قائد تحریک کی درخواست کا نمبر آگیا

پاکستان میں قرضوں کی معافی کے لئے اس قوم کے ساتھ ایسا بڑا دھوکہ کیا گیا ہے کہ اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ قرضے وہاں واپس ہوتے ہیں جہاں ان کی واپسی کے لئے قرض وصول کرنے والے کھڑے ہوں۔ جہاں قرض وصول کرنے والے ہی اپنے دعویٰ میں کمزور ہوں وہاں قرض کیسے وصول کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر وہ شخص جس نے قرضہ لیا تھا اور ٹیکنیکل طور پر اداروں نے ہی قرضہ، معاف کردیا تو ان کی ناد دہندگی کو کون چیلنج کرے گا۔ اگست ۹۰۰۲ میں ایم کیو ایم کے قائد نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک کھلا خط لکھا تھا۔ جس میں انھوں نے چیف جسٹس کی توجہ ملکی معاملات پر دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے بنکوں سے لئے جانے والا کھربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کاروائی کی جائے اور تمام پیسہ قومی خزانے میں واپس لایا جائے اور اس خط پر از خود نوٹس لے کر کاروائی کی جائے۔ قومی اخبار کے ان ہی کالموں میں ہم نے لکھا تھا کہ قائد تحریک کی اس درخواست کا نمبر کب آئے گا۔ گزشتہ روز جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خط پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے 1971 سے لیکر اب تک معاف کرائے گئے قرضوں کا تفصیلی ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے سوموٹو لیتے ہوئے درخواست گزار کے خط کو 2007 کے سوموٹو کیس کے ساتھ یکجا کردیا جس میں عدالت نے 54 ارب روپے کے قرضے معاف کرانے کے خلاف سومو ٹو لیا تھا۔ عدالت نے الطاف حسین کے خط پر گورنر سٹیٹ بینک اور سیکرٹری فنانس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان لوگوں کے ناموں کا ریکارڈ طلب کرلیا جنہوں نے 1971 سے لیکر آج تک قرضے معاف کرائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ درخواست گزار الطاف حسین کو بھی اس بات سے آگاہ کردیا جائے کہ ان کے خط پر سوموٹو نوٹس لے لیا گیا ہے۔ یوں قائد تحریک کی اس درخواست کا نمبر آگیا ہے۔

جناب الطاف حسین قدم بہ قدم قومی سیاست میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ قومی سیاست میں ان کی موجودگی اس ملک کے بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے۔ بشرطیہ وہ قوم کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز رکھیں۔ ان قرضوں کی فہرست جو اخبار میں آرہی ہے تو اس پر ردعمل بھی آرہا ہے۔ اب تک سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جام مدد علی نے کہا ہے کہ میں نے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا ہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان نے قرضوں کی معافی کے حوالے سے میڈیا خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بینک نے سب سے کم قرضے معاف کئے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چوہدری فیملی نے کوئی قرض معاف نہیں کرایا، وفاقی وزیر منظور وٹو نے کہا ہے کہ 29 لاکھ روپے قرض معاف نہیں کرایا، ہمایوں اختر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے آج تک ایک ٹیڈی پائی کا قرض معاف نہیں کروایا، جبکہ حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا۔ عذر گناہ از بدتر اش گناہ کے مصداق نیشنل بینک کی تردید نما تصدیق ہے۔ جس میں انہوں نے قرضوں کی معافی کے بارے میں میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے اس تاثر کی تردید کی ہے جس میں سب سے زیادہ معاف کردہ قرضے نیشنل بینک کے بتائے گئے ہیں۔ ترجمان نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل بینک آف پاکستان نے سب سے کم یعنی اثاثہ جات کے 0.83 فیصد قرضے معاف کئے۔ 2000-2008ء کے دوران بینک کے مجموعی معاف کردہ قرضے 6.723 ارب روپے رہے۔ 68 فیصد لازمی ایڈجسٹمنٹ ہیں (اس میں 38 فیصد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سرکلر 29 کے تحت ایڈجسٹ کئے گئے ہیں۔ سب بڑا فراڈ یہی ہوا ہے کہ جن قوانین کے تحت یہ قرض واپس لیا جانا تھا اس ہی کو بدل دیا گیا۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ اب اس بات پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ قرض معاف کرانے والوں کی ساری تفصیلات عوام کے علم میں لائی جارہی ہیں اور یقیناً آزاد میڈیا کا اس میں بہت اہم کردار ہے کل جب یہ قرض معاف ہو رہے تھے اور وہ مشرف کے ساتھ تھے تو اس وقت وہ کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے قائد نوازشریف اور پارٹی کی مشاورت سے سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے قرضوں کی واپسی کے لئے عدالت میں درخواست دائر کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ میاں صاحب اور بی بی کے دور میں معاف کئے کئے قرضوں کا کیا ہوگا، اور کیا written off کئے ہوئے قرضے واپس مل سکتے ہیں؟ اس کا عمومی جواب نہیں ہے۔ کیونکہ سب نے فائیلوں کا پیٹ بھرا ہے، ان قرضوں کی معافی کے لئے بھی بڑے بڑے فائل کھلے ہوں گے۔ کروڑوں روپے کی رشوت دی گئی ہوگی۔ مگر بہت سے حقائق ریکارڈ پر ہیں۔ عدالت میں بہت سے حقائق سے پردہ اٹھے گا۔ اگر اب بھی کوئی بنک کوئی مالیاتی ادارہ کسی واپس شدہ قرضے کی وصولی کے پیچھے پڑ گیا تو بالآخر کامیاب ہو سکتا ہے۔

یہ بھی خبر آئی ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر قرضوں کی معافی کے بعد بھی تمام بینکوں کے کل شرح منافع میں 408 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ بنک اپنے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک نہیں کرتے ہیں، گویا یہ پیشہ عوام کا ہے جسے بنکوں نے ہتھیا لیا ہے۔۔ قابل توجہ بات یہ ہے مالی سال 2006ء کے دوران تمام پاکستانی بینک مل کر ٹیکس کٹوتی کے بعد 82.54 ارب روپے کل شرح منافع کمانے میں کامیاب ہوئے تمام پاکستانی بینکوں کے حاصل کردہ کل شرح منافع کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء میں یہ مالیاتی ادارے صرف ان لوگوں سے کمائی کر رہے تھے جو اپنے ذمے شرح سود مقررہ وقت پر اور شیڈول کے مطابق ادا کر رہے تھے جبکہ دیگر کسٹمرز بڑے قرضے لے کر حکومتی سرپرستی اور بینکرز کی ملی بھگت سے انہیں معاف کروا رہے تھے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستانی بینک اس وقت بھی اچھا منافع کما رہے ہیں جبکہ عالمی معیشت بحران میں جکڑی ہے اور بنکنگ سیکٹر کو شدید مندی کا سامنا ہے بڑے پیمانے پر قرضہ جات کی معافی اور غیر منافع بخش قرضہ جات کے بڑے اعداد و شمار سے پاکستانی بنکوں کی بیلنس شیٹ کمزور ہونی چاہئے تھی لیکن یہ اعداد و شمار معجزے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کے صرف 7 سال میں 125ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کئے گئے جبکہ محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے منتخب ادوار 1986-1999ء کے دوران صرف 30 ارب کے قرضے معاف کئے گئے۔ میاں نواز شریف کے دو ادوار حکومت میں 22.35 ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے جو 1986سے 1999ء کے دوران معاف کئے گئے کل قرضہ جات کا 74.5 فیصد ہیں بینظیر بھٹو شہید کے دو ادوار میں 7.23 ارب روپے کے قرضہ جات معاف کئے گئے جو ان 13سالوں میں معاف کئے گئے قرضہ جات کا 24.2 فیصد بنتے ہیں۔ اب جو ا۷۹۱ سے اب کے قرضوں کا قصہ شروع ہوگا۔ تو مزید انکشافات ہوں گے۔ قوم کے سامنے یہ حقائق آنا اور مجرموں کو کیفردار پہنچانا ضروری ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 409012 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More