شریف برادران استعفیٰ کیوں دیں؟

یہ ٹھیک ہے کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر ان کی طرف انگلی بھی اٹھی تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ شاید اس لئے کہ انہیں امید تھی کہ ماضی کی طرح اب بھی جج ان کا لحاظ کریں گے اور کوئی جج ان کے بارے میں جانتے بوجھتے بھی کچھ نہیں لکھے گا مگر انہونی ہو گئی۔ جناب جسٹس باقر علی پر مشتمل سنگل بنچ نے انہیں بھی شریک ملزم قرار دے دیا۔ اب مقدمے کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد مستعفی ہونا تو پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ محترم نواز شریف کے خلاف بھی اسلام آباد میں قتل کا مقدمہ درج ہو چکا۔ اب استعفیٰ دیا نہیں جا سکتا۔ لیا جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

رحمن ملک کہیں یا کوئی جج یہ بیان دے کہ مقدمہ کے اندراج کا مطلب کسی کو مجرم قرار دینا نہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس کسی کو گرفتار نہیں کر سکتی۔ پہلے تفتیش ہو گی، جرم ثابت ہو گا تو کوئی گرفتاری ہو گی۔ مگر یہ سبھی لوگ آزما کر دیکھ لیں۔ پولیس کے نزدیک ایف آئی آر کا اندراج ہی کسی کو گرفتار کرنے کا حکم نامہ ہے۔ میاں برادران آج استعفیٰ دیں۔ اگلے دن حوالات میں ہوں گے اور سارے جانثار غائب۔ کوئی مڑ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ یہ اقتدار ہی کا کمال ہے کہ میاں برادران کی طرف پولیس نہیں دیکھ رہی بلکہ ان کا جانثار گلوبٹ بھی رہا ہو گیا ہے۔ حالانکہ وہ بھی قتل کے مقدمے میں نامزد شریک ملزم ہے۔

آئین، قانون، ضابطے سب وہی ہیں۔ مگر ان کی تشریح ہر ادارہ اور اس کا رکن اپنی روایات کے مطابق کرتا ہے۔ ایک ادارے اور اس کے ارکان کو پتہ ہوتا ہے کہ دوسرے ادارے کے ارکان قانون اور ضابطوں کی تشریح اور استعمال غلط کر رہے ہیں مگر کوئی بھی دوسرے کے معاملات میں دخل دینا مناسب ہی نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ہرقانون اور ضابطے کو اپنے انداز اور مفاد میں دیکھتی اور اسی طرح پر عمل کرتی ہے۔ عدالتیں جانتی ہیں کہ یہ غلط ہے مگر اسے یکدم غلط قرار نہیں دیتیں۔ پولیس اپنا کام دکھا کر فارغ ہو چکی ہوتی ہے تو عدالتیں ایک لمبے طریقہ کار کے بعد ان اقدامات کو غلط قرار دیتی ہیں۔ اتنی دیر میں اس غریب کا جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ پولیس افسر عوام کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پتہ ہوتا ہے۔ عوام کے دکھوں کا احساس بھی ہوتا ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ اخبارات میں کبھی کبھی سرخیاں نظر آتی ہیں کہ فلاں جج نے فلاں افسر کو توہین عدالت کا نوٹس دیا مگر ایک معمولی معذرت کے عوض بعد میں نہ تو کوئی نوٹس نظر آتا ہے اور نہ سزا۔ کسی جج نے کبھی اتنی جرات نہیں کی کہ مجرم حاضر پولیس افسر کو سزا دے۔ پولیس کے ظالم اور کرپٹ افسروں کو بھی اس روٹین کا پتہ ہے اس لئے وہ اپنی روٹین نہیں بدلتے۔ البتہ کوئی کمزور نظر آئے تو پولیس تو پولیس، قانون اور قانون والوں کی گردن میں توہین عدالت کے نام پر سریا نہیں آتا۔ وہ خود سراپا سریے کے ہو جاتے ہیں۔ مگر شریف خاندان کے بارے میں بھی لوگوں کا عام تاثر یہی تھا کہ سب قانون ان کے لئے موم کی طرح ہیں شاید اسی لئے جج حضرات کو ان کے کیس سننے اور ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دینے میں بہت سے امر مانع ہوتے ہیں۔

پولیس کے ضابطوں کی بات چلی تو یاد آیا ایک شخص بھاگم بھاگ تھانے میں پہنچا کہ کوئی شخص اس کا پیچھا کر رہا ہے اور اسے مارنا چاہتا ہے۔ اسے کسی طرح مرنے سے بچایا جائے۔ تھانے دار نے مسکرا کر جواب دیا۔ ہم اندیشوں اور وسوسوں پر کارروائی نہیں کرتے۔ آپ ایسا کرو ہمت کر کے باہر نکلو وہ شخص جو تمہارے پیچھے آ رہا ہے اور تمہیں مارنا چاہتا ہے یقینا تم پر حملہ کرے گا۔ تم مرو یا زخمی ہو میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم فوری کارروائی شروع کر دیں گے۔ مگر کچھ ہو تو سہی۔ ایک اور واقع میں پولیس نے یکدم ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ اس کے خلاف ایک ایف آئی آر درج ہو گئی ہے۔ وکیل نے ایف آئی آر دیکھ کر کہا یہ تو کیس ہی نہیں بنتا۔ تھانیدار نے جواب دیا یہ تو مجھے بھی پتہ ہے مگر کورٹ کا آرڈر ہے اس لئے ایف آئی آر کاٹی۔ اب روٹین میں اس کا ریمانڈ ہو گا۔ پھر ضمانت ہو گی اور عدالت چاہے تو کیس اسی دن خارج ہو جائے گا مگر ایف آئی آر درج ہونے کی قیمت تو چکانی ہو گی۔

میں ایک سیشن جج سے بات کر رہا تھا کہ کیس نہیں بنتا مگر آپ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیتے ہیں۔ درخواست کو پڑھتے نہیں۔ کہنے لگے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ عجیب حکم جاری کیا تھا کہ کوئی بھی درخواست دے ہم لوگوں کو اس پر اندراج مقدمہ کا حکم دینا ہوتا ہے۔میں نے پھر پوچھا جھوٹی درخواست پر بھی۔ جواب ملا۔ پتہ ہوتا ہے کہ درخواست جھوٹی ہے مگر درخواست گزار باہر بیٹھے وکیلوں سے درخواست بھی اس طرح کی بنوا کر لاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ جرم نظر آتا ہے۔ درخواست میں کی گئی بات سچ ہے یا جھوٹ ہمیں اندازہ ہو بھی جاتا ہے مگر ہم اس پر جرح نہیں کر سکتے بس اندراج مقدمہ کا حکم دینے پر مجبور ہیں۔ سپریم کورٹ کو اس فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

بات تھی نواز شریف کے استعفیٰ کی۔ موجودہ حالات میں شریف برادران اقتدار نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کے خلاف درج ایف آئی آر اقتدار چھوڑنے پر ان کے لئے عذاب بن جائے گی ۔ ان کے ذاتی مفادات اور ان کا ذاتی کاروبار مشکل کا شکار ہو جائیں گے۔ ہر چیز ان کے خلاف نظر آئے گی۔ مگر حالات بدل چکے۔ ان کے اقتدار میں رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ شاید ان سے استعفیٰ لیا جائے گا۔ مگر کیسے۔ فوج مداخلت کرتی نظر نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے کہ بہت مجبور ہو جائے حالات اسی نہج پر جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی کوئی فیصلہ دے سکتا ہے مگر کوئی بات حتمی نہیں کہی جا سکتی۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ بہت جلد کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔ کیا آئے یہ وقت بتائے گا اور پوری قوم کو اس وقت کا شدت سے انتظار ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500756 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More