وزیراعظم کا دورہ امریکہ

نواز شریف امریکہ سے وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔جہاں انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا بقول تجزیہ نگاروں کے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے نام پر سجنے والے عالمی راہنماوں کے اجتماع کا میلہ ہمارے وزیر اعطم نے لوٹ لیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں کشمیر کے مسلے کو اقوام متحدہ کی الماریوں کے سرد خانے سے نکال کر ایکبار پھر زندہ کردیا ہے۔برحال میں یہ تو نہیں کہتا کہ نواز شریف کی تقریر جنگ ستمبر کے ایام میں جو تقریر ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں کی تھی اسکا عکس تھی۔ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی اس تقریر سے آج بھی اقوام متحدہ کے درودیوار کانپتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں ثابت کیا تھا کہ کشمیر ،سیاسی ،اقتصادی ،معاشی ،معاشرتی ،جغرافیائی اور ثقافتی و تۃزیبی حوالوں سے پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے نہ کہ بھارت کا…… برحال وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر پر جماعۃ دعوۃ کے حافظ محمد سعید سے لیکر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق تک سبھی قومی راہنماوں نے اسے ’’ایک زبردست تقریر‘‘ قرار دیا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں کشمیر کا ذکر گذشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ’’لواں گے لواں گے کشمیر سارا لواں گے‘‘ کے نعرے سے متاثر ہوکر شامل کیا گیا۔ گو مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے۔

نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں تقریر کے علاوہ نیویارک میں موجود عالمی رہنماوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اور دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا ۔عالمی راہنماوں کے خطے کی بدلتی ہوئی صرت حال پر اعتماد میں لیا۔اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دینے پر جن مشکلات کا سامنا پاکستان کو کرنا پڑ رہا ہے اس سے انہیں آگاہ کیا۔خصوصا افغانستان سے امریکہ افواج کے انخلاء کے بعد پید ا ہونے والی صورت حال پر غور و حوض کیا گیا۔دھرنی گروپ وزیر اعظم کی امریکہ یاترا کو ہدف تنقید بنا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے اس دورے پر اسی کروڑ روپے یومیہ خرچ کردئیے، غریب ملک اور مشکلات و مسائل کی دلدل میں دھنسے ملک کے وزیر اعظم ایک مہنگے ترین ہوٹل میں رہائش رکھی۔وزیر اعظم کو اپنے ساتھ اس قدر لاولشکر امریکہ لیجانے کی ضرورت نہیں تھی ۔’’پھجے کے سری پائے ساتھ لیکر گئے جبکہ پاکستان کے عوام کو دو وقت کی دال روٹی نصیب نہیں ……یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم جن حالات میں امریکہ گئے ہیں وہ وزیر اعظم کی پاکستان میں موجودگی کا تقاضا کرتے تھے کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریاں وزیر اعظم کی اس عیاشی کی متحمل نہیں وگیرہ وغیرہ۔دھرنی گروپ کہتا ہے کہ حکمرانوں کو یاد ہوگا کہ ایکبار سابق صدر آصف علی زرداری یونہی سیلاب کے دنوں میں فرانس کی یاترا کو نکلے تھے تو عوام نے سابق صدر کی اس حرکت کا کس قدر تنقید کی گئی تھی۔

وزیر اعظم کے اس دورے کے خاطر خواہ نتائج تو برآمد ن نہیں ہوں گے۔زیادہ سے زیادہ یہی ہوا ناں کہ وزیر اعظم پاکستان سمیت نیویارک جانے والے رہنما وں نے جنرل اسمبلی میں تقاریر کی گئیں۔ کسی سربراہ مملکت یا سربرہان حکومتوں کے درمیان بامقصد مذاکرات نہیں ہوئے نہیں۔ کسی قسم کے معاہدوں پر دستخط نہیں ہوئے۔ ایک ساتھ فوٹو سیشن کرائے گے اور بس…… مطلب یہ کہ دھرنیوں کے جتنے منہ اتنی باتیں بنائی گئیں۔ یہ نا عاقبت ایندیش یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی رہنماوں کے اجتماع میں سربراہان مملکت و حکومت کی شرکت بے سود نہیں ہوتی اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اہم عالمی سطح کے مسائل اور دو طرفہ تعلقات زیر غور آتے ہیں۔ کئی مسائل اور مشکلات سے نبٹنے کے لیے باہمی اتفاق رائے ہوتا ہے۔ یہ ملاقاتیں آئندہ آنے والے دنوں میں سہولیات فراہم کرتی ہیں۔مجھے ایک بات تو یہ دھرنی گروپ بتائے کہ اگر کل کو انکا انقلاب یا تبدیلی ملک میں آ جاتی ہے تو کیا یہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی بسر کرنے والے غیر ملکی دوروں پر گدھوں اور خچروں پر بیٹھ کر جایا کریں گے ؟کیا یہ لوگ پاکستان کے دورے پر آنے والی غیر ملکی شخصیات کے لیے دسٹرخوان پر نان جیویں چنیں گے؟ کیا یہ لوگ اپنے ساتھ غیر ملکی سفر میں کسی کو نہ لیجائیں گے؟ دھرنی گروپ ذرا اپنی اداؤں پر غور کرے تو بات انکی سمجھ میں آجائیگی۔

عالمی راہنما اگر ہمارے دھرنی گروپ کی مانند سوچنے لگیں تو پھر عالمی اداروں میں ’’باں باں‘‘ ہونے لگے۔ لیکن انہیں ( دھرنی گروپ کو) اطمینان قلب رکھنا چاہیے کہ کہ عالمی راہنماو ں کے پاس سوجھ بوجھ رکھنے والے ذہن موجود ہیں نہ انکی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے ’’ فارغ البال‘‘ نہیں ہیں۔مجھے اسی طرح یقین کامل ہے جیسیسیاہ اندھیری رات کے بعد سویرا ہونے کا یقین ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی نیویارک میں موجودگی ، عالمی راہنماوں سے ملاقاتیں دوررس نتائج لائیں گی۔ خصوصا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور ہمارے خطے کے مسائل کے حوالے سے ہمارے وزیر اعظم کی بات چیت خطے سمیت ہمارے لیے سود مند ثابت ہونگی۔

دنیا تبدیل ہو رہی ہیاور ہمارے دھرنی گروپ کا بھی یہی نعرے اور دعوے ہیں کہ ’’ we want change‘‘ اور ہر شام کو سٹیج شو میں اعلان کیا جاتا ہے کہ’’ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے‘‘ لیکن ہمارے دھرنی خاں اور علامہ انقلاب القادری اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ دنیا تبدیلی ہو رہی ہے۔ بدلتے حالات کے پیش نظر حکومتوں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔جمہوریت ایک حقیقت ہے، سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد روس اور مشرقی یورپ نے تو اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ جمہوریت ہی وہ نظام حیات ہے جو عوام کے دکھوں کا مداوہ بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارے دھرنی یار بیلی انقلاب لانے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ ہمارے پیارے دھرنی خاں اور علامہ انقلاب القادری ہٹ دھرمی ترک کردیں اور جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنے کے مشن سے توبہ تائب ہو جائیں……یہی انکے لیے ،اس ملک کے لیے اور اس ملک کے عوام کے لیے بہتر اور مفاد میں ہے۔

ہاں بات ہو رہی تھی وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کی تو جب سربراہ ھکومت کسی غیر ملکی دورے پر روانہ ہوتا ہے تو خرچ اخراجات تو ہوتے ہیں۔ ’’تھکاں نال پکوڑے نئیں تلے جاندے بادشاہوں ‘‘ کیا آپ لوگ دھرنا سٹیج شوز میں شریک لوگوں کو ہر روز دال روٹی کھانے کو دیتے ہیں؟کیا شرکاء دھرنا کو حضرت امام بری یا گولڑہ شریف کے لنگر سے لاکر کھانا دیا جاتا ہے؟ نہیں انہیں بھی ہر روز نیا پکوان فراہم کیا جاتا ہے……اس کے لیے جو اخراجات کیے جا رہے ہیں کیا وہ سیلاب زدگان اور سیلاب متاثرین کی بحالی پر خرچ کیوں نہیں کرتے؟……کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور……میری ان دھرنی گروپ کے لیڈران سے التماس ہے کہ وہ اپنے قول فعل کے تضاد کو دور کریں تب دوسروں کے کردار و عمل پر انگلی اٹھائیں…… تنقید برائے تنقید کی روش ترک کرکے مثبت طرز عمل اپنایا جائے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کوئی اچھی مشعل راہ چھوڑ کر جائیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161258 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.