ریاست مہاراشٹر ا میں الیکشن کے
ایام انتہائی قریب آچکے ہیں۔ 2014 کے عام انتحاب کے بعدیہ پہلا اسمبلی
الیکشن ہونے جارہا ہے ۔اس الیکشن کے نتائج کے پس پردہ بہت کچھ چھپا ہوا ہے
۔اس الیکشن کے بعد ہی واضح طو ر پر پتہ چلے گا کہ ملک کی عوام کیا چاہتی ہے
، وہ کس ذہنیت کی حامل پارٹی کی حکومت چاہتی ہے ۔کن لوگوں کو مسند اقتدار
تک پہچانے میں دل چسپی رکھتی ہے ۔عام انتخاب میں جو مودی لہر چلی تھی وہ اب
بھی برقرار ہے یا پھر غائب ہوچکی ہے جیساکہ کئی صوبوں میں ہوئے ضمنی الیکشن
کے نتائج سے پتہ چلتا ہے ۔
مہاراشٹر کا ہونے والا یہ انتخابات اس اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے کہ اس
مرتبہ تمام قابل ذکر پارٹیاں تن تنہا الیکشن لڑرہی ہیں ، شیوسینا اور بی جے
پی کا 25 سالہ اتحاد کمل کے پتوں کی طرح بکھر چکا ہے ،15سالوں تک مسلسل
حکومت کرنے والی کانگریس اور این سی پی ایک دوسرے سے اپنا رشتہ توڑ کر اپنے
بل بوتے پر الیکشن لڑرہی ہے ۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں ۔مجلس
اتحاد المسلمین کو بھی یہاں کافی مقبولیت حاصل ہے اور مسلم نوجوانو ں کا اس
کی طرف رجحان بہت زیادہ ہے ۔ مہاراشٹر کی اس صورت حال کودیکھتے ہوئے وہاں
کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگاکہ کسے اکثریت ملے گی اور کون
پارٹی حکومت بنانے میں کامیابی سے ہم کنار ہوسکے گی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر ا ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں کے
مسلمان فیصلہ کن حیثت کے مالک کہلاتے ہیں،کہاجاتا ہے کہ ، جن پارٹی کو ان
کی حمایت ملے گی وہی پارٹی حکومت بنانے میں کامیابی سے ہم کنار ہوسکے گی ۔لیکن
یہ فلسفہ 2014 کے عام انتخاب میں ختم ہوگیا ہے ، اور مسلم ووٹوں کو کسی کی
جیت کا دارومدار قرار دینا بے معنی سا لگ رہا ہے ۔ یہاں مسلمانوں کل آبادی
15 فیصد ہے اور288 اسمبلی حلقوں میں 30 اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں ان کی
آبادی قابل ذکر اور گنجان ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس کثیر آبادی کے باجود
ریاستی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کا فقدان ہے۔ ایک
کروڑ مسلم آبادی کے باوجود 2009 سے لوک سبھا میں ایک بھی مسلم نمائندہ
موجود نہیں ہے اور یہ نمائندگی اسمبلی اور پارلیمنٹ دونوں میں مستقل کم
ہوتی جارہی ہے۔
ہم آپ کے بتادیں کہ مہاراشٹرا میں 8.28 کروڑ ووٹرس آئندہ 15 اکتوبر کو
13ویں 288رکنی اسمبلی اور 18ویں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالیں گے۔
اسی روز بی جے پی لیڈر آنجہانی گوپی ناتھ منڈے کی حال میں ہوئی موت کے سبب
خالی ہوئی پارلیمانی سیٹ بیڈ میں بھی ضمنی انتخاب ہوگا اور اس تاریخ میں
اترپردیش کے کیرانہ اسمبلی سیٹ کے لئے بھی ضمنی انتخاب ہوگا۔ اس مرتبہ
حالیہ پارلیمانی انتخابات کی طرح ووٹرس ووٹ دینے میں(NOT)ناٹ کا آپشن یعنی
امیدواروں میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینے کے حق کا استعمال کریں گے۔ اس
بار ووٹرس کو وی وی پی اے ٹی ( VVPAT) جیسے سسٹم سے بھی سابقہ پڑے گا۔ یہ
ایک ایسا سسٹم ہے جس میں ووٹرس ریاست میں 13سیٹوں کے کم و بیش 3942 پولنگ
اسٹیشنوں میں اس بار اس بات کی جانچ کر پائیں گے کہ کیا ان کے ووٹ صحیح طور
پر دیئے جاسکے ہیں ۔اس کے ذریعہ ووٹرس کو یہ جانکاری ایک سلیپ کے ذریعے
فوراً ہی مل جائے گی کہ متعلقہ شخص نے کس امیدوار اور پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
اس سے انتخاب میں دھاندلی کو روکا جا سکے گا اور اسی کے ساتھ ساتھ اسٹور
کئے ہوئے الکٹرانک رزلٹ کو آڈٹ کرنے میں بھی اس سے مدد ملے گی۔
|