمین کی کوتاہی ، نااہلی اور عدم توجہی کی وجہ سے
انتہائی مشکلات کا شکار ہیں ۔ایسے میں اگر یہ لوگ اپنے احتجاج کا تمام غصہ
عوام الناس کو حاصل سہولیات کو ختم کرکے نکالیں گے تو یہ عمل بھی انتہائی
غیر قانونی ہے ۔
دریں اثناۂم واسا اور بلدیہ ملازمین سے بھی کہیں گے کہ جس طرح وہ اپنی
تنخواہوں کے لئے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں جو کہ ہم مانتے ہیں ان کا حق ہے
اگر وہ اسی طرح شہریوں کے حقوق کا بھی احساس کریں اور جن تنخواہوں کے حصول
کے لئے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں وہ تنخواہیں اپنا فریضہ سرانجام دے کر
حلال کریں تو حیدرآباد میں جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر نہ لگے ہوں ،
حیدرآباد کی سڑکیں گندے پانی کے جوہڑ و تالاب کا منظر نہ پیش کررہی
ہوں۔انہیں بھی اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہئے اور بار بار اپنے احتجاج کی
آڑ میں شہریوں کو پریشان اور اذیت میں مبتلا کرنے کی روش بھی انہیں ترک
کرنا ہوگی کیونکہ یہ احتجاج ان کا اپنے افسران کے خلاف نہیں بلکہ حیدرآباد
کے عوام کے خلاف ہوتا ہے ،جس کی قانون میں واضح سزا ہے ، لہذا وہ اپنے حقوق
کے لئے احتجاج کریں لیکن احتجاج کا دائرہ کار اپنے ادارے اور افسران تک
محدود رکھیں ، شہریوں کو اذیت میں مبتلا کرکے تنخواہوں کا حصول نامناسب اور
غیر انسانی عمل ہے ۔
حیدرآباد میں واسا ملازمین کی ہٹ دھرمی اور بلدیہ اعلیٰ کے اہلکاروں و
افسران کی نااہلی و عدم توجہی کی بناء پر حیدرآباد گندگی اور غلاظت کے ڈھیر
میں تبدیل ہو گیا ہے وہاں حیدرآباد کے قدیم گاہ مولا علی روڈ اور اسٹیشن
گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کررہے ہیں ۔گذشتہ کئی روز سے گندا پانی میں
شاہراہوں اور اسٹیشن کے احاطہ پر جمع ہے دوکانداروں اور علاقہ مکینوں کو
اذیت کا سامنا ہے ۔ شاہرایوں ہر ہمہ وقت گندا پانی جمع رہنے کے باعث
کاروبار ٹھپ ہر کر رہ گیا ہے ۔دوکانداروں کا کہنا ہے کہ حیدرآباد شہر میں
سابق ضلع ناظم کے دور میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کرئے گئے تھے لیکن
ضلعی حکومت ختم ہوتے ہی حیدرآباد شہر تباہی کر دہانے پر پہنچ گیا ہے
۔افسران بھاری رشوت کے عیوض سیٹوں پر برجمان ہیں کسی بھی افسر کوشہر کی
کوئی فکر نہیں ہے ۔قدم گاہ مولا علی روڈ ‘اسٹیشن روڈ اور حیدرآباد ریلوے
اسٹیشن گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کررہے ہیں ۔پورے ملک سے مسافروں کی
بڑی تعداد حیدرآباد آتی ہے جس کے باعث انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا
ہے اور حیدرآباد شہر کی عظمت رفتہ سوالیہ نشان بن جاتی ہے ۔قدم گاہ مولا
علی اور سے متصل درگارہ سیدنا سخی عبدالوہاب شاہ جیلانی پر جمعرات اور جمعہ
کو ہزاروں زائرین جاتے ہیں جو گندگی کے باعث بری طرح متاثر ہے اسی طرح
حیدرآباد شہر کے دیگر علائقے اور لطیف آباد میں بھی گندگی و غلاظت کے ڈھیر
اور شاہراہوں پر جمع گندا پانی لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے
۔لطیف آباد نمبر 8تھانہ سے یونٹ نمبر11‘12کی مین شاہراہیں گندی پانی کے
تالاب کا منظر پیش کررہی ہے۔ شاید حیدرآباد کی بدنصیبی کا خیال صوبائی
حکومت کو آگیا ہے اور اسی لئے گذشتہ دنوں صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات
شرجیل انعام میمن حیدرآباد پہنچنے اور انہوں نے نہ صرف حیدرآباد بلکہ صوبہ
بھر میں ناقص صفائی کی صورتحال اور تجاوزات کے قیام کا احساس کرتے ہوئے
ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا اور بتایا 22 ستمبر 2014 سے صوبے بھر میں
صفائی ستھرائی اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے ایک ماہ کی مہم کا اعلان کیا ہے
جس کے تحت سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے عوام میں صفائی ستھرائی اور
تجاوزات کے خاتمے سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے اس مہم کا آغاز کیاجائے
گا اور اس ضمن میں حکومت سندھ نے صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں اور متعلقہ
فریقین کی اتفاق رائے سے حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔ اس مہم کے دوران کسی بھی
سیاسی اور بااثر شخص کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا جب کہ سرکاری افسران
کی جانب سے مہم میں کوتاہی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ان
کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایات پر
اسکیموں کو ضرورت کے مطابق ترتیب دیا جارہا ہے اس ضمن میں حیدرآباد کی ترقی
کے لیے ایک ماسٹر پلان تشکیل دیا جائے گا اور سب سے پہلے صفائی ستھرائی ،
پینے کے پانی کی فراہمی ، ڈرینج نظام کی بہتری تجاوزات کے خاتمے اور سڑکوں
کی تعمیر کے منصوبے شروع کیے جائیں گے ۔ صوبائی وزیر نے تسلیم کیا کہ
حیدرآباد میں سڑکو ں کی حالت بھی انتہائی خراب ہے لیکن ہم ایک جامع منصوبہ
بندی کے تحت ترقیاتی کام کروانا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں پہلے مرحلے میں
تجاوزات ختم کرائی جائیں گی ۔ جس کے بعد ڈرینج اور سیوریج کا نظام بہتر
بنایا جائے گا اور آخری مرحلے میں سڑکوں کا جال پچھایاجائے گا تاکہ کسی بھی
ترقیاتی کام کی وجہ سے سڑکوں کو نقصان نہ پہنچ سکے ۔ ماضی میں سرکاری
زمینوں پر تعمیرات کے لیے این او سی جاری کی گئی جن کی انکوائری کروائی
جائے گی اور اس قسم کی این او سی جاری کرنے والے افسران کے خلاف بھی
کارروائی کی جائے گی اور سرکاری زمینوں سے تجاوزات کو ختم کروایا جائے گا ۔
صوبائی وزیر اطلاعات وبلدیات کی گذارشات و اعلانات یقینی حوصلہ افزاء ہیں
لیکن اس پر قابل اطمینان صورتحال اسی وقت پیدا ہوگی جب صوبائی وزیر اطلاعات
خود اس مہم کا جائزہ لیں اور اس کے ثمرات حیدرآباد سندھ بھر میں دکھائی دیں
۔ بصورت دیگر محض دفاتر میں بیٹھ کر اجلاسوں میں ملنے والی بریفنگ پر مطمئن
ہونے کا کھیل تو برسوں سے کھیلا جارہا ہے اور عوام کے مسائل حل ہونے کی
بجائے بڑھتے ہیں چلے جارہے ہیں ۔ ان کا تدارک زبانی کلامی اعلانات سے نہیں
بلکہ عملی اقدامات سے ہوگا ۔ |