لاہور سے نانگا پربت تک(سفر نامہ)
(Dr Muhammad Raza Advocate, )
وکالت دنیا کا باوقارپیشہ
اورعظیم ترین فریضہ ہے جو عبادت سے کم نہیں۔ شعبہ وکالت وکیل کو عزت کے
ساتھ معاشرے میں اعلیٰ مقام دیتا ہے اور حصول رزق کا باوقار ذریعہ بنتا ہے
۔وکیل کو دنیا کے ہر کونے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے مگر وکیل اپنے
آپ کوکبھی وقت نہیں دے پاتا ۔فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کاموقع بھی
کبھی کبھار ہی ملتاہے۔سارا سال پیچیدہ مقدمات میں مصروف رہنے والی وکلاء
برادری کوہر سال اگست کی چھٹیوں میں موقع میسرآتا ہے جب وہ فیملی اور
دوستوں کے ساتھ وقت گزارسکتے ہیں، سیروتفریح میں گزار کراپنے دماغ کو اگلے
گیارہ مہینے استعمال کرنے کیلئے بہتر انداز میں تیار کرسکتے ہیں۔اُس پر
غنیمت کہ مجھے وکلاء کے ایسے گروپ نے باعزت ممبر شپ سے نوازا جو ہر سال
اگست کی چھٹیوں میں شمالی علاقہ جات کا مطالعاتی دورہ کرتا ہے۔ پاور گروپ
آف لائرزلاہوربار کے وکلاء کا جمہوری گروپ ہے جوکاہنہ نو اور اس کے
گردونواع کے 84دیہاتوں کے مستقل رہائشی وکلاء کی نمائندگی کرتا ہے ۔گروپ ہر
سال اگست کی چھٹیوں میں شمالی علاقہ جات کا مطالعاتی دورہ کرتا ہے اس مرتبہ
ایبٹ آباد،مانسہرہ،بٹ گرام،تھاکوٹ،بشام،داسو،چلاس، فیری میڈوزاور نانگاپربت
کے مشکل ٹریک کا دورہ کرنے کا پرگرام ترتیب دیاگیا۔د شوار گزار طویل سفراور
سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے تمام ٹورممبران فکرمند تھے ۔اس سلسلہ میں کئی
مشاورتی میٹنگزہوئیں اور آخر کار یہ طے پایا کہ گروپ اس سال فیری میڈوز اور
نانگا پربت کا ہی دورہ کرے گا۔چیرمین ٹورازم کمیٹی محمد ارشد فتح ،چیف
کوآرڈینیٹر محمد صدیق ممبران محمددلاور ملک،سجاد احمدخان ،ذوالقرنین حمیدپر
مشتمل کمیٹی نے ٹریول ایجنسی دی ٹریکرز (The Trekkrez)کے ساتھ معاملات طے
کرلئے ۔ٹورکے تما م انتظامات ٹریول ایجنسی کے چیف آرگنائزر زاہد خان کے ذمہ
تھے۔ راقم باحیثیت چیرمین طویل اور مشکل سفر کا سوچ کرتمام دوستوں کے حوالے
سے فکرمندتھا۔ٹور کی روانگی سے چند گھنٹے قبل مدینہ منورہ مسجد نبوی سے
پیرومرشدسید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست کی فون کال آئی۔آپ نے محبت
بھرے انداز میں سلام کے بعد میرا، فیملی اور دوستوں کا حال احوال پوچھا
۔راقم نے پیرومرشد کو عمرہ اوراعتکاف کی مبارک باد پیش کی توآپ نے
فرمایاعمرہ اورا عتکاف تواﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر سال کرتا ہوں ،اس
مرتبہ اعتکاف خصوصی طور پر اُمت مسلمہ کی خستہ حالی، پاکستان کی سلامتی اور
سودی نظام کے خاتمے کیلے مسجد نبوی میں کیا۔ ملک وقوم اور ساری دنیا کے
مسلمانوں کی کامیابی وکامرانی کیلئے دُعا کی۔موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے
راقم نے پاور گروپ آف لائرز کے لاہور سے نانگا پربت تک کے سالانہ مطالعاتی
دورے کے سفر کیلئے خیرو عافیت کیلئے دُعا کی درخواست کی جس پرآپ نے درخواست
قبول کرتے ہوئے دُعا فرمائی ۔نماز مغرب آستانہ پیرسید امام علی شاہ آف
گجومتہ شریف کی جامع مسجد میں ادا کرنے کے بعد پاور گروپ آف لائرز کاوفد جس
میں راقم چیرمین پاور گروپ آف لائرز محمد رضا ،وائس چیرمین محمد ارشد فتح
چیف الیکشن کمیشن محمد صدیق ،صدر ملک محمد انور،سیکرٹری اطلاعات کنول آصف
اقبال، سابق چیرمین اورنگزیب چوہدری ،سابق صدر محمد ارشد رضا ،سابق صدر
محمد دلاور ملک ،سابق صدرمحمد ناصر خان ،محمدکلیم اخترمغل،جعفر حسین ملک
زادہ ،سجاد احمد خاں،سیٹھ محمد وسیم،شاہدعلی دولوت، محمد قاسم ملک ،ریئس
احمد خاں،انور حسین ، ذوالقرنین حمید ایڈووکیٹس ہائی کورٹ لاہور شامل
تھے۔دو ممبران محمد عرفان بھٹی اور میاں محمود احمد سفر شروع ہونے سے پہلے
ہی ڈراور خوف کے مارے اپنے موبائل فون بند کرکے روپوش ہوگئے جب تمام تر
کوششوں کے باوجود اُن کے ساتھ رابطہ نہ ہوپایا توبلا آخر گروپ نے اُن دونوں
کے بغیرسفر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شام کے وقت ہلکے بادلوں اور ٹھنڈی
ہوانے گرمی کی شدت میں کمی کرکے موسم خوشگوار بنا دیا تھا۔یکم اگست شام
8بجے کثیر تعداد میں وکلاء حضرات اور دوست احباب نے نیک خواہشات اور دُعاؤں
کے ساتھ لاہور سے رخصت کیا۔تمام دوستوں نے باآواز بلند سفر کی دُعا اور
قرآنی آیات کی تلاوت سے آغاز سفر کیا۔جونہی گاڑی
سفر پر روانہ ہوئی توکچھ دوست جو سفری مشکلات کے حوالے سے معلومات رکھتے
تھے بیس کیمپ نانگا پربت ،فیری میڈوز کی مشکل ترین اور طویل چڑھائی اور
موسمی حالات کے متعلق سوچ کر فکر مند تھے پھر بھی نانگا پربت کے طلسم ،تجسس
اور فطرت کے نظاروں کو دیکھنے کی جستجوبرقرار رہی ۔فیروز پورروڈسے جی ٹی
روڈپرسفر کرتے ہوئے گوجرنوالہ پہنچ کرمحمدارشد رضا گاڑی سے ُاتر کر کیک
خرید لایا دوستوں نے راقم کی سالگرہ گاڑی میں کیک کاٹ کرمنائی ۔یہ چھوٹی سی
تقریب اس قدر پروقار تھی کہ ساری زندگی یاد رہے گی۔ رات 12بجے لالہ موسیٰ
اور کھاریاں کے مقامی ہوٹل سے چائے اور بسکٹ سے لطف اندوز ہوئے ۔ نماز عشاء
قصر با جماعت ادا کرنے کے بعد دوبارہ سفر کا آغازکیا۔اسلام آباد کے قریب
فیض آباد پیٹرول پمپ پر نماز فجر ادا کی اور گاڑی کی ٹینکی ریفل کروائی
گئی۔صبح آٹھ بجے مانسہرہ اور بٹ گرام کے درمیان واقع چھَتر پلین قصبہ PTDC
کے ہوٹل پہنچے تو وہاں ٹورانتظامیہ کی بہترین کارکردگی کی بدولت ناشتہ تیار
تھا۔تمام دوست فریش ہوکر ناشتے کی ٹیبل پر آگئے،پراٹھوں،ایگ فرائی اور چائے
سے ہماری تواضع کی گئی ۔ سرسبز اور بلند وبالا پہاڑوں پر مشتمل یہ علاقہ
قدرت کی کارہ گری کاخوبصورت نظارہ پیش کرتاہے ۔تمام دوستوں نے ان سحر
انگیزنظاروں کواپنے اپنے کیمروں کی آنکھ سے قید کرلیا ۔کیمروں میں قید ہونے
کے باجود قدرت کے حسین شاہکار پوری طرح آزاد نظر آئے۔تقریبا ایک گھنٹہ آرام
کرنے کے بعد سفر دوبارہ شروع کیا گیا اور ہم بٹ گرام سے ہوتے ہوئے تھاکوٹ
کے مقام پر پاکستان کے سب سے بڑے دریا،دریائے سندھ کے پُل کو عبور کیا
اوردریائے سندھ کے ساتھ بائیں جانب بل کھاتی ہوئی سڑک سرسبز پہاڑوں،درختوں
اور چشموں کی وادی سے گزرے تو ٹھنڈی ہوا خوشگوار موسم اور خوبصورت مناظرنے
تازہ دم کردیا ۔اُن دنوں پنجاب میں گندم کی فصل کٹ چکی تھی ،چھتر پلین کے
کھیتوں میں ابھی تک گندم کی سنہری فصل کسانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی
تھی جبکہ بشام کے کھیتوں میں گندم ابھی تک سبزحالت میں لہلا رہی تھی ۔تین
گھنٹے کی مسافت کے بعدہم لوگوں خیبرپختون خواہ کے مشہورضلع بشام پہنچے جو
جغرافیائی لہاظ سے بہت اہم ہے ۔شہر کے وسط سے ایک راستہ پاکستان کے
مشہوروادی، وادی سوات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہمارا سفر ابھی مسلسل دریائے
سندھ کے ساتھ تقریباسات گھنٹوں کا باقی تھا۔جونہی ہم نے بشام شہر کوعبور
کیا تو سنگلاخ خشک بنجر پہاڑوں نے سڑک کو اپنی آغوش میں لے لیا۔بشام سے
نکلتے ہی خشک پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے بل کھاتی ہوئی سڑک
سے دوپہر4بجے داسوان کانٹی نینٹل ہوٹل پہنچے ۔تمام دوستوں کے چہروں پرطویل
سفرکی تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے لیکن ابھی سفر جاری تھا۔داسو ہوٹل سے
کھانا کھانے کے بعد ظہراور عصر کی نماز باجماعت اد ا کرنے کے بعددوبارہ سفر
شروع ہوگیا ۔13سو کلومیٹر لمبی شاہراہ قراقرم جو چین اور پاکستان کے
انجیئنروں اور پاک فوج کے جوانوں کی قربانی کابے مثال کارنامہ ہے پر رواں
دواں تھے ۔یہ سڑک حسن ابدال سے شروع ہوکرایبٹ آباد ،مانسہرہ
،بشام،داسو،چلاس،گلگت،ہنزہ ،خنجراب سے ہوتی ہوئی سوست کے مقام سے چین کے
شہر کاشغر پہنچتی ہے ۔چین اور پاکستان کے 25ہزار کارکنوں نے شاہراہ قراقرم
خشک پہاڑ وں کو توڑ کربنائی ۔اس کی تعمیر کے دوران سینکڑوں افواج پاکستان
کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔اس سڑک کی تکمیل کے بعدچین اور
پاکستان کے درمیان ایک نئے تجارتی دور کا آغاز ہوا۔ دنیاکی عظیم شاہراہ
قراقرم بلندوبالا پہاڑوں کے ساتھ سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی چلتی ہے اس
کے دوسرے کنارے پر ہزاروں فٹ گہرائی میں دریائے سندھ رواں دواں ہے۔شاہراہ
قراقرم پر سفر کرتے ہوئے دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پرپہاڑوں کا لامتناہی
سلسلہ ہے ۔شاہراہ قراقرم پر بلند و بالا پہاڑوں کے طویل سلسلے کے درمیان ہم
نے دریائے سندھ کے ساتھ سینکڑوں میل کا سفر طے کیا۔یہ سڑک دنیا کے آٹھویں
عجوبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عالمی ریکارڈ کے مطابق اسے عجوبوں کی لسٹ میں
شامل نہ کیا جاسکا۔نئی نویلی دلہن کے لہنگے پر بنے نقش و نگار کی مانند
پہاڑوں کی چھاتی کاٹ کر چلتی شاہراہ قراقرم حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے
خستہ حالی کا شکار ہوچکی ہے اوراس خستہ حالی نے ہمیں آہستہ چلنے پر مجبور
کردیا ۔مسلسل 24گھنٹے کی مسافت کے بعد رات آٹھ بجے پاور گروپ کا قافلہ
شنگریلہ ہوٹل چلاس پہنچاجہاں انتظامیہ نے پہلے سے ہی کمرے بک کروارکھے تھے
۔ انتطامیہ نے لذیذڈنر کا اہتمام کررکھا تھا ۔دریائے سندھ کے کنارے شنگریلہ
ہوٹل قدرت کے حسین نظاروں کے درمیان واقع ہے۔ڈنر کے بعدتمام دوست
خوشگوارموسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہوٹل کے لان میں پہنچے ۔ستاروں کیڈ
جھرمٹ میں چاند نے آسمان پر پوری آب وتاب کے ساتھ محفل سجائی ہوئی تھی اور
اس مسحور کن نظارے نے رات کی ٹھنڈک کوگرما دیاتھا ۔دریائے سندھ کے بہاؤ سے
پیدا ہونے والی مخصوص آواز نے عجیب سحر طاری کررکھا تھا۔یہ پہلا موقع تھا
جب ہمیں مل بیٹھ کرتبادلہ خیال کا موقع ملا۔سفر سے پہلے روپوش ہونے والے
2ممبران موضوع گفتگوبنے رہے اورتمام دوست اُن کے رویے پر شدید نالاں تھے
۔اکثریت کی رائے کے بعد پاور گروپ آف لائرزکے صدر ملک محمد انورنے ممبر
محمد عرفان بھٹی اور میاں محمود احمد کی ممبر شپ معطل کردی اورسیکرٹری
انفارمیشن آصف اقبال کنول نے صدر کے حکم پرتمام ممبران PGLکو بذریعہ ایس
ایم ایس فیصلے سے آگاہ کردیا ۔صبح آٹھ بجے ناشتہ کرنے کے بعدتمام دوستوں نے
ہوٹل سے فیری میڈوز کیلئے ہائیکنگ سٹکس اور برساتی کوٹ خرید کیے۔ چلاس
شاہراہ قراقرم پر ابیٹ آباد کی طرح بڑا شہر ہے جو چاروں طرف سے خشک
بنجرپہاڑوں میں گھرا ہواہے۔ہم چلاس سے رائے کوٹ کیلئے گاڑی میں سوار ہوئے
۔رائے کوٹ کا مقام چلاس سے 58کلومیٹر دور ہے ۔بلند و بالا پہاڑوں کے درمیاں
بل کھاتی ہوئی شاہراہ ریشم سے ہوتے ہوئے دوگھنٹوں کی مسافت کے بعدرائے کوٹ
بریج پہنچے۔شاہراہ قراقرم رائے کوٹ کے مقام پر دیوہیکل پل کے ذریعے دائیں
پہاڑوں سے بائیں پہاڑوں پر منتقل ہوجاتی ہے۔یہاں سے گلگت 100کلومیٹر کے
فاصلے پر ہے۔ اس مقام کو فیری میڈوز کا بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے۔یہاں
اکادُکا ہوٹل اور گیراج موجود ہیں۔رائے کوٹ پہنچ کر تمام دوستوں نے اپنا
اپنا سامان گاڑی سے اُتارلیا ۔انتظامیہ نے پہلے سے ہی مخصوص طرز کی جیپوں
کا انتظام کررکھا تھا کیونکہ یہ ٹریک انتہائی خطرناک ہے اس لئے ان جیپوں
میں پانچ سے زیادہ افراد سوار نہیں ہوسکتے۔تمام ممبران اپنے سامان کے ساتھ
گاڑیوں میں سوار ہوگئے اورسب سے آخری جیپ میں راقم ،شاہد
دولوت،زاہدخان،روحیل ،جعفر حسین ملک زادہ اورمحمد ارشد رضا سوار
ہوکر’’تاتو’’گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں ذرئع ابلاغ کی کمی کی وجہ سے
مقامی لوگوں نے اپنا ایک سسٹم بنا رکھا ہے جہاں وہ نمبر کے حساب سے چلتے
ہیں ۔آپ گاڑی کا نمبراور ڈرائیور کا نام لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
واپسی کا وقت اور دن ڈرئیوار کو بتادیتے ہیں ۔ڈرائیور مقررہ دن اور وقت پر
آپ کواُسی مقام پر ملتا ہے جہاں اُسے چھوڑاجاتا ہے ۔سفر کے اختتام پر آپ سے
چھ ہزار پانچ سو روپے کرایہ وصول کرتا ہے۔زیادہ تر ڈرائیورز کا تعلق تاتو،
جیل اورفیری میڈوز گاؤں سے ہے۔اس سڑک پر مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر آپ
سفر نہیں کرسکتے کیونکہ یہ سڑک مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہے
جسے وہ اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔رائے کوٹ سے تاتو گاؤں کے سفر میں زندگی
اور موت میں چند انچ کا فرق محسوس ہوتا ہے۔یہ سڑک ہزاروں فٹ اُونچے پہاڑوں
کے درمیان چھوٹے چھوٹے پتھروں کا راستہ ہے۔دائیں طرف آسمان کو چھوتے ہوئے
بلند بالاخطرناک قسم کے خشک پہاڑ، بائیں طرف ہزاروں فٹ گہرائی میں طوفانی
نالہ بہتا ہے اورنالے کے دوسرے کنارے پر بلندوبالا پہاڑوں کا سلسلہ ساتھ
ساتھ چلتا ہے۔قدیم زمانہ کی فورویل جیپ پتھروں پر ہچکولے لیتی مسافروں کے
دل دہلاتی ہوئی آسمان کی طرف تیزی کے ساتھ چڑھتی ہے۔دوران سفر جیپ کے
ٹائروں کے نیچے پتھر آتے رہتے ہیں۔کئی مقامات پر جیپ کے سفر کے دوران
پسلیاں جھٹکوں کی وجہ سے چٹختی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ،کان بند اور خوف کے
مارے دل حلق کوآتا محسوس ہوتا ہے۔ہزاروں فٹ نیچے بہتے پانی کو دیکھ کرجسم
میں سرسراہٹ پھیل جاتی ہے۔یہ میری زندگی کا خطرناک ترین دن تھا ۔رائے کوٹ
اور تاتوگاؤں کا فاصلہ 14کلومیٹرہے ،جسے جیپ اڑھائی گھنٹوں میں طے کرتی ہے
لیکن لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ہمیں جیپوں سے اُترکردوکلومیٹر کافاصلہ پیدل
طے کرنا پڑا۔ہمارے بیگ پورٹرزکے حوالے کردیئے گئے جنہوں نے سامان فیری
میڈوز کے کاٹیج تک پہنچاناتھا۔ تمام دوست پانی کی بوتلیں اور ہائیکنگ سٹک
تھامے مشکل ترین سفر طے کرکے تاتوگاؤں پہنچے جہاں دال چاول سے تمام دوستوں
کی تواضع کی گئی۔تازہ دم ہوکر ہم نے تاتوگاؤں سے فیری میڈوزتک بارہ کلومیٹر
لمبے ،تنگ و کشادہ راستے پر چل کرچڑھائی کی طرف سفر طے کرنا تھا۔اورنگزیب
چوھدری، محمد صدیق،شاہد دولوت اور رئیس خان نے گھوڑوں پر سفر کرنے کا فیصلہ
کیاجبکہ باقی تما م دوست پیدل چلنے کیلئے تیار تھے۔گھوڑے پر سفر پیدل چلنے
سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ گھوڑے کی معمولی سی غلطی آپ کوہزاروں فٹ نیچے
موت کی وادی میں دھکیل سکتی ہے۔پیدل ٹریک جیپ ٹریک سے زیادہ خطرناک اور
سیدھی چڑھائی پر مشتمل تھاجہاں آکسیجن کی کمی ،دائیں طرف خوفناک آسمان کو
چھوتے ہوئے اُونچے پہاڑاوربائیں طرف ہزاروں فٹ نیچے بہتے نالے کا شور فضا
کو مزید خوفناک بنارہا تھا۔ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعدفیری میڈوز کا جنگل
شروع ہوگیاجس میں چیڑاور پائن کے گھنے درخت ہیں۔ اکثر دوستوں کی ہمت یہاں
پہنچ کرجواب دے گئی کیونکہ تمام پروفیشنل وکلاء زندگی میں پہلی مرتبہ ایسی
مشکل چڑھائی چڑھ رہے تھے۔سفرمشکل ترین لیکن مناظر انتہائی خوبصورت
تھے۔بائیں جانب پہاڑ سرسبزوادی کی شکل اختیار کیے ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے
تھے ۔دور آسمان کو چھوتی ہوئی نانگا پربت کی چوٹی ہمیں نظر آرہی تھی ۔رائے
کوٹ کے مقام پر چلچلاتی دھوپ، موسم انتہائی گرم جبکہ جوں جوں ہم فیری میڈوز
ی کی طرف بڑتے جارہے تھے موسم ٹھندا اور خوشگوار ہوتاچلا گیا ۔ نانگا پربت
پہاڑ کی برف پوش چوٹی سے گلے مل کرآنے والی ہوائیں انتہائی سرد اور ٹھنڈی
محسوس ہورہی تھیں۔راستے میں جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کے چشمے نالے میں گرتے نظر
آرہے تھے ۔ماحول کی خوبصورتی اور نظاروں سے لطف اندوزہوتے ایک دوسرے کا
حوصلہ بڑھاتے ہم منزل کی طرف رواں دواں تھے ،جسم تھکن سے چُورتھے اورایک
ایک قدم منوں بھاری محسوس ہورہا تھا۔ساڑھے تین گھنٹے کی طویل ،پُرخطر مسافت
کے بعد ہم دنیا کی جنت کے دروازے پرکھڑے تھے۔ فیری میڈوزکی خوبصور ت ترین
چھوٹی سی جنت کا شمار دنیا کے پُرکشش اور حسین و جمیل مقامات میں ہوتا ہے
اورایسا محسوس ہواکہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی صورت میں
جنت کا عکس زمین پر اُتار دیا ہے۔پہلی نظر میں ہی انسان اس کے سحر میں کھو
جاتا ہے ۔تقریباًسات بجے شام ہم نے فیری میڈوز کے سبز و شاداب لان میں نماز
مغرب باجماعت اور شکرانے کے نفل ادا کئے ۔شام کے وقت سردی میں اس قدر اضافہ
ہوگیا کہ ہمیں گرم کپڑے پہننے پڑے ۔اُس وقت گہرے سیاہ بادلوں نے نانگا پربت
کو اپنی آغوش میں چھپا رکھا تھا۔لان میں آگ جلاکر یہاں آئے ہوئے سیاح سردی
کی شدت کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔شدید سردی نے مجھے بھی آگ کے قریب جانے
پر مجبور کردیا۔محمد ناصر خان پہلے ہی وہاں موجود تھا جومجھے دیکھتے ہی
بولا چیرمین صاحب باقی دوست کدھر ہیں؟ مجھے تو تھکن کی وجہ سے بخار
اورشدیدسردی محسوس ہورہی ہے۔میں نے کہا تمام دوست کاٹیج میں پہنچ چکے
ہونگے۔ناصر خان جلدی سے اُٹھا اور ہم دونوں بھی کاٹیج کی طرف روانہ ہوگئے
۔وہاں سے چلتے ہی بارش شروع ہوگئی توہم نے ایک ہٹ کے اندر پناہ لے کر بارش
تھمنے کاانتظار کیا،تقریبا بیس منٹ کے بعد بارش تھم گئی ۔تب تک شام کا
اندھیراپھیل چکا تھا۔وہاں پر موجودسیاحوں سے فیری میڈوز کاٹیج کا پتہ
پوچھاتواُنہوں نے ہماری پریشانی دیکھ کر کاٹیج تک ہماری رہنمائی کی ذمہ
داری قبول کی اور اپنی گرم چادر ا ُتار کر ناصر خان کودے دی ۔ہلکی بوندا
باندی میں ٹارچ لائٹ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ہمیں کاٹیج تک پہنچا دیا
۔کاٹیج میں دوست ہمارے منتظر اورفکر مند تھے ۔مشکل ترین سفر کے بعد منزل
مقصود پر پہنچنے کی خوشی میں سفر کی تھکان بھول کر ہم خوش گپیوں میں مشغول
ہوگئے ۔چند دوست ٹور کمیٹی سے خفا بھی ہوئے کہ اتنے مشکل سفر کے بارے میں
ہمیں پہلے سے آگاہ کیوں نہ کیاگیا۔چیف کوآرڈینیٹر محمد صدیق نے وضاحت کرتے
ہوئے بتایا کہ سفر کی مشکلات کے متعلق پہلے بتا دیا جاتا تو بہت سے دوست آج
ہمارے ساتھ اس خوبصورت جنت کی بجائے گھر بیٹھے کسی نیوز چینل پر ڈیپریشن
زدہ خبریں سن کر اپنا بلڈ پریشر ہائی کررہے ہوتے۔راقم نے تمام حالات کا
جائزہ لینے کے بعد دوستوں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے بلند آواز میں صدیق
کا نام پکارا تو سب نے یک زبان ہوکرمردہ باد کا نعرہ لگادیا،نعروں کا سلسلہ
کافی دیر تک جاری رہا ،ایک موقع پر صدیق خود بھی شامل ہوگیا۔رات دس بجے تک
ہم فریش ہوکر فیری میڈوز کاٹیج کے کشادہ ڈائنینگ ہال پہنچے جہاں رات کے
پُرتکلف کھانے اورمقامی قہوہ سے لطف اندوزہوئے۔ جسم درد کیلئے تمام دوستوں
نے دو،دوگولیاں پیناڈول لیں ۔پہاڑ کی بلندی پر رات کے آنگن میں سجے ستارے
بہت قریب آکرنمایاں نظر آرہے تھے۔ایسا لگا جیسے ستاروں کے غباروں میں ہوا
بھردی گئی ہو۔یہ منظر ہمارے لیے بالکل نیا اور اجنبی تھا ۔دیر تک آسمان کو
تکنے کے بعد کاٹیج پہنچ کر تمام دوست گہری ،تھکاوٹ بھری نیند کی بانہوں میں
بانہیں ڈال کر سو گئے۔4اگست کی صبح نیند سے بیدار ہوئے تو کاٹیج کے پردے
ہٹائے جاچکے تھے،سامنے نانگا پربت کی بلند و بالاچوٹی سیاہ بادلوں کی چلمن
اُتار کربرفیلے سر پہ سفید بادلوں کی دیوہیکل پگڑی پہنے یوں نظر آئی جیسے
کوئی روحانی شخصیت ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہو۔اُس وقت پیرومرشد سید عرفان
احمد شاہ بڑی شدت سے یاد آئے ۔میں دیر تک حیرت زدہ نظروں سے اپنی زندگی کی
خوبصور ت صبح کودیکھ کرخیالوں ہی خیالو ں میں پیرومرشد کے ساتھ باتیں کرتا
رہا۔ناشتے کے بعدایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے فیری میڈوزگراؤنڈ پہنچے
۔سرسبز میدان کے آخری کنارے جھرنوں اور چشموں میں گھِرے ہوئے لکڑی کے
مکانات سے بسا چھوٹا سا گاؤں کسی منجھے ہوئے مصورکے ہاتھوں سے بنی حسین و
جمیل پینٹنگ کا منظر پیش کررہا تھا ۔ چشموں کے اردگرد میدانوں میں گھاس
چرتے ہوئے بھیڑبکریاں،گائے اورگھوڑے اس پینٹنگ میں قدرت کے مزید رنگ بھر
رہے تھے۔چشموں کا پانی ایک ندی کی صورت دائرے میں گھومتاہوامیدان کو سیراب
کرتا فیری میڈوز جھیل میں جاگرتا ہے ۔یہ ندی چِیڑاور پائن کے اُونچے اُونچے
درختوں کے درمیان نانگا پربت کا خوبصور ت عکس اپنے دامن میں بسائے یوں چلتی
ہے جیسے کو ئی بانکی مٹیار دور کنویں سے پانی کا گھڑاسر پرا ُٹھائے اپنے
اجنبی ساجن کی یاد میں ملن کے گیت گنگناتے ہوئے لہراتی بل کھاتی ہوئی چلتی
ہے۔جھیل کا نظارہ دیکھ کر پلٹے تو مقامی لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے،ارشد فتح
لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہوگیا اور ہم گراؤنڈ کے ایک طرف بیٹھ
کر کرکٹ میچ اور سنہری دھوپ اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے
رہے۔یہاں ہمیں پاکستان اور بیرون ممالک کے سیاح اپنی فیملیوں کے ساتھ فطرت
کے نظاروں سے لطف اندوزہوتے نظر آئے ۔یہاں پہنچ جانے کے بعدقدرت کے حسن اور
انسانی جستجوکے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ اس جدید دور میں بھی پرنٹ
، الیکٹرونکس میڈیا اور موبائل فون سمیت دیگر ذرایع ابلاغ نہ ہونے کی وجہ
سے سیاحوں کا رابطہ پوری دنیا سے کٹ جاتا ہے۔فیری میڈوزکے میدان کے دائیں
جانب انتہائی بلندی پر ایک مقام ایسا ہے جہاں موبائل سروس میسر آجاتی ہے
مقامی لوگ اس مقام کو سگنل پوائنٹ کہتے ہیں۔آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی
کہ یہاں ایک انچ ادھر اودھر ہوجانے سے موبائل سروس غائب ہوجاتی ہے،موبائل
فون کے استعمال کیلئے سگنل پوائنٹ کا خاص مقام ہی مددگارہے۔اس صورتحال کو
ارشد رضا نے انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کے گھر فون کرکے خیرت کی
اطلاع دی اور بتایا کہ موبائل سروس نہ ہونے کی وجہ سے اُن کا رابطہ منقطع
ہوچکا ہے لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔سگنل پوائنٹ سے پہلے برؤ ڈ ویو
کاٹیج میں فرید گجر ،زاہد خان ،ملک شہباز ،محمد صدیق اور راقم یہاں چمکتی
دھوپ میں بکرے کی بھنی ہوئی کلیجی اور قہوہ سے لطف اندوز ہوئے ۔ اس طلسم
زدہ ماحول کے بارے میں محوگفتگورہے۔ایسے محسوس ہواکہ نانگاپربت قدرت کا
عظیم شاہکار ہزاروں سالوں سے دیکھنے والوں کواپنی طرف اسی طرح کھینچتا رہتا
ہے جس طرح کوئی خوبصورت ،بے وفاحسینہ اپنے چاہنے والوں کو پاس بلا کوکسی
چڑیل کی طرح خون پینا چاہتی ہو ۔نانگا پربت کو سر کرنے کی نیت سے آنے والے
کوہ پیماؤں میں سے کم ہی زندہ واپس گھر لوٹتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ
نانگاپربت کوقاتل پہاڑبھی کہا جاتاہے۔ سینکڑوں کوہ پیماء اس خطرناک پہاڑ کو
سر کرنے کی کوشش میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔نانگا پربت سینکڑوں عاشقوں کو
اپنی گود میں ابدی نیند سلا کر کسی مغرور معشوق کی مانند جوں کا توں کھڑا
ہے۔خوب سیر و تفریح کے بعد کاٹیج پہنچے تو انتظامیہ نے دوپہر کے کھانے کے
بعد مینگوپارٹی کا اہتمام کیا جو پاور گروپ کیلئے سپیشل لاہور سے لائے گئے
تھے۔کاٹیج کے باہر چشمے کے کنارے بیٹھ کر میٹھے آموں سے لطف اندوز ہوئے۔
17ہزار فٹ کی بلندی پر فیری میڈوزمیں دن کے وقت درجہ حرارت نارمل جبکہ رات
کے وقت درجہ حرات کافی کم ہوجاتا ہے۔ سردی کی شدت سے بچنے کیلئے آگ جلانا
پڑتی ہے جس کیلئے لکڑی کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو وہاں کثرت سے پائے جانے
والے چیڑاور پائن کے خشک درختوں سے باآسانی حاصل ہوجاتی ہے ۔اس لکڑی کا
استعمال مقامی لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں۔رات کے پراسرار ماحول میں ستاروں
بھرے آسمان کے نیچے آگ کے گرد دائرہ بناکر بیٹھ کر وقت گزرانا بھی یادگار
بن جاتاہے ۔ رات کھانے کی ٹیبل پر اگلے دن کا پروگرام ترتیب دیا گیا ۔صبح
ناشتے کے بعد محمد آصف کنول، سیٹھ محمد وسیم ،شاہد دولوت اور ارشد فتح
کوگائیڈ کے ہمراہ نانگا پربت بیس کیمپ کیلئے رخصت کیا گیا۔بیال کیمپ سے
نانگا پربت بیس کیمپ کا سفر ساڑھے تین گھنٹے کی پیدل مشکل ترین چڑھائی
پرمشتمل ہے۔اس سفر کے دوران آکسیجن، پانی اور رات ہونے پر روشنی کی کمی کا
سامنا رہتا ہے۔اس لئے روانہ ہونے سے پہلے پانی کا ذخیرہ ،برساتی ،ٹارچ لائٹ
،گائیڈ ،موسم اور وقت کا درست انتخاب ضروری ہے۔ ریئس احمد خاں اوراورنگزیب
چوھدری کاٹیج میں آرام کیلئے ٹھہر گئے جبکہ باقی دوست قطار بناکر پہاڑ کے
کنارے پرخطر راستے پر چلتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرکے بیال کیمپ
پہنچے۔فری میڈوز سے بیال کیمپ تک کا راستہ حسین ترین نظاروں کی گزرگاہ
ہے۔دائیں طرف نانگا پربت کے دامن سے نالے کی صورت اُترتا ہوا پانی اوربائیں
طرف چیڑ کے جنگلات سے بہتی ہوئی ندی اور چشمے بائیں طرف نالے میں گرکر عجیب
سماء پیداکرتے ہیں۔یہ راستہ پرخطر ہونے کے باوجود دنیا کی خوبصور ترین
راستوں میں شمار کیا جاتا ۔بیال گاؤں کے قریب مقامی لوگوں نے پہاڑسے نیچے
گرتے ہوئے چشموں کے پانی کی مدد سے بجلی پیداکرنے والا گریڈا سٹیشن قائم
کررکھا ہے جو اُن کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہے۔اس مقام کی ایک اور
خاص بات یہ کہ یہاں بِرج کے درخت پائے جاتے ہیں ۔اس درخت کی چھال تہہ درتہہ
کاپی کے صفحات کی طرح ہوتی ہے ۔زمانہ قدئم میں اس درخت کی چھال کوتحریر
کیلئے کاغذ کے طور پر استعمال کیا جاتاتھا۔ہندؤمذہب کی 5ہزا رسال قدیم مقدس
کتاب بھگت گیتا اسی درخت کی چھال پر تحریر کی گئی تھی جو آج بھی عجائب گھر
میں موجود ہیں۔قانون دان حضرات کا گروپ ٹور پر تھا جو زمانہ قدیم یا جدید
کی تھیوری نہیں بلکہ شواہد کی روشنی مین سفر کرنے کے عادی ہیں لہٰذاہم نے
بِرج کے درخت کی چھال اُتار کر مشاہدہ کیا تو ثابت ہوگیا کہ وہ واقعی ہی
معیاری ڈائری کے صاف شفاف اوراق کی مانند تھی ۔قدرت کی کارہ گری کاحسن
دیکھیں اس درخت کی چھال سے حاصل ہونے والا کاغذ صدیوں تک اپنی اصل حالت
برقرار رکھتا ہے۔بیال کیمپ سے پہلے ایک چھوٹا سا سائن بورڈ نظر آیا جس
پرسیاحوں کی رہنمائی کیلئے تیر کے نشان کے ساتھ یہ تحریرر قم تھی کہ بیال
گاؤں کے اردگرد تصاویر اُتارنے کی ممانعت ہے۔ سیاحوں کی رہنمائی کیلئے گاؤں
کی حدودکی نشان دہی چھوٹے چھوٹے پتھروں کی مدد سے بونڈری بناکر کی گئی تھی
۔اس راستے کے دونوں اطراف سبزیوں کے کھیت تھے جن کو پہاڑ سے اُترتے چشمے
سیراب کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔دوپہر کے وقت سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک
رہا تھا۔نانگاپربت کی چوٹی جو پہلے بادلوں سے ڈھکی ہوئی تھی ۔دیکھتے ہی
دیکھتے سفید بادلوں کی چادر آہستہ آہستہ سرکتی گئی ،نانگاپربت کی چوٹی کئی
کئی دن بادلوں میں چھپی سیاحوں کوترساتی رہتی ہے۔کئی مرتبہ ملکی و غیر ملکی
سیاح اس چوٹی کا نظارہ دیکھے بغیر واپس جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔یوں لگا
جیسے نانگاپربت کی چوٹی نے کسی کے حکم کی تعمیل میں اپنا گھونگھٹ اُتار کر
ہمارے لئے اپنا حسین چہرہ دکھادیا۔سورج سے روشنی پاکر نانگا پربت کی چوٹی
پر جمی برف چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔بیال کیمپ پہنچ کر تھوڑی دیر کیلئے
دوستوں نے آرام کیا ۔نانگاپربت کے ویوپوائنٹ پر گلیشئر کے خوبصورت نظاروں
سے واپسی پر بیال کیمپ میں دوپہر کے کھانے میں دال چاؤل اور قہوہ ہمارے
منتظر تھے ۔مقامی لوگ ایک خاص قسم کی لسی بناتے ہیں جو بکرے کی کھال میں
بکری اور گائے کے دودھ کو جماکر کھال کے اندر ہی مخصوص انداز میں ہلاہلاکر
تیار کی جاتی ہے ۔بنانے کا انداز عجیب پر یہ لسی ذائقے کے لحاظ سے انتہائی
خوش ذائقہ ہے۔اسی دوران نانگا پربت بیس کیمپ کے مشکل سفرسے واپس پہنچنے
والے دوستوں کا تالیوں اور نعروں کے ساتھ استقبال کیاگیا ۔دوپہر کے کھانے
کے بعد تھوڑی دیر آرام اورپھر فیری میڈوز کاٹیج کیمپ واپسی کا سفر بھی
زندگی کی یادرگار بن گیا۔جس میں زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ،جیسے کوئی
پیچھے سے دھکادے رہاہو،قدم خودبخود کیمپ کی جانب اُٹھ رہے تھے۔کیمپ کے قریب
پہنچ کر دوستوں نے محمد صدیق کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کِنگ آف نانگا
پربت کے خطاب سے نوازا اور اُن کی تاج پوشی کی گئی۔اس مختصرباوقار تقریب کو
سب دوستوں نے خوب انجوائے کیا ۔اگلی صبح ناشتہ کے بعدہمیں لاہور واپسی
کیلئے نکلنا تھا۔ٹور کی اختیامی رات کو یادگار بنانے کی غرض سے دوستوں نے
بون فایئر کا پروگرام بنایا اور مقامی باشندے کو ایک خوبصورت،تندرست و
توانا بکرالانے کا آرڈردیا ۔بعد نماز مغرب دوستوں نے اپنی نگرانی میں بکرا
ذبح کرکے جو بظاہر خوبصورت اور تندرست تھابون فایئر کیلئے ماہر باورچی کے
حوالے کردیااورتمام دوست اپنی اپنی پیکنگ مکمل کرنے کے بعد کیمپ سائٹ پر آگ
کے ارد گرد جمع ہوگئے ،اس موقع پرسیاحت کیلئے آئے ہوئے فیصل خان ،ڈاکٹر
شہباز خصوصی دعوت پرہمارے ساتھ شامل ہوگئے ۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ جلدی
سے رات گزر جائے اور ہم فوراً لاہور کیلئے نکل پڑیں مگر وقت ٹھہرساگیا اور
یوں لگا جیسے گلیشئر کی ٹھنڈی چھاؤں میں رات کی گھڑیاں بھی جم سی گئی
ہوں۔وقت گزرانے کیلئے دوست شعروشعاری اور گانوں کی بیعت بازی میں مشغول
ہوگئے اسی دوران انتظامیہ نے بکرے کو کٹ لگاکر مخصوص قسم کی سیخوں میں ڈال
کر آگ پر بون فائر کیلئے لگا دیا اور ہمیں گرم یخنی پیش کی ۔آکسیجن کی کمی
وجہ سے سات گھنٹے لگاتار آگ پر پکنے کے باوجود بکرے کا گوشت کچارہا۔آخر کار
رات تین بجے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور بکرے کے گوشت کوجیسا ہے
ویساکھانے کا فیصلہ کیاگیا۔یہ گوشت ربڑ کی مانند تھا جسے چبانا انتہائی
مشکل تھا پھر بھی ٹھنڈے موسم ،چاند اورستاروں بھری خوبصورت رات کو ہم نے
خوب انجوائے کیا۔صبح ناشتے کے بعد اپنا سامان پوٹرز کے حوالے کردیا گیا۔دو
گھنٹے پیدل سفر طے کرکے جیپوں تک پہنچے جنہوں نے ہمیں رائے کوٹ پہنچا دیا
جہاں ہماری گاڑی منتظرتھی ۔سارا دن سفر میں گزر گیا ۔شام کے وقت شاہراہ
قراقرم دریاء سندھ پر واقع ثمر نالہ کے مقام پر ہوٹل سے کھانا کھایا اور
نمازمغرب اداکرکے سفر دوبارہ شروع کیا گیا۔سفر کی تھکان نے راقم کو لمبی
نیند سونے پر مجبور کردیا۔ہری پور ہزارہ پہنچنے پر دوستوں نے جگایا جہاں
صبح کا ناشتہ کرکے سفر دوبارہ شروع کیا ۔دوپہر کا کھاناگوجرانولہ سے کھایا
۔لاہور میں داخل ہو کر ہرسال کی طرح گاڑی کے اندر ہی تاثراتی اجلاس
منعقدہوا۔اجلاس کا آغازتلاوت قرآن مجید اور نعت رسول اﷲ ﷺ سے کیا گیا۔تلاوت
قرآن مجید کرنے کی سعادت جعفرحسین ملک زادہ اور سیٹھ محمد وسیم نے بارگاہ
رسول اﷲﷺمیں عقدت کے پھول نچھاور کئے ۔ بعدازاں اجلاس کی باقاعدہ کارروائی
شروع ہوئی جس میں سب دوستوں نے ٹور کے حوالے سے اپنے اپنے تاثرات بیان
کئے۔تمام دوستوں نے ٹور کمیٹی کو بہترین انتظامات پر مبارک باد پیش کی اور
سب نے ٹور کو انتہائی خوش کن اوریاد گارسفر قرار دیا۔ہم زمین پر موجود قدرت
کے حسین و دل کش نظاروں کے سحر میں اس قدر ڈوبے کہ شمالی علاقہ جات کو جنت
کا عکس قرار دیئے بغیرنہ رہ سکے ۔جس نے پاکستان میں رہتے ہوئے فیری
میڈوزاور نانگا پربت کوجاگتی آنکھوں سے نہ دیکھا وہ بد نصیب ہے۔تمام دوستوں
نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات دنیا بھر میں پائے والے
سیاحتی مقامات سے زیادہ دل کش اور خوبصورت ہیں اگر حکومت ان پر توجہ دے
تودنیا بھر سے لوگ وطن عزیز میں موجود قدرت کی کرشمے دیکھنے کیلئے بیتاب
ہوجائیں گے۔ |
|