کرکٹ میں کھلاڑی اور سیاست سے اناڑی
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
عمران خان نیازی 25 نومبر 1952ء
کو میانوالی میں پیدا ہوئے ،ہوش سنبھالتے سنبھالتے جب کچھ لکھنے پڑنے کے
قابل ہوئے تو لاہور کے ’’کیتھیڈرل‘‘سکول میں تعلیم حاصل کیں،پھر اعلیٰ
تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلے گئے تو وہاں پر رائل گرائمر سکول میں
تعلیم حاصل کیں اور وہی پر کرکٹ کے ساتھ بھی منسلک ہو گئے اور وہی پر
1970ء کی دہائی میں سولہ سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ سے اپنے کیرئیر کا
آغاز کیا۔پھر جب لاہور منتقل ہوگئے تو 1970ء اور 1971ء میں لاہور کی ہوم
ٹیم کے لیے کئی میچز کھیلے اور 1971ء میں کرکٹ کے ساتھ مستقل طور پر منسلک
ہوگئے،کرکٹ کھیلتے کھیلتے 1973ء سے 1975ء تک آکسفورڈ یونیورسٹی کی بلیوز
کرکٹ ٹیم کے ساتھ وابستہ رہے اور 1982ء کے دوران تیس سال کی عمر میں انہیں
جاوید میانداد کی جگہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی سونپی گئی انہی کی کپتانی
تھی تو پورا ٹیم ان سے بہت خوش تھا اور خان صاحب کپتانی کے اصولوں اور
قواعدو ضوابط کو اچھی طرح جانتے تھے یہاں تک کہ 1987ء میں ان کو ریٹائیر
منٹ ملی لیکن 1987ء کی ریٹائیر منٹ کے بعد ان کو دوبارہ ٹیم میں داخل کر
دیا گیا اور پھر1992ء تک پاکستانی کرکٹ ٹیم میں رہے پھر اسی سن یعنی
1992ء میں عمران خان کی کپتانی میں پاکستان نے انگلینڈ سے ورلڈ کپ فائنل
جیت لیا تو اس وجہ سے عمران خان کو اتنی شہرت ملی کہ کوچہ کوچہ میں بچے بچے
کی زبان پر عمران خان کا نام ہونے لگا ،مگر 1992ء کے بعد عمران خان نے
مکمل طور پر کرکٹ کو طلاقِ مغلّظ دے دیا اور پھر 1996ء کو سیاست کے میدان
میں اتر آئے 1996ء کو عمران خان نے اپنی ایک سیاسی پارٹی ’’پاکستان تحریک
انصاف‘‘ کی بنیاد ڈالی اور بہت سے نوجوانوں کو اپنے ساتھ اس تحریک انصاف
میں داخل کر دیا 1996ء کو پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد 1997ء کو جنرل
الیکشن میں حصہ لیا اور اس دفعہ بھی عمران خان بمقابلہ نوازشریف کھڑے ہوئے
مگر اس دفعہ اس نابالغ سیاستدان کوبری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا،مگر اس
نابالغ سیاستدان نے ہمّت نہ ہاری پھر بھی مستقل طور پر الیکشن میں حصہ لیتے
رہے آخر کار اسی سیٹ پر 2002ء سے 2007ء تک میانوالی کی جانب سے مستقل طور
پر قومی اسمبلی کے ممبر رہے،جب عمران خان نے اپنی پارٹی ’’پاکستان تحریک
انصاف‘‘ کی بنیاد رکھی تو اپنی اس پارٹی کے لیے ایک منشور مرتّب کیا جو کہ
درج ذیل ہے۔
٭اسلامی ریاست کا قیام
٭آزاد معیشت
٭کرپشن کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن لاذ کا آغاز
٭صاف ستھری گورنمنٹ کا قیام
٭آزاد عدلیہ کا قیام
٭ملک میں پولیس کے نظام کو بہتر بنانا
٭مخالف عسکریت پسند سے جمہوریت کو بچانا
انکی پارٹی کا یہ منشور تو بہت ہی اچھا ہے مگر افسوس صد افسوس کی بات یہ ہے
کہ ان کی پارٹی اب اپنے اس منشور پر قائم نہیں ہے اور نہ ہی عمران خان نے
اپنی پارٹی کے اس منشور کو سامنے رکھا ہے یہ تو بس اپنی کرسی کے پیچھے پڑا
ہے اب عمران خان بہ زبان حال یہ کہتا ہے کہ لوگ جانے اور ان کے کام ۔۔۔مجھے
تو بس وزیراعظم کی کرسی چاہئے،خان صاحب کی بس یہی آخری تمنا ہے ،اور اس سے
بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کوئی آدمی لڑکپن سے کرکٹ ٹیم ،بیٹ اور بال کے
ساتھ منسلک رہے تو وہ سیاست کوکیا جانے؟اسی خان صاحب کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ ’’خان صاحب تو کرکٹ میں کھلاڑی ہے مگر سیاست میں اناڑی ہے ۔ہر فن کے
لیے اپنے اپنے ماہرین ہوتے ہیں خان صاحب تو صرف کھلاڑی ہے مگر سیاست سے ان
کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے،اسی نے خود بہ نفس نفیس اپنے پارٹی کے
منشور تباہ کر ڈالا اس طور پر کہ اسلامی ریاست کے تقدس کو تو خود اس نے
پامال کر دیا دوسرے نمبر پر اس نے ملک خداداد کے معیشت کو بھی تباہ کر
ڈالاکہ تقریباًمہئنہ بھر اسلام آباد میں پڑا رہا ساتھ نوجون مرد و عورت بھی
تھے تو واضح بات ہے کہ معیشت کے تباہی کے ساتھ ساتھ فحاشی وعریانی کاسیلاب
بہہ پڑا اور اب یہ سیلاب سندھ کی طرف روانہ ہوا ہے،اسی منتشر مارچ میں جو
بے حیائی کا جبال بچھا گیا تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔
پتہ نہیں کہ ہمارے برے اعمال کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ہم پر ایسے لوگوں کو
مسلط کیا ہے یا کوئی اور وجہ ہے۔؟جسکی بدولت آج ملک خداد کھٹن اور مشکل وقت
سے گزررہا ہے آخر میں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس ملک
خداد،مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قیامت تک قائم دائم ،سرسبزوشاداب اور
غیر کی سازشوں سے محفوظ رکھے(آمین) |
|