مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جسٹس
ایم آر کیانی مرحوم نے ایک بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ اقوام متحدہ وہ
ادارہ ہے جہاں جب دو چھوٹی قوموں کا مسئلہ جاتا ہے تو مسئلے عمو ماَ ختم ہو
جاتے ہیں اور جب ایک بڑی اور ایک چھوٹی قوم کے درمیان کوئی مسئلہ جاتا ہے
تو چھوٹی قوم ختم ہو جاتی ہے اور جب دو بڑی قوموں کا مسئلہ جاتا ہے تو
اقوام متحدہ ختم ہو جاتی ہے ۔لیگ آف نیشن اس کی مثال ہے جو 1914سے1918تک
جاری جنگ عظیم اول کے بعد 1919میں تشکیل پائی تھی لیکن جب بڑی قوموں کے
مفادات ٹکرائے تو یہ لیگ آف نیشن ناکام ہوئی اور 1939میں دوسری جنگ عظیم
شروع ہوئی جو 1945تک جاری رہی اس طرح لیگ آف نیشن اپنے وجود سے عدم میں چلی
گئی پھر اس کے بعد 24اکتوبر 1945اقوام متحدہ قائم ہوئی جس کا مقصد دنیا میں
امن قائم کرنا اور قوموں کے درمیان مذاکرات اور مکالمے کے لیے پلیٹ فارم
مہیا کرنا ۔اقوام متحدہ اپنے مقاصد میں کتنا کامیاب ہوئی ہے تو اس کی
کامیابی یہی کہی جاسکتی ہے کہ دنیا اب تک تیسری عالمی جنگ سے محفوظ ہے اور
ناکامی یہ ہے کہ آج پوری دنیا امن کو ترس رہی ہے اب سے تقریباَ چالیس سال
قبل اقوام متحدہ نے دنیا کے پانچ بڑے اسکالرز کو ایک پیپر لکھنے کی دعوت دی
تھی جس کا عنوان تھا کہ "دنیا میں امن کیسے قائم ہو "ان پانچ بڑے اسکالرز
میں پاکستان کے جناب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی تھے،چنانچہ مولانا
نے بھی اس موضوع پر اپنی سفارشات اور تجاویز لکھ کر اقوام متحدہ کو بھیجا
تھا ۔اس پر کہاں اور کتنا عمل کیا گیا کسی کو کچھ معلوم نہیں میرے خیال میں
مولانا کی یہ تجاویز بھی مسئلہ کشمیر کی طرح اقوام متحدہ کے سرد خانے میں
چلی گئی ۔ یہ جو بات کہی گئی ہے کہ جب بڑی اور چھوٹی قوموں کا مسئلہ ہو تو
چھوٹی قوم ختم ہو جاتی ہے موجودہ دور میں اس کی کئی مثالیں ہیں جب امریکا
اور عراق کے درمیان تنازعہ ہوا تو عراق تقریباَختم ہو گیا یعنی عملاَ اس کے
تین حصے ہو چکے ہیں اسی طرح شام کا امریکاسے تنازعہ ہوا تو اس کا وجود بھی
اب خطرے میں نظر آرہا ہے اس کے بھی حصے بخرے ہونے والے ہے البتہ افغانستان
میں کہانی الٹتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
اقوام متحدہ کے پانچ اہم حصے ہیں جنرل اسمبلی ،سلامتی کونسل،سیکٹریٹ،سوشل
اینڈ اکنامک کونسل،بین الاقوامی عدالت انصاف اس کی پندرہ ایجنسیاں اور
مختلف ادارے ہیں جو پوری دنیا میں اس کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں ان میں اہم
ادارے ورلڈ بینک،بین الاقوامی مالیاتی فند (IMF)،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(WHO)
، ورلڈ فوڈ پروگرام(WFP) ، یو این چلڈرن فنڈ (UNICEF)یہ خوبصورت نام دراصل
خوبصورت سونے کی زنجیروں کے جال ہیں جس میں دنیا کی کمزور اور ترقی پذیر
قوموں کو بڑی قوتوں کا غلام بنایا جاتا ہے اس کی سرکاری زبانیں عربی ،
چائنیز ، انگلش ، فرنچ ، رشین اور اسپینش ہیں پانچ سال کے لیے سکریٹری جنرل
کا انتخاب ہوتا ہے اس وقت جنوبی کوریا کے بانکی مون اس کے سکریٹری جنرل ہیں
اس کا ہیڈ کوارٹر نیو یارک (امریکا) میں جب کہ دیگر اہم دفاتر جنیوا ،
نیروبی اور ویانا میں ہیں اقوام متحدہ کے 193ممبر ممالک ہیں جنرل اسمبلی
کاکام سلامتی کونسل کی تجویز پر سکریٹری جنرل کا انتخاب کرنا ،اقوام متحدہ
کے نئے ممبران کے داخلے کا فیصلہ کرنا ،اس کا اہم فیصلہ کن ادارہ سلامتی
کونسل ہے جس کے پانچ مستقل ممبران امریکا،برطانیہ،فرانس،روس اور چین ہیں
غیر مستقل ممبران جو دو سال کے لیے ہوتے ہیں ان میں اس وقت
ارجنٹائنا،آسٹریلیا ،چاڈ ، چلی ، اردن ، لتھانیہ ، لکژمبرگ ، نائجیریا ،
کوریا ، اور روانڈا ہیں ۔بین الاقوامی عدالت کے 15ججز 9سال کے لیے منتخب
ہوتے ہیں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں یہ عدالت قائم ہے۔
لیگ آف نیشن کا انجام دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ
مستقل ممبر ممالک کو ویٹو پاور حاصل ہے کہ اگر کسی مسئلے پر چار مستقل
ممبران ایک طرف ہوں اور ایک ممبر بھی اس کو اگر ویٹو کر دے تو وہ قرارداد
منظور نہیں ہو گی اب تک امریکا نے سب سے زیادہ ویٹو استعمال کیا ہے یہ
اقوام متحدہ دراصل امریکا کی لونڈی کا رول ادا کررہی ہے اس لیے کہ سب سے
زیادہ فنڈ امریکا ہی دیتا ہے امریکا کو جب کوئی بل یا قرارداد منظور کرانا
ہوتا ہے تو وہ راتوں رات منظور ہو جاتی ہے جب کہ کشمیر کا مسئلہ پچھلے
66سال سے اقوام متحدہ کے سرد خانے میں پڑا ہوا ہے جب کہ اس پر بر صغیر پاک
و ہند میں تین جنگیں ہو چکی ہیں ۔
اس کے قرضے دینے والے ادارے عالمی بینک ہو یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ان
کا کام چھوٹے ممالک کو زبردستی قرضے دینا اور ان قرضوں کے جال میں ان ممالک
کی معیشت پر قبضہ کرنا پاکستان کو بھی ان اداروں سے بھاری سود پر قرضہ لینا
پڑتا ہے۔ پاکستان کے معاشی نظام میں قرض کی صورت بالکل ایسے ہی ہے جیسے
کوئی شوگر کا مریض کہ اگر اس کی شوگر ہائی ہوجائے تو اس کی طبعیت خراب ہونے
لگتی ہے ڈاکٹر حضرات شوگر کنٹرول کے لیے دوائیں اور پرہیز بتاتے ہیں اور
اگر کبھی شوگر کم ہوجائے تو وہ بھی خطرناک بات ہوتی ہے پھر اس وقت ڈاکٹر
حضرات مریض کو شکر کھلاتے ہیں کہ شوگر کی کمی اس کی زیادتی سے زیادہ خطرناک
ہے بالکل یہی حال قرضوں کی معیشت کا ہے کہ اگر کسی ملک میں قرض زیادہ ہو
رہا ہو تو وہ قرض کی زیادتی ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے کا
سبب بنتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر وقت پر قرض نہ ملے تو جس
طرح شوگر کے مریض کے شوگر کم ہونے کی وجہ سے لینے کے دینے پڑجاتے ہیں اسی
طرح ملک کے معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی توازن ادائیگی
خطرے میں پڑجاتی ہے ۔آج دنیا کے بہت سے چھوٹے ممالک ایسے ہیں جو ان اداروں
سے قرضے نہیں لیتے کہ وہ جانتے ہیں اقوام متحدہ کے یہ مالیاتی ادارے چھوٹی
قوموں کو قرض دے کر اپنا غلام بناتے ہیں ان سے اپنی مرضی کی شرائط منواتے
ہیں ۔دوسری طرف اقوام متحدہ کشمیر فلسطین کے مسئلے پر بے بس نظر آتی ہے
ساٹھ سے زائد اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں لیکن ان کا وزن نہ ہونے
کے برابر ہے اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی اب تک کی کارکردگی کا بھر
پور جائزہ لیا جائے یہ دنیا کی بڑی طاقتوں بالخصوص امریکا کی پالیسیوں کی
پوری دنیا میں نافذ کرنے والا ادارہ ہے یا واقعتاَیہ دنیا میں امن قائم
کرنے والا ادارہ ہے اگر اس کا مقصد امن کا قیام ہے تو پھر شام میں کیا ہو
رہا ہے ،کشمیریوں کو ان کا حق کیوں نہیں مل رہا ہے فلسطین کو اب تک جنرل
اسمبلی کا رکن کیوں نہیں بنایا گیا ۔کیا اب بھی اس میں کچھ سوچنے کی ضرورت
ہے کہ یہ ادارہ مسلم امہ کے خلاف سازشوں کے جال بننے والاایک ایسا فورم ہے
جو باہر سے کچھ اور اندر سے کچھ اور ہے لہذا اب مسلم اقوام متحدہ کی تجاویز
کو بحث مباحثہ کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے ۔ |
|