مملکت خدادا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے
67 سال ہوگئے لیکن ہم ابھی تک قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کے مطابق
پاکستان کے مقصد کو نہ پاسکے اگر یوں کہا جائے کہ جو سوچ جو وژن پاکستان کے
بناتے وقت قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کرام کے مدنظر تھا ہم
اس کی گرد کو بھی نہ پاسکے اوائل کے چند سال چھوڑ کر ہم الٹی راہ کے مسافر
بن گئے ہم پاکستان کو صحیح معنے میں جمہوری اسلامی اور حقیقی فلاحی ریاست
نہ بناسکے پاکستان کو بنے 67 سال ہوگئے لیکن آج بھی ان لوگوں کو وہ حق وہ
ملکیت نہ مل سکی جو وہ ہجرت کرکے ہندوستان چھوڑ آئے تھے اور وہ لوگ جن کا
نہ کچھ خرچ ہوا نہ خون بہا وہ بیٹھے بٹھائے سب مالک و مختار بن گئے یعنی
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
آمریت و جمہوریت کی خطرناک لہروں کے درمیان پاکستان کی نحیف و ناتواں کشتی
کسی نہ کسی طرح رواں دواں رہی مگر اب اس ملک کے نام نہاد غریبوں کی سیاست
کرنے والے کھرب پتی لیڈر اسے ڈبونے کے درپے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ بھوکے
ننگے لوگوں کی آخری سانسیں بھی ختم کرکے دم لیں گے مذہب اور ملک بچائو مہم
دراصل ان کے ذاتی مفاد کی جنگ ہے کسی شاعر نے کہا تھا کہ
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنام وطن
ہمارے ملک میں چونکہ خواندگی انتہائی کم ہے اور پیدائش کی شرح زیادہ ہے اس
لئے غول کے غول ان نام نہاد لیڈروں کو مل جاتے ہیں جو ان کے غلط ایجنڈے
پورے کرنے میں ان کے معاون ہوتے ہیں جتنی بھی حکومتیں آئیں غریبوں کو حقیقی
ریلیف نہ مل سکا آمریت یا جمہوریت جو بھی حکومت آئی امیر 22 خاندانوں سے 22
ہزار خاندان ہوگئے اور غریب چار کروڑ سے بڑھ کر 20 کروڑ ہوگئے (ہونے تو
چالیس کروڑ چاہیے تھے لیکن بیس کروڑ بنگالی ہم سے منہ موڑ گئے ) جو بھی
اپوزیشن کی تحاریک چلیں اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکیں اور اس کے فوائد
مواقع پرستوں نے اچک لئے مسلم لیگ اور پی پی پی جمہوری ہونے کا راگ الاپتی
ہیں لیکن وہ اپنے کسی بھی فعل سے خود کو جمہوری ثابت نہیں کرسکتی اور خود
کو جمہوری کہلوانے والے شخصیات کو مضبوط کرتے رہے اور دیو مالائی تصورات کا
ہالہ ان کے گرد بناتے اور اسے مقدس بناتے رہے در حقیقت یہاں عوام کی نہیں
خاندانوں کی حکومت ہے اور زیادہ تکلیف کی بات ہے کہ کوئی اصل کوئی شرم کوئی
بھی بات کوئی عوامی درد ان کو اقتدار کی راہ پر چلنے سے نہیں روک سکتا اور
ان کا آپس میں اتنا مثالی تعاون ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو یہ اس میں موجود
ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو ان کے مامے تائے چاچے بھائی بھتیجے ہوتے ہیں یہ
فائدہ لینے کے ماہر اور گھاٹے میں ہمہ وقت عوام ہوتے ہیں ۔ اسی بات کو
مدنظر رکھتے ہوئے کسی نے دل کی بھڑاس یوں نکالی تھی
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ستم کی بات یہ ہے کہ ان نام نہاد جمہوری لیڈروں بلکہ ان کے قائدین نے کبھی
اپنی جماعتوں میں جینون الیکشن کرانے کی زحمت نہیں کی اکثر جماعتیں اپنے
لیڈروں کو نامزد کردیتی ہیں اور تھکے ہوئے عوام ہاتھ اٹھا کر مان لیتے ہیں
اور دل میں کہتے ہیں کہ
پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے
اب صرف ہاتھ اٹھا دیتے ہیں
غربت بیروزگاری مہنگائی نے غریب کو سوچ سمجھ سے عاری کردیا ہے ان کا پیٹ تو
بھرتا نہیں جمہوریت کیلئے سوچیں الیکشن ان کے لئے میلے کی طرح ہیں 30-40 دن
شور شرابہ چائے پانی عزت دار ہونے کا احساس اس کے بعد مسلسل 5 سال بے عزتی
ان سرمایہ داروں نے الیکشن کو ایسا کھیل بنا کے رکھ دیا ہے کہ غریب اس
گرائونڈ میں آہی نہیں سکتا آجائے تو صرف بارہواں کھلاڑی بن سکتا ہے جو رن
بنانے کیلئے بھاگ تو سکتا ہے مگر کوئی رن اس کے سکور میں شامل نہیں ہوسکتا
ایم این اے سینیٹر ایم پی اے تو دور کی بات غریب تو یونین کونسل کے کونسلر
کا الیکشن نہیں لڑسکتا کروڑوں لاکھوں کی گیم غریب کر ہی نہیں سکتا غریب کو
صرف الیکشن کے دن امیدوار اٹھاتے ہیں پھر امیدوار پانچ سال ان غریبوں کی
گردن پر طوق کی طرح لٹکا رہتا ہے ایک ممبر اسمبلی حکومت کو ماہانہ دس لاکھ
سالانہ ایک کروڑ اوسطاً میں پڑ تا ہے 1500 اراکین اسمبلی سالانہ 1500 کروڑ
کھاجاتے ہیں غریب کے پلے 15 ہزار سالانہ نہیں پڑتے غریب عوام کو کوئی ریلیف
نہیں ملتا جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کیلئے کیا
ہمارے ملک میں ایسا ممکن ہے ؟ غربت کا جن مہنگائی کا دیودھاڑ رہا ہے کرپشن
کی ڈائن مہنگائی کی چڑیل ننگا ناچ کررہی ہے غریب کے بچے مرر ہے ہیں پولیو
زدہ ہو رہے ہیں بازاروں میں بک رہے ہیں تعلیمی سہولتون سے محروم ہیں صحت ان
کے نصیب میں نہیں دوائیاں ملتی نہیں اور تو اور اپنی شناخت کیلئے سینکڑوں
ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑ جاتے ہیں ب فارم بنانے کیلئے 500 روپے نادرا والے
لے لیتے ہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال سے آپ کو گلوکوز کی بوتل نہیں مل سکتی پٹواری کو
خیر دیے بغیر آپ کی خیر کی توقع فضول ہے اوپر سے نیچے تک کرپشن کی غلاظت
میں ہم ڈوب چکے ہیں پائوں کے ناخن سے لیکر سر کے بال تک لتھڑ چکے ہیں
حکمرانوں کے کچن کا خرچہ کروڑوں میں غریبوں کو روٹی بھی نصیب نہیں یوں لگتا
ہے کہ آزادی نے غریبوں کو مزید غریب اور بھوکا کردیا ہے اور غربت انسان کو
کفر کے نزدیک کردیتی ہے جبھی تو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ
یہ آزادی جھوٹی ہے
ساری جنتا بھوکی ہے
دراصل ہم غریب عوام کو صحیح معنوں میں آزاد ہونے کی ضرورت ہے آج جب کہ ملک
میں جمہوریت یعنی عوام راج ہے لیکن جمہوریت کے متوالے جو بظاہر جمہوریت کے
چیمپئن ہیں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں کوئی خود کو جمہوری اقدار کا
محافظ کہہ رہا ہے کوئی خود کو غریب عوام کا محافظ ہونے کا یقین دلارہا ہے
آج اسلام آباد کی سڑکیں جمہوریت زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہیں روزانہ
دونوں الزامات کے گولیء اپنی اپنی توپوں سے داغ رہے ہیں لیکن سوائے اس کے
کہ 1000 ارب کا نقصان ہوچکا ہے کوئی فائدہ اب تک عوام کو نہیں ہوا جو گند
عوام نے شاہراہ دستور پر انڈیلا ہے دراصل اس گند کے حق دار مفاد پرستوں ابن
الوقتوں سیاستدانوں کی خواب گاہیں اور دفاتر ہونے چاہیں جہاں بیٹھ کر وہ
غریبوں کا حق کھا جاتے ہیں ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے فارمز اور جاگیریں ہونی
چاہیں جہاں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر وہ ماضی کی عیاشیوں کو یاد کرتے ہیں
ان آمروں کے ولاز ہونے چاہیں جنہوں نے غریب عوام کو اپنے جبر کے سائے تلے
رکھا غریبوں کو کوڑی کوڑی کا محتاج کردیا اقوام عالم میں پاکستان کو باعزت
جمہوری صف سے نکال کر آمریت کا دلدادہ کردیا ہے اور جمہوریت کیلئے اتنی
قربانیوں کے باوجود ہماری عوام کو جمہوری عوام نہیں بننے دیا اور اس بات کو
آمریت نواز جرنیل یوںکہتے ہیں کہ اگر عوام اور جہوری لیڈر فیصلے کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں تو انہیں یہ بات ثابت کرنا پڑے گی ؟ اگر عوام کو شروع سے
ہی اپنے فیصلے خود کرنے دیے جاتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی اس میں آمر ہی شریک
نہیں خود وہ حکمران بھی شریک ہیں جو خود کو جمہوری کہتے ہیں وہ خود آمریت
کے دلدادہ اور بھیانک کردار کے مالک ہیں انہوں نے کبھی عوام کو اختیارکا
مالک نہیں بننے دیا آج اگر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کے لائق
نہیں تو وہ بہت بڑا جھوٹ بول رہا ہے پاکستان کے عوام سے زیادہ جمہوری دنیا
میں کوئی نہیں ہے جو لوگ دنیا کے پانچویں نمبر کے سخی ہیں وہ کسی کا حق
کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے آج بھی آپ پاکستان کے معاشرے کا جائزہ لیں تو
انسانیت سے محبت کے نمونے آج بھی آپ کو نظر آجائیں گے کہیں کوئی حادثہ
ہوجائے لوگ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں خون دینے جمع ہوجائیں گے سیلاب میں
اپنے بھائیوں کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں اسلام اور آقا کریم ۖ کے
نام پر اپنی جان لٹا دیتے ہیں پاکستان کی حفاظت کیلئے اپنے جسموں پر بم
باندھ دیتے ہیں جمہوریت کے تحفظ کیلئے شاہی قلعے کی قید کاٹتے ہیں اور
پھانسی کا پھندہ چوم کر ہنس کر پھانسی چڑھ جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ حقیقی
جمہوریت کب آئے گی ؟ اس کا واحد جواب یہ ہے کہ جب لیڈر شپ عوام میں سے آئے
گی یعنی پرخلوص لیڈر شپ جنہیں عوام کے درد کا احساس ہو جو عوم کی مشکلات کا
سمجھتے ہوں جو مزارعوں کسانوں مزدوروں کی مصیبتوں آلام و پریشانی کو قریب
سے جاننے والے ہوں جو پاکستان کی نصف آبادی یعنی عورتوں کے جائز اسلامی
حقوق کا ادراک رکھتے ہوں جو 8 کروڑ آدمی آبادی یعنی 20 سال سے کم نوجوانوں
کے ذہن کو سمجھتے ہوں جو پاکستان کیلئے جی مر ہوسکتے ہوں جو پاکستان کو
کرپشن فری بناسکیں وہ لوگ آئیں گے تو پاکستان کے حالات سدھریں گے عوام کو
خود پر اعتماد کرنا ہوگا سٹیٹس کو توڑنا ہوگا سرمایہ داروں اور جاگیرداروں
کا الیکشن میں بائیکاٹ کرنا ہوگا خود اپنے آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے نمائندے
منتخب کرنا ہوں گے جب بغیر پیسے لگائے میرٹ پر نمائندے منتخب ہوں گے تو وہ
عوام کو یقیناً جواب دہ ہوں گے یہاں الیکشن کی صورت حال سب کے سامنے ہے جب
سرمایہ دار لاکھوں لگائیں گے تو ظاہر ہے وہ کروڑوںکمائیں گے عوام کے ٹیکسوں
سے جمع شدہ مال سے عیاشیاں وہی کرتے ہیں وہی عوام کے مال پر ڈاکہ ڈالتے ہیں
جو عوام کو گونگا بہرہ بے حس سمجھتے ہیں جو خود کو کسی کے آگے بھی جواب دہ
نہیں سمجھتے آج تعلیم کی ضرورت ہے شعور میں اضافہ کی ضرورت ہے ووٹ کی اہمیت
کو سمجھنے کی ضرورت ہے آج پاکستان میں لیڈروں کی کمی نہیں ہے تو قومی اور
عوامی لیڈروں کی وہ آسمان سے نہیں اتریں گے اسی قوم سے چننا پڑیں گے
پاکستان میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ہے توصرف اعتماد کی ہمیں نچلی ترین
سطح کے اجلے ایماندار بندے تلاش کرنے ہیں جو خوف خدا رکھتے ہوں یہ کام
زیادہ مشکل نہیں اگر صرف معاشرے میں سکول ٹیچروں اور مساجد کے خطیبوں کے
ذمے یہ کام لگادیں تو ایسے ہزاروں نیک افراد چننے میں وہ مدد کریں گے پسے
ہوئے مظلوم طبقات میں سے انتھک متحرک ایماندار شخص انشاء اللہ عزوجل آسانی
سے مل جائیں گے ہمیں مسلسل یہ عمل کرنا ہوگا جب کہیں جاکر معاشرے کے اہل
ترین افراد قیادت کیلئے سامنے آئیں گے کیونکہ
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سوبار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوں
جب اہل ترین ایماندار افراد سامنے آئیں گے تو یقیناً ایک فلاحی معاشرہ عمل
میں آئے گا اس سارے عمل میں میڈیا اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے جب
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ایمانداری محنت اور لگن سے معاشرے اور حکمرانوں کے
سامنے عوامی مشکلات کے حوالے سے مسلسل سوال رکھے گا تو یقیناً سوچنے والے
اذہان اس پر غور کریں گے عوام کا استحصال جہاں پر بھی ہو اگر آج میڈیا کے
دور میں اس پر گرفت ہوگی میڈیا سوال اٹھائے گا تو یقیناً عوام اس کے جواب
اپنے نمائندوں سے ضرور مانگیں گے آج ہمیں ضرور یہ سوال اٹھانا ہے کہ تمام
ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کریں عوامی نمائندے عوام کو بہترین
طریقے سے ہینڈل کرسکتے ہیں ہمیں خوف اور خبر سے نجات حاصل کرنا ہوگی تھانہ
کچہری کی سیاست بند اور انتظامی اداروں کو عوام کا خادم بنانا ہوگا جمہوریت
10-20 سال میں نہیں آتی قومیں 50-100 سال میں بنتی ہیں صرف تسلسل چاہیے
برداشت اور صبر سے کام لینا ہوگا ایک دوسرے کے حقوق کا ادراک اور تحفظ کرنا
ہوگا ہم دوسروں کو عزت و احترام دے کر ہی عزت حاصل کرسکتے ہیں اگر آئین کے
شق 62-63 پر ہی ایماندار سے عمل کرلیا جائے ۔تو صالح قیادت کا حصول مشکل
نہیں ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ کام ہمیں خود کرنا ہوگا ہر قسمی فرقہ واریت
ہمہ قسمی تعصب لسانیت کو ختم کرکے صرف اسلام اور جمہوریت کیلئے انتھک کام
کرنا ہے اگر ہمیں پاک سرزمین کو خوشحال کرنا ہے تو یہ بنیادی بات ہے کہ عام
آدمی کی خوشحالی کیلئے کام کرنا ہوگ ہمیں ایک قوم بنا کر سوچنا ہوگا کیونکہ
اپنے آپ سے اوپر اٹھ کر حشر اٹھائے جاسکتے ہیں
ہم ہی کم پڑتے ہیں ورنہ دئیے جلائے جاسکتے ہیں ۔
پاکستان اسلام کے نام پر جمہوری طریقے سے ووٹ کے ذریعے قائم ہوا تھا صرف
ایک لیڈر صرف ایک قائد اعظم محمد علی جناح جیسا لیڈر ایک بار پھر اس قوم کی
تقدیر بدل سکتا ہے اگر جذبہ ہو تو ہر شخص قائد اعظم کی تصویر ہے اگر ہم میں
تقدیر بدلنے کا جذبہ موجود نہیں تو بیس کروڑ آدمی ملکر بھی قائد اعظم کے
خلوص کو نہیں پہنچ سکتے یاد رکھیں ہر شخص خود کو ذمہ دار سمجھ کر ہی دنیا
کی صف میں پاکستان کو باوقار ذمہ دار ملک بناسکتا ہے اور عام آدمی کو
افتخار دلاسکتا ہے اللہ عزوججل اپنے حبیب پاکۖ کے صدقے ہمیں آسانیاں عطا
فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق آمین بحرمت سید المرسلین ۖ ۔ |