مکہ معظمہ کا شہر تھا ایک آقا نے
اپنے غلام کو بازار سودا سلف لینے بھیجا ، غلام نے بازار میں ایک پتھرپر
ایک حسین و جمیل شخصیت کو کھڑے دیکھا ، ارد گرد کچھ لوگ بھی کھڑے تھے ، وہ
شخصیت خطاب کررہی تھی ، غلام بھی اس شخصیت کی گفتگو سننے کے لئیے اس مجمعے
میں کھڑا ہوگیا - غلام کے کانوں میں رس گھولتی آواز آئی کہ ان اکرامکم
عندالله اتقاکم بلاشبہ الله کے ہاں عزت اسکی ہے جو زیادہ متقی ہے- تم سب
آدم کی اولاد ہو کوئی آقا نہیں کوئی غلام نہیں سب انسان برابر ہیں - کسی
گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ، نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری ہے -
غلام کو ایسے لگا جیسے یہ شخصیت اسکے زخموں پر مرحم رکھ رہی ہے - تھوڑی دیر
بعد غلام نے دیکھا کہ شریں گفتگو ختم ہوئی- لوگ گالیاں بکتے ، پتھر مارتے
منتشر ہو گئے ، غلام اس شخصیت کے قریب پہنچا اور عرض کیا ما اسمک ( آپکا
نام ) اس شخصیت کے یاقوتی لب ہلے اور انھوں نے کہا میرا نام محمد صلی الله
علیہ وسلم ہے - غلام نے دوسرا سوال کیا آپ کام کیا کرتے ہیں آقا نے فرمایا
میں الله کا رسول ہوں - غلام نے عرض کی آقا مجھے بھی اپنا کلمہ پڑھا کر
اپنی ولیل کی زلف کا اسیر کرلیں - حضور نے کلمہ پڑھا کر ایک کالے حبشی غلام
بلال کو سیدنا بلال رضی الله عنہ بنا دیا اور دعاؤں کے ساتھ بلال کو رخصت
کردیا ۔ جب بلال سودا سلف لے کر گھر پہنچے تو مالک امیہ نے غصے سے پوچھا
کہاں مرگئے تھے اتنی دیر لگا دی ۔ بلال نے جواب دیا مالک - وہ مل گئے تھے
سر راہ گذر کہیں ، پھر دل نے بیٹھنے نہ دیا عمر بھر کہیں - وہ میں محمد
عربی صلی الله علیہ وسلم سے ملکر اور انکا کلمہ پڑھ کر آررہا ہوں ، امیہ نے
سیخ پا ہوکر کہا اسکا نام لینا ترک کردے ورنہ تیری ہڈیاں توڑ دوں گا - بلال
نے کہا جفا جو عشق میں ہوتی ہے جفا ہی نہیں ، ستم اگر نہ ہو تو محبت میں
کچھ مزا ہی نہیں- بلال نے کہا اے امیہ عشق محمد کا نشہ اتنی جلدی نہیں
اترتا ، وہ نشہ ہی کیا جسے تلسی اتار دے ۔ اے امیہ اگر کسی شخص نے مٹی کا
برتن بھی بازار سے خریدنا ہو تو اسے ٹھونک بجا کر خریدتا ہے کہیں وہ برتن
کچا تو نہیں یہ پرکھا جاتا ہے اور ، میں بھی ہوں مٹی کا پیالہ عشق کے بازار
میں - آگیا ہوں پسند اس دم میں نگاہ یار میں - پھر امیہ نے جو ظلم و ستم کے
پہاڑ توڑے وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔
المختصرا محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے اور یہی محبت کسی درجے پر جا
کر جنوں کہلاتی ہے۔ عشق کا محرک مجازی یا حقیقی ہو سکتا ہے۔ یہ عشق نا ممکن
کو ممکن بنا ڈالتا ہے ۔ کہیں فرہاد سے نہر کھد واتا ہے تو کہیں سوہنی کو
کچے گھڑے پر تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر
کہلاتا ہے تو کوئی سیدنا بلال بنتا ہے۔ غرض ہر عشق کے مدارج مختلف ہیں۔
کوئی عشق مجازی میں ہی گھر کر رہ جاتا ہے۔ تو کوئی عشق ِ مجازی سے حقیقی تک
رسائی حاصل کرکے حقیقی اعزازو شرف حاصل کرتا ہے۔ سیدنا بلال نے عشق حقیقی
تک رسائی ایسی حاصل کی کہ اقبال کو کہنا پڑا ، چمک اٹھا جو ستارہ تیرے مقدر
کا ، حبش سے اٹھا کر تجھے حجاز میں لایا ۔ مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا
گویا ، ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا۔ ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری،
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری۔ اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی، نماز
اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی۔
وہی مئے عشق جو بلال رضی الله عنہ نے پی تھی اسکا ایک قطرہ مالک کائنات نے
لاہور کے ایک نوجوان کو بھی عطا کردیا ۔ اس نوجوان کو دنیا غازی علم دین کے
نام سے جانتی ہے ۔ اس عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کو ٣١ اکتوبر ١٩٢٩ کو
تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ یہ ماہ اکتوبر ہے لہذا کچھ تذکرہ شہید ناموس رسالت
کا کرنا چاہتا ہوں ، پھر شائد موقع نہ ملے یا موضوع ذہن سے نہ اتر جائے
لہذا اکتوبر کے آغاز میں ہی یہ سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ علم دین ٤
دسمبر ١٩٠٧ کو پیدا ہوے لیکن آپکے مزار کی تختی پر ٣ دسمبر ١٩٠٨ لکھا ہے ۔
لاہور کے ایک پبلشر و بک سیلر نے ہمارے آقا ومولا صلی الله علیہ وسلم کی
شان اقدس میں گستاخی پر مبنی ایک کتاب شائع کی جس کتاب کا نام لکھنے کی
میرے ہاتھوں میں سکت نہیں ۔ اس توہین آمیز کتاب کی اشاعت پر برصغیر کے
مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ۔ پورے ملک میں احتجاجی تحریکیں چلنے
لگیں پھر احتجاج کرنے والے احتجاج کرتے رہے کتابیں و مضمون لکھنے والے
لکھتے رہے مگر ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا ۔ غازی علم دین اس گستاخ
راجپال کو قتل کیا اور آپکو گرفتار کرلیا گیا ۔ ٢٢ مئی ١٩٢٩ کو سیشن کورٹ
میں آپکو سزائے موت کا حکم سنایا گیا - ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور
قائداعظم محمد علی جناح نے مقدمہ کی پیروی کی ۔ پھر قائداعظم محمد علی جناح
اور علامہ اقبال علم دین سے ملنے جیل میں گئے، قائداعظم نے علم دین سے کہا
کہ عدالت میں ایک جملہ کہہ دینا کہ جب میں نے راجپال کو قتل کیا تھا تو میں
اپنے حوش وحواص میں نہیں تھا ، جذبات سے مغلوب ہوکر میں نے قتل کیا، یہ
جملہ کہنا علم دین تمہارا کام ہے عدالت سے بری کروانا میرا کام ہے ۔ غازی
علم دین نے کہا میں یہ نہیں کہوں گا میں نے راجپال کو حوش وحواص اور سوچ
سمجھکر مارا تھا ۔ کروں آقا کے نام پر جان فدا ، نہ بس اک جان دو جہان فدا
۔ قائداعظم نے سنکر بحث کرکے علم دین کو قائل کرنا چاہا مگرعلامہ اقبال نے
محمد علی جناح کو روک دیا اور فرمایا کہ جناب یہ داستان عشق اب بہت دور
جاچکی ہے ، اسی کتاباں ای لکھدے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا ۔
غلامان محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) جان دینے سے نہیں ڈرتے ، یہ سرکٹ جائے
یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے ۔ آخرکار ٧ جولائی ١٩٢٩ کو سیشن جج کے
فیصلے کی توثیق ہائیکورٹ نے کرتے ہوئے سزائے موت کو بحال رکھا - ٣٠ اکتوبر
١٩٢٩ کو آپ سے آخری ملاقات آپکی والدہ اور والد نے کی - ٣١ اکتوبر ١٩٢٩
آپکو پھانسی پر لٹکایا گیا ۔
نماز اچھی ، حج اچھا، روزہ اچھا ، زکوات اچھی ۔
مگر میں باوجود اسکے مسلماں ہو نہیں سکتا ۔
نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحا کی حرمت پر ۔
خدا شاہد کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا ۔
کیسی مقدس تھیں وہ ہستیاں جو ناموس رسالت پر قربان ہوکر دوام پا گئیں ،
کتنی مبارک تھیں وہ جوانیاں جو آقا کی حرمت پر لٹ کر ہمیشہ کے لئیے امر
ہوگئیں ۔ کتنا پاکیزہ تھا وہ لہو جو دامن محمد صلی الله علیہ وسلم کی تقدیس
کے لئیے بہہ گیا ، کتنی باوقار تھیں وہ گردنیں جو کائنات کی سب سے عظیم
ہستی کے نام پر کٹ گئیں،
حسن یوسف پر کٹیں مصر میں انگشت زناں ۔
آقا سر کٹاتے ہیں تیرے نام پر مردان عرب ۔
کتنی حسین تھیں وہ خواہشیں اور آرزوئیں جو آقائے دو جہان صلی الله علیہ
وسلم کے قدموں پر نثار ہوگئیں ۔
” عقل جُزئی قبر سے آگے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔ قبر سے آگے عشق کا قدم اُٹھتا
ہے اور عشق ایک جست میں زمان و مکان والی کائنات سے آگے نکل جاتا ہے۔
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا ۔
اسکو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ۔ |