کراچی: شراب زندگیاں نگلنے لگی .... فروخت نہ رک سکی

عیدالاضحٰی کے موقع پر کراچی کے مختلف علاقوں میں شراب پینے سے 32 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ متعدد افراد دیکھنے ، سننے اور بولنے کی قوت کھو بیٹھے اور کتنے ہی افراد زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ عیدالاضحی پر کراچی کے مختلف علاقوں لانڈھی ، کورنگی ، زمان ٹاؤن ، بلوچ کالونی ، محمودآباد ، چنیسر گوٹھ ، پریڈی اور فریئر سمیت دیگر علاقوں میں شراب پینے والے افراد کو حالت غیر ہونے کے باعث جناح ہسپتال لایا گیا، متاثرہ افراد میں سے بیشتر کی عمریں 17 سے 25 سال کے درمیان ہےں۔ شراب پینے والوں میں 3 افراد ایسے بھی ہیں جن کے گردوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ مبصرین کے مطابق 32 افراد کی ہلاکت پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ اورمتعلقہ اداروں کی انتظامی صلاحیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ملک کے دیگر حصوں سے بھی وقتاً فوقتاً شراب پینے سے ہلاکتوں کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، شریف اور قانون پسند شہری اپنے علاقے میں غیر قانونی چلنے والے قحبہ خانوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، لیکن جب ”سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا“۔ اسلام میں شراب حرام ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کی فروخت ممنوع ہے، ایک حد تک غیر مسلموں کے لیے شراب کا کوٹہ رکھا گیا ہے جس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمان بھی شراب کی خریداری باآسانی کرلیتے ہیں، نیز منشیات فروشوں اور بااثر افراد کے گٹھ جوڑ اور علاقہ پولیس کی ملی بھگت سے پاکستان کے مختلف شہروں و دیہات میں کھلے عام شراب فروخت کی جاتی ہے۔ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے شراب سے ہلاکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی کو فوری طور پر تحقیقات کا حکم دیا۔ پولیس کے مطابق کچی شراب شرافی گوٹھ اورشاہ لطیف ٹاﺅن کے اڈوں سے خریدی گئی تھی۔ فرائض سے غفلت برتنے پر 5 تھانوں کے ایس ایچ اوز کو معطل کردیا گیا، جن میں لانڈھی ،کورنگی، زمان ٹاﺅن، شرافی گوٹھ کے ایس ایچ اوز شامل ہےں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی پولیس کے سربراہ سے واقعہ کی فوری رپورٹ طلب کی اور ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی۔ دوسری جانب کراچی مےں کچی شراب پینے سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقدمات درج کےے گئے۔ پولیس کے مطابق شہریوں کی جانب سے اندراج مقدمہ میں عدم دلچسپی کے باعث مقدمہ پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کیا ، جس میں اقدام قتل، دفعہ 34، دفعہ 302 اور دفعہ 322 شامل کی گئی ہیں اور مقدمات لانڈھی، کورنگی، شرافی گوٹھ اور شاہ لطیف ٹاﺅن کے تھانوں میں درج کیے گئے ہیں۔

مبصرین کے مطابق آئی جی سندھ کو پولیس کے مبینہ طور پر ان منشیات فروشوں سے گٹھ جوڑ والی رپورٹ پر بھی ایکشن لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ شراب تیار کرنے اور فروخت کرنے والے کس طرح اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے پولیس اور انتظامیہ کی کو تاہی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ کچی زہریلی شراب سے ہلاکتوں کے بعد صوبہ سندھ کی حکومت نے میتھانول (سپرٹ) کی فروخت پر پابندی عاید کی ہے، جبکہ جن علاقوں میں ایسی شراب تیار اور فروخت کرنے کا دھندا ہورہا تھا، وہاں تعینات محکمہ ایکسائز اور پولیس کے افسروں کو فرائض سے غفلت برتنے پر معطل کیا ہے۔ صوبہ سندھ کے وزیر ایکسائز گیان چند کے مطابق غیر قانونی طور پر سپرٹ بیچنے والوں کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہے اور اس کے ذمے دار ڈیلروں کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔ پولیس نے زہریلی شراب فروخت کرنے اور اس سے ہلاکتوں پر مختلف تھانوں میں13 مقدمات درج کرلیے ہیں۔ کراچی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مرکزی مشتبہ ملزم کا سراغ لگا لیا ہے اور اس کے خلاف قتل کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ تاہم وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے مفرور ہوگیا ہے۔ پولیس نے بدھ کو شراب تیار کرنے والی بھٹیوں پر چھاپہ مار کارروائیاں کی تھیں اور تین افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کو قانونی طور پر شراب کی فروخت کی ممانعت ہے، جس کے پیش نظر کم بعض علاقوں میں جرائم پیشہ افراد خود ہی شراب تیار کرنے کا دھندا کرتے ہیں، جس کے استعمال کی صورت میں جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین طب کے مطابق میتھانول ملی شراب پینے والا شخص اندھا ہوسکتا ہے،اس کا جگر ناکارہ ہوجاتا ہے اور نتیجتاً اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

یہ امر واضح رہے کہ چند ہفتے قبل صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں زہریلی شراب پینے سے بیس افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات سال میں کچی شراب کی وجہ سے صرف کراچی میں نو سو سے زاید افراد ہلاک اور سیکڑوں افراد بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، اس کے باوجود کچی شراب کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل میتھانول کی خریدو فروخت کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس پر کوئی پابندی عاید نہیں کی گئی۔ میتھانول نامی کیمکل، کاربن مونو آکسائیڈ اور ہائڈروجن کے علاوہ کاربن آکسائیڈ اور میتھین سے بھی کشید کیا جاتا ہے۔ 2007کے بعد سے سالانہ تقریباً ڈیڑھ سو افراد کچی شراب کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔2007میں رمضان المبارک میں عید سے قبل 80 سے زاید افراد ہلاک ہوگئے تھے، 2009میں چالیس سے زاید افراد شراب کی بھینٹ چڑھ گئے تھے، 2011 میں کراچی میں 18سے زاید افراد کی جان شراب نے لے لی تھی اور پھر اسی سال مزید پانچ فراد موت کے منہ میں چلے گئے۔2013میں عید الفطر کے موقع پر بیس سے زاید افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس سال ایک بار تیس سے زاید افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں شراب بیچنے اور پینے پر پابندی عاید ہے اور صرف غیر مسلم حکومتی لائسنس سے مقرر کردہ جگہوں سے شراب خرید سکتے ہیں۔ کراچی میں شراب کی فروخت کی 100 سے زاید لائسنس یافتہ دکانیں ہیں۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی خالد احمد اورعامر پیر زادہ نے کراچی میں کچی شراب سے ہلاکتوں پر سندھ اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک التوا جمع کرائی، جس میں کچی شراب سے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی خالد احمد کا کہنا تھا کہ کچی شراب پینے سے چند روز میں 30 سے زاید گھرانوں کے چراغ گل ہو چکے ہیں، لیکن باوجود لاکھ یقین دہانیوں کے اس مذموم کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حکومت کی جانب سے پہلے بھی بارہا یقین دلایا گیا کہ کچی شراب کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا،جو انتہائی افسوسناک ہے۔ کراچی میں شراب کی وجہ سے ہلاکتوں کی خبر نئی نہیں ہے۔ اس طرح کی خبریں نظر انداز کرنے والی نہیں، کیونکہ اسلام میں شراب نوشی سختی کے ساتھ منع ہے، جبکہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جہاں شراب نوشی پر سخت سزا دی جانی چاہیے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شراب شرعی طور پر تو حرام ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضمر بھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال شراب نوشی سے 3.3 ملین افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق الکوحل سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایڈز، ٹی بی اور تشدد کے واقعات سے مرنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ شراب نوشی کے استعمال سے ہر دس سیکنڈ میں ایک شخص کی موت ہوتی ہے۔ 2012 میں الکوحل کے استعمال سے 3.3 ملین افراد کی موت ہوئی جو کہ دیگر عالمی اموات کے 5.9 فیصد کے برابر ہے۔ ایڈز کے باعث 2.8 فیصد، ٹی بی سے 1.7 فیصد اور تشدد کے واقعات سے صرف 0.9 فیصد اموات ہوئی ہیں۔ شراب نوشی 200 صحت کے اصولوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن میں کینسر اور جگر کی سروس شامل ہیں۔ شراب نوشی لوگوں کو ٹی بی، ایڈز اور دیگر بیماریوں کی نسبت زیادہ حساس بنا دیتی ہے۔ ان مضمر اثرات کے پیش نظر متعدد غیر مسلم میں بھی شراب نوشی کے حوالے سے سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔لہٰذا پاکستانی حکومت کو بھی چاہیے کہ ملک میں شراب پر پابندی لگا کر موت کے جاری رقص کو روکا جائے۔شہریوں نے شراب کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے شراب کی گندگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.