’’آصف علی زرداری سے ڈاکٹر طاہر
القادری تک سبھی سیاست دان ماسوائے مسلم لیگ نواز، مبشر لقمان سے آغا مسعود
حسین تک اینکرز اور صحافی کالم نگار کہتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ جعلی ہے۔
چوروں ڈاکوؤں ،لٹیروں کا کلب ہے، یہ عوام کی پارلیمنٹ نہیں اور نہ ہی یہ
عوام کے حقوق کی محافظ ہے۔‘‘ اگر میں بھی بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اور
دنیا کے ’’دسویں عجوبہ ‘‘ نواب اسلم ریسانی کی طرح سوچتا، محسوس کرتا،انکی
آنکھ سے دیکھتا تو فورا کہتا کہ ’’ پارلیمنٹ پارلیمنٹ ہوتی ہے اصلی ہو یا
جعلی ہو‘‘ چونکہ ڈگری اور پارلیمنٹ میں انیس بیس کا نہیں زمین آسمان کا فرق
ہوتا ہے،اس لیے میں اپنے تمام قدر دانوں سے زرا مختلف اور وکھری ٹائپ سے
دیکھتا اور محسوس کرتا اور سوچتا ہوں، اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلم رئیسانی
نواب آدمی ہے اور میں ایک عام آدمی۔میں اسی طرح سوچتا ہوں جس طرح ایک ننگے
پاؤں ،ننگے بدن اور بھوکے پیٹ والا ایک عام پاکستانی سوچتا اور دیکھتا ہے۔
جعلی پارلیمنٹ کی تعریف سے نابلد خود کو عقل کل سمھنے والے ہمارے
اینکرز،کالم نگار،تجزیہ نگار خود تو انتخابات لڑنے ، کا حوصلہ نہیں رکھتے،
لیکن جو لوگ روپیہ پیسہ اور محنت کرکے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچتے
ہیں انہیں یہ مہربان بڑی آسانی سے ایک لفظ ’’جعلی پارلیمنٹ ‘‘ بول کر
’’کھوتا کھو ‘‘ میں ڈالدیتے ہیں۔ اور نئے انتخابات کا شور مچانے لگتے ہیں۔
کیا ان اینکرز ،کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی آنکھوں پر کسی نے سیاہ پٹی
باندھ دی ہوتی ہے کہ پولنگ والے دن انہیں کوئی دھاندلی یا دھاندلا دکھائی
نہیں دیتا؟
مجھے سابق صدر آصف علی زرداری کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ پارلیمنٹ جیسے
بھی معرض موجود میں آئی ہے اسے اپنی مدت پوری کرنا چاہئیے۔ میں شیخوپورہ کے
ایک محب وطن بیورو کریٹ کے اس موقف سے بھی متفق ہوں کہ’’ اس ملک کے مسائل
کے حل کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ سال دو سال میں پاکستان کو درپیش مسائل
حل نہیں ہو سکتے ۔انکی رائے میں اس ملک کے مسائل کے حل کے لیے کم از کم
پچاس سال کا وقت درکار ہے، اور یہ بھی جمہوریت سے ممکن ہوگا، غیر جمہوری
نظام سے کچھ نہیں ہونے والا‘‘ شیخوپرہ کے اس محب وطن بیورو کریٹ کی باتیں
بھلی اور پاکستان کے حق میں محسوس ہوتی ہیں کہ ہمارے دیس میں بہت سے
سیاستدانوں نے بھی پاکستان کے درپیش مسائل حل اور عوام کو سکھ کا سانس
فراہم کرنے کے لیے چھ مہینوں سے ایک سال کے نعرے اور دعوے کیے لیکن ہوا کیا
،یہ سب کے سامنے ہے۔الہ دین کے چراغ کے زمانے لد گئے اب اکیسویں صدی ہے، اب
حقائق سے نظریں چرانے ،عوام کی آنکھوں میں جھوٹے دعوؤں کے ذریعے سہانے خواب
سجا کر انہیں ’’الو‘‘ نہیں بنایا جا سکتا، ہمارے پڑھایا گیا ہے کہ جنگ دوم
عظیم ( 1939-1945) کے خاتمے کے بعد ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے
ممالک میں آزادی کی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں،اسکی وجہ یہ پڑھائی گئی ہے
کہ چونکہ نوآبادیاتی قوتیں شکست و ریخت کا شکار ہو چکی تھیں اور وہ اس قابل
نہیں رہیں کہ نوآبادیاتی کالونیز کو اپنے تسلط میں مذید رکھ سکتیں۔اس لیے
متحدہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو بھی جلا ملی اور اس میں تیزی آئی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے اینکرز اور کالم نگاروں کو باور کراسکوں کہ
اب حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا میں آزادی کے لیے تحریک چلے یا جمہوریت کے لیے
آوازیں بلند ہوں تو پاکستان سمیت دیگر ممالک قدرتی طور پر انکے زیر اثر
آجاتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے واقعات کے حل کے لیے قائم ٹربیونلز
موجود ہیں، میرے خیال میں یہی اسکے لیے بہترین فورم ہے۔ہمیں پاکستان کی
وحدت ،یکجہتی اور وقار عزیز ہونا چاہیئے ناکہ ملکی سالمتی وقار کو اپنے
وقتی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی حد تک آگے نکل جائیں۔
دھرنے ،جلسے جلوس جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں ،اگر آئین اور قانون کے اندر رہ
کر ہوں۔ہاں اگر شکایات کندہ انتخابی اصلاحات میں بہتری لانے کے لیے حکومت
اور الیکشن کمیشن سے تعاون کریں تو اگلے الیکشنز کو دھاندلی کی شکایات سے
محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ایسا دنیا میں کبھی اور کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ گھر
کا ایک حصہ متاثر ہو تو پورے گھر کو ہی منہدم کر دیا گیا ہو۔ کوشش کی جاتی
ہے کہ متاثرہ حصے کی مرمت کروادی جائے تا کہ باقی عمارت کو نقصان سے بچایا
جائے۔اس لیے موجودہ پارلیمنٹ پر انگلیاں اٹھانے والوں سے عرض ہے کہ ہو سکتا
ہے کہ آپ مجھ سے بہتر سوچتے ہوں لیکن خدارا جمہوریت کی پوری عمارت کو ملبہ
کت ڈھیر میں تبدیل کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی جائے تو زیادہ بہتر
ہوگا۔جیسی بھی ہے پارلیمنٹ کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ |