فرشتہ اجل کی اک پھونک کی محتاج سانسوں کی ڈور،زندگی،کاسہ
حیات،زیست مختصر،تار نفس کے انداز نرالے ہیں،اس صداقت سے انکار کیسے ممکن
ہے کہ انسان فطرت کے بہت سے گہرے رازوں تک رسائی پا چکا ہے اور دن رات اسی
جستجو میں ہے،وہ اپنی کوشش اور لگن میں ایک طرف آسمان کو چھوتی چوٹیوں کو
اپنے پاؤں تل روند چکا تو دوسری طرف زمین کے اندر پاتال تک جا کر جی ہاں
پینتیس ہزار سے لیکر پچھتر ہزار میٹر تک کھدائی کر کے تیل نکال رہا ہے ،ایک
طرف چاند سے گزر کر مریخ پر جا پہنچا تو دوسری طر ف مصنوعی بارش اور
سمندروں کے سمندر کنگھال رہاہے لیکن یہ سب کچھ ایک منظم اور مربوط قوت اور
ہمت کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے،جوں جوں وقت تبدیل ہوتا گیا انسانی معیارات
اور میزان بھی تبدیل ہوتے گئے،آج کسی کوبے وقوف بنانا مشکل بلکہ
تقریباناممکن،کبھی لفظوں کے جادو گر انسانوں کو ہپناٹائز کر لیتے تھے ،لوگ
اپنی مرضی کامنجن تیار کر کے مرضی کے دام وصول کر لیتے تھے، وہ دور چلا گیا
مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا جو آج بھی سمجھتے ہیں کہ اپنی پسند کا سودا تیار
کر کے من مانے ریٹس ہر فروخت کر لیں گے،بے خبروں کو پتہ ہی نہیں کہ زمانہ
قیامت کی چال چل گیا اور وہ ابھی تک کچھوے کی رفتا ر چھوڑنے کو تیار
نہیں،آج کوئی بات چھپانا یا دبانا ممکن ہی نہیں رہا،اول تو خود ہی بولتے
بولتے پھسل جاتے ہیں نہ بھی بولیں تو الیکٹرونک میڈیا (پرویز مشرف کا واحد
قابل تعریف کام) ،ڈویژن اور ضلعوں کے علاوہ تحصیل سطح تک جڑیں رکھتے نیوز
نیٹ ورک،انتہائی نا معقول معاوضوں پہ دیمک کی طرح ہر کھڑکی اور روزن تک
رسائی رکھتے رپورٹرز اور کیمروں کے ہوتے اب کچھ چھپانا ممکن ہی نہیں رہا
اور اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو لازم ہے کہ اپنے دماغ کا طبی معائنہ
کرائے،انقلاب اور آزادی کی رتھوں پہ سوار وں نے سوچا ہم سب کچھ کر گزریں گے
کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو گی،تیرہ مارچ سے ایک ایک دن اور ایک ایک
حرکت کا موازنہ کریں تو پانچویں جماعت کے بچے کو بھی سمجھ آجائے کہ ان
دھرنوں کی آڑ میں اصل مقاصد کیا تھے ، قوم نے اب ان کے عزائم اچھی طرح
بھانپ لیے ہیں کہ یہ کیا چاہتے ہیں اور ان کی ڈوری کس کے ہاتھ میں ہے،دونوں
نے بیک وقت ایک ہی قسم کا اعلان کیا اور کہا گیا یہ محض اتفاق ہے اب
اتفاقات دیکھئے ایک لندن میں پہنچا دوسرا بھی اتفاقاً وہاں آ نکلا ،دونوں
کی غیر ملکیوں کی موجودگی میں ہوٹل میں اتفاقاً ملاقات ہو گئی،ایک نے لاہور
سے اپنی جدوجہد شروع کرنیکا اعلان کیا تو اتفاقاًدوسرے نے بھی لاہور سے ہی
اعلان کر دیا،اتفاق سے ایک صاحب نے جشن آزادی کے دن کا انتخاب کیا تو دوسرے
صاحب نے بھی 14اگست لاہور میں منانے کا اعلان کر دیا،ایک صاحب نے شام کو
اسلام آباد کیلئے رخت سفر باندھا اتفاقاً اسی وقت دوسرے صاحب نے بھی روانگی
کا حکم دے دیا،اب آگے عجیب اتفاق ہوا مولانا کینیڈا آگے تھے جبکہ آزادی خان
پیچھے مگر مندرہ کے قریب عجیب اتفاق ہوا کہ خان صاحب رانگ سائیڈ سے آگے نکل
گئے نہ صرف خود بلکہ پورا لشکر اور اتفاق دیکھئے کہ نہ کوئی سڑک بلاک ہوئی
نہ رستہ بند ہوا،اتفاقاً دونوں جلوس ایک ہی وقت میں اسلام آباد پہنچے،ایک
ہی طرح کی دو کھلی سڑکوں پر قبضہ کیا،اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر اور حمایت کے
لیے بے جا اور بے تکے نعرے لگائے،اتفاقاً دونوں طرف سے اعلان ہوئے کہ پولیس
کو گلی مار و مگر فوج زندہ باد ،خود فوج حیران پریشان ہو گئی کہ اس بے تکی
مداحیت پہ میں روؤں یا ہنسوں کروں میں کیا کروں والی کیفیت بن گئی،دونوں نے
قوم کو چوبیس گھنٹے کبھی چھتس گھنٹے اور کبھی دو دن کے بعد خوشخبریا ں ملنے
کی آس امیدیں دلائیں،ایمپائرکی انگلیوں کے اٹھنے کے مژدے سنائے دوسری طرف
ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام جمہوری قوتیں،سول سوسائٹی،وکلا،عدلیہ ،فوج
اور میڈیا اپنی جگہ ڈٹ گئے کہ کوئی بھی غیر جمہوری اور غیر آئینی راستہ نہ
اختیار کیا جائے گا نہ برداشت کیا جائے گا،جس سے ان کے غیر ملکی سرپرستوں
کو شدید ترین دھچکا لگا،پھر دونوں کو ایک اتفاق نے بیک وقت ریڈ زو ن داخلے
پر مجبور کر دیا،پھر اگلا اتفاق وزیراعظم ہاؤس کے اندر گھسانا چاہتا تھا کہ
حکومت کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ڈنڈے اٹھائے وزیر اعظم ہاؤس
فتح کرنے والا لشکر پورس کے ہاتھیوں کی طرح واپس لشکر کی طرف پلٹ پڑا ،دونوں
کنٹینرز بردار کنٹینروں میں دبک گئے اور پھر اتفاقاًدونوں کنٹینروں کے
ساؤنڈ سسٹم سے اعلانات ہوئے کہ ہمارا ارادہ وزیر اعظم ہاؤس کی طرف جانے کا
ہر گز نہیں تھا،پھر اتفاقاً دونوں اپنی اپنی جگہ پہ واپس آگئے اور تاحال
اتفاق ان کو یہاں سے واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہا،نہ کوئی ایجنڈا نہ
ڈھنگ کا مطالبہ فقط :نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے:مگر بہت کچھ عیاں ہو
چکا ان کے چالیسویں تک قوم سب کچھ سمجھ چکی کون کیا ہے اور کیا ارادہ رکھتا
ہے سب کچھ سامنے آچکا،لندن پلان چند جاتے ہوئے زور آوروں اور کینیڈین و
امریکی ڈالروں کے عوض اس قوم کو ذلت کی پاتال میں گرانے کی مذموم سازش بے
نقاب ہو چکی،تمام تفصیل کا ایک ایک لفظانتہائی معتبر اخبار نویس سلیم صافی
اپنی تحریر میں واضح کر چکے ،جن پہ چاروں طرف سے اہلیان انقلاب اور
پاسداران آزادی نے تبروں کی یلغار کر رکھی ہے،مگر سورج پہ نہ کوڑا پھینکا
جا سکتا ھے نہ تھوکنا ممکن ہے کہ دونوں صورتوں میں گند اپنے چہرے پہ گرتا
ہے،قدرت نے پاکستان اور پاکستانی عوام پہ اپنا فضل و کرم جاری رکھا پہلے
بارش اور اب عید آگئی ،لکی عمرانی سرکس اور کنیڈین شو تمام ہونے کو ہے ،جو
انقلاب یہ لیکر آنا چاہتے تھے یا جس قسم کی تبدیلی چاہتے تھے اگر آجاتی تو
اس میں پاکستان تبدیل تو کیا ہوتا دہائیوں پیچھے چلا جاتا ،اور مصیبت و
افلاس میں گھری قوم مزیدغم واندوھ میں گھر جاتی، ان دونوں حضرات کامطلوبہ
انقلاب اور تبدیلی جب آرمی چیف سے ملاقات کو روانہ ہوئے دھرنے کے عین
درمیان میں تو ان کی باڈی لینگوئج سمجھا رہی تھی کہ یہ کیا چاہتے ہیں ،اﷲ
نے اس قوم پہ رحم کیا،پارلیمنٹ نے یکجان ہو کر سپریم ادارہ ہونا ثابت کیاتو
قوم نے ایک لاکھ موٹر سائیکل والی درفطنی پہ کا ن نہ دھر کے باشعور ہونے کا
واضح ثبوت پیش کر دیا،وزیر اعظم کو ئی بھی ہو اور حکومت کسی کی بھی کیوں نہ
ہو آنے جانے اور ہٹنے ہٹانے کا ایک آئینی طریقہ موجود ہے،سرپرستوں نے
سرمائے یعنی ڈالروں سے بھرپور سرپرستی کی مگر اندر جنھوں نے تبدیلی لانی
تھی ان کے سربراہ نے گھاس نہ ڈالی یوں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی
پوزیشن بن گئی،اب اوئے اوئے کرتے پوزیشن یہ بن گئی کہ اوئے کوئی تو آؤ ہمیں
منانے مگر،جنھوں نے منانا تھا وہ امریکہ میں ہیں اور قوم دوہری خوشی کی
تیاریوں میں مصروف ہے،ایک خوشی یہ کہ عید قربان کی آمد آمد اور دوسری؟؟؟؟؟جی
ہاں دوسری یہ کہ پاکستان ان کے انقلاب سے بال بال بچ گیا،،،،،،،، |