کرپشن کو ملک کا کلچر کس نے
بنایا حکمرانوں نے یا عوام نے...؟
کرپشن ملک کا کلچر بن گیا ہمیں بھی کرپشن کا حق ہے.....؟
ہر دور میں ملک میں سارا کرپشن حکومتی اراکین نے کیا ہے.....
غالباً نصف صدی سے ہی ہمارے ملک میں یہ بحث عام ہے کہ پاکستان میں کرپشن کا
ذمہ دار کون ہے؟ حکمران طبقہ ہے؟ یا ملک میں اپنی بڑی اکثریت رکھنے والی وہ
غریب اور مظلوم عوام جو اپنے ہر چھوٹے چھوٹے جائز اور ناجائز کاموں کے
سلسلے میں پاکستان میں کرپشن کے ناسور کو پھیلانے میں پیش پیش ہے یوں یہ
بحث گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے
درمیان چھڑی رہتی ہے اور ہر بحث دونوں (حکمران طبقے اور عوام کی) جانب سے
مدلل دلائل دئیے جانے کے باوجود بھی مثبت نتائج اخذ کئے بغیر ہی ختم ہوجاتی
ہے اور ہر بار بیچاری قوم سے تعلق رکھنے والے غریب اور مظلوم لوگ تشنہ لب
رہ جاتے ہیں کہ کرپشن کو ملک کا کلچر کس نے بنایا ہے؟ حکمرانوں نے یا عوام
نے......؟ اور آج بھی پوری پاکستانی قوم اِس مخمصے میں مبتلا ہے کہ ملک میں
کرپشن کو کلچر کا رنگ و روپ دینے والا کونسا طبقہ ہے۔؟ کہ کرپشن ہمارے
ماتھے کا کلنک کا ٹیکہ بن کر دنیا بھر میں ہماری بدنامی کا باعث بن گیا ہے
جو اَب لاکھ کُھرچنے کے باوجود بھی ہمارے ماتھے سے صاف ہونے کا نام نہیں لے
رہا ہے۔ ایسا آخر کیوں ہے؟ اِس سوال کا جواب اَب ہر محب وطن پاکستان پر
لازم ہوگیا ہے کہ وہ اِس جستجو کی تلاش میں پوری طرح سے لگ جائے کہ ہمارے
ملک کی بدنامی کا باعث بننے والا کرپشن کے ناسور کا یہ کلچر کس طرح سے ختم
ہوگا۔؟
بہر کیف ! اُدھر گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور موجودہ
حکومت کے وزیر مملکت سردار عبدالقیوم جتوئی نے ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل
کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے اپنا سینہ ٹھونک کر اور ڈنکے کی چوٹ
پر یہ کہا ہے کہ ”کرپشن ملک کا کلچر بن گیا ہے اور ہمیں بھی کرپشن کا حق ہے
“اور اِس کے علاوہ اِنہوں نے اِس دوران یہ بھی واضح طور پر کہا کہ فوج کی
کرپشن کوئی نہیں پوچھتا ،خرابیوں کی جڑ اسٹیبلشمنٹ ہے“یہاں سوال یہ پیدا
ہوتا ہے اور میرا اِن سے یہ ہی سوال ہے کہ کرپشن جیسے ناسور کو ملک کا کلچر
کس نے بنایا ہے؟ میرے خیال سے اَس موقع پر اگر وزیر مملکت سردار عبدالقیوم
یہ بھی اعتراف کرتے ہوئے کہہ دیتے کہ ملک میں کرپشن کو کلچر بنانے والے بھی
وہ ہی لوگ (حکمران ) رہے ہیں جو پاکستان پر مختلف ادوار میں اپنی حکمرانی
کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں تو بات واضح ہوجاتی اور یہ لیبل تو کم
از کم ملک کی غریب اور مفلوک الحال عوام کے ماتھے سے ہٹ جاتا کہ ملک میں
کرپشن کے کلچر کو غریب عوام نے پروان نہیں چڑھایا ہے بلکہ پاکستان میں
کرپشن کے کلچر کو اُن حکمرانوں نے متعارف کروایا ہے جو اپنے دورِ اقتدار
میں مختلف حیلے بہانوں سے قومی دولت کو اپنی عیاشیوں اور عیش و طرب کے لئے
لوٹتے رہے ہیں۔ اور قومی دولت کو لوٹ کر دیارِ غیر سیدھار گئے ہیں۔
اور اِس کے علاوہ انہوں نے ایک اور بات جو اپنی اِس گفتگو میں کہی وہ یہ ہے
کہ ہمیں بھی کرپشن کا حق ہے “ تو میں یہاں یہ سمجھتا ہوں کہ جب وزیر مملکت
یہ کہہ رہے ہیں کہ اِنہیں بھی کرپشن جیسے غلط راستے پر چلنے کا حق ہے تو
پھر ملک کی وہ ساڑھے سترہ کروڑ عوام بھلا کیا کرے جو اِن دنوں اِس حکومت
میں اپنی اشیائے ضروریہ آٹا اور چینی سمیت اور دوسری چیزوں کے حصول سے بھی
محروم ہے اِس صورت حال کے پیشِ نظر اَب اگر ملک کی یہ مفلوک الحال عوام
اپنی اِن اشیائے ضروریہ کے حصول کے لئے کوئی ایسا ویسا راستہ اختیار کرے تو
پھر اِس کے بارے میں کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ عوام نے
ایسا کیوں کیا؟ اُسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا؟ اور وغیرہ وغیرہ کیوں کہ یہ
بھی تو ملک کی بیچاری غریب عوام کا حق ہے کہ وہ بھی اِس کرپشن کے کلچر سے
اِس طرح اپنے مسائل کا حل تلاش کرے جو اِس کے بس میں ہے جس طرح وزیر مملکت
نے اپنی سیف سائیڈ رکھتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ہمیں بھی کرپشن کا حق ہے۔ اِسی
طرح سے تو پھر تب عوام بھی کچھ غلط کر کے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ
یہ ہمارا حق ہے۔
اور جہاں تک انہوں نے یہ کہا ہے کہ فوج کی کرپشن کوئی نہیں پوچھتا “تو یہاں
میں یہ عرض کردینا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ پاک فوج پر کرپشن کا الزام
لگانے سے پہلے ہر الزام لگانے والے کو اپنا احتساب خود کرلینا چاہئے کہ وہ
خود کیا ہے۔؟اور کتنے پانی میں ہے؟ کیوں کہ گزشتہ 62سالوں میں کسی سیاست
دان نے یا اور کسی نے اِس ملک اور قوم کے لئے سوائے اِس ملک کے قومی خزانے
کو لوٹنے کے اور کچھ کسی نے نہیں کیا؟اگر کیا ہے تو بتائے۔ اور اِس کے ساتھ
ہی یہ بھی کہ پاک فوج پر کرپشن کا الزام لگانے والے کو یہ بھی خوب اچھی طرح
سے سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری پاک فوج نے اِس ملک اور ملت کی بقا و
سالمیت اور اِس کی خود مختاری کے لئے جو قربانی دی ہے اِس کی مثال کسی بھی
سیاستدان سے نہیں دی جاسکتی کہ کسی بھی سیاستدان نے فوج سے بڑھ کر اِس وطن
عزیز کے لئے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ میں یہاں ایک بار پھر یہ کہتا
ہوں کہ ہماری اِس پاک فوج جس نے ہر آن اور ہر گھڑی اپنے اِس وطنِ عزیز
پاکستان کے لئے کیا کچھ نہیں کیا اور آج بھی ہماری یہ فوج اپنی اِس سوہنی
دھرتی کے لئے عظیم قربانیاں دے رہی ہے اور آئندہ بھی جب کبھی کسی بھی دشمن
کی جانب سے اِس ملک اور قوم پر کوئی بُرا وقت آیا تو انشااللہ ہماری یہ فوج
ہی دشمن کو واصلِ جہنم کرنے کے لئے اپنا سینہ تانے سب سے آگے ہماری سرحدوں
کی حفاظت کے لئے ہوگی۔
لہٰذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک کے کرپشن کے ناسور نما کلچر کے فوری
خاتمے کے لئے ہمارے ارباب اختیار، اپوزیشن رہنماؤں، دانشوروں، تجزیہ نگاروں
اور عوام سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے پر بہتان طرازی اور الزام
تراشی کرنے کے بجائے اِس کلچر کے پسِ پردہ ہونے والے نقصانات اور ہماری
آئندہ آنے والی نئی نسل پر اِس کرپشن کے پڑنے والے بُرے اثرات کے تدارک کے
لئے کوئی دیر پا لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ ملک سے کرپشن کا کلچر ختم ہوسکے
اور ہمارا ملک کرپشن کی لعنت سے پاک ہوسکے ناں کہ ایک دوسرے کے حوالے جات
دے کر خود کو کرپشن کے اِس کلچر کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لئے منصوبہ بندیاں
کرتے پھریں اور پھر یہ مفلوک الحال قوم اِسی شش وپنچ میں مبتلا رہے کہ کیا
بات ہے کہ ہمارے ملک کے حکمران ملک کی غریب عوام کی حالتِ زار بہتر بنانے
کے لئے تو دنیا بھر سے امداد کی بھیک مانگتے ہیں اور جب انہیں دنیا کے امیر
ممالک سے ہم غریبوں کے نام پر امداد کی شکل میں بھیک مل جاتی ہے تو ہمارے
یہی حکمران اور سیاستدان اِس امداد کے ثمرات ہم غریبوں تک پہنچانے کے بجائے
ڈالروں کی شکل میں ملنے والی امداد سے اپنے ہی بینک بیلنس بھر کر نکل جاتے
ہیں اور ملک کی یہ غریب عوام وہیں کی وہیں گُدڑی میں لپٹی پڑی رہتی ہے اور
اِس پر ستم ظریفی یہ کہ اِس کے باوجود بھی ہمارے ملک کا حکمران طبقہ اپنا
کرپشن بھول کر ملک کی غریب عوام پر یہ الزام دھر دیتا ہے کہ ملک میں کرپشن
کلچر کو اِس ملک کی عوام نے پروان چڑھایا ہے اور ہم تو پارسا تھے اور بس
پارسا ہی رہیں گے۔ |