کیا بڑے جلسے انتخابی کامیابی کی ضمانت ہیں
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
ایک الٹرا ماڈرن لڑکے نے اپنی
گرل فرینڈ سے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ تجرباتی طور پر شادی کر لیتے ہیں اگر
ہم نے محسوس کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے تو ہم ہنسی خوشی علیحدہ ہو جائیں
گے ۔لڑکی نے اطمنان سے پوچھا۔۔۔وہ تو ٹھیک ہے لیکن غلطی کو پالے گا کون ؟اب
ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری نے لندن میں جن لوگوں
سے معاملات طے کیے تھے اس میں کہیں یہ سوال زیر بحث آیا تھا کہ نہیں کہ بعد
میں اس غلطی کا بوجھ کون اٹھائے گا ۔ ہمیں تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ
یہ دھرنا دینے والی پارٹیاں اپنی غلطیوں کے بوجھ اٹھا اٹھا کر تنگ آگئی ہیں
اس لیے اب جلسوں کی طرف رخ کر لیا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ہر بڑی پارٹی
بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کر رہی ہے ۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے جلسوں کا
مقابلہ چل رہا ہے کہ کون کتنا بڑا جلسہ کرتا ہے ۔دھرنا دینے والی پارٹیوں
نے تو شاید اپنے منہ کا مزہ تبدیل کرنے کے لیے اور اپنے کارکنوں کو بوریت
سے بچانے کے لیے بھی اپنی حکومت مخالف تحریک کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی
ہے ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے بڑے جلسوں کے لیے
اتناسرمایہ کون لگا رہا ہے اور کس لیے لگا رہا ہے ۔عمران خان کا ملتان کا
جلسہ بھی بہت کامیاب جلسہ تھا لیکن جلسے کے اختتام میں بھگدڑ سے جس انسانی
المیے نے جنم لیا اس نے جلسے کی اس کامیابی کو گہنا دیا۔ان کے بعدفیصل آباد
میں پاکستان عوامی تحریک کے جلسے نے مولانا طاہرالقادری کے مخالفین کو بھی
حیرت اور پریشانی میں ڈال دیا اس جلسے میں مولانا کی تقریر بھی اچھی تھی
لیکن اس میں انھوں نے اپنے جس لائحہ عمل یا منشور کا اعلان کیا ہے وہ جلسے
میں بیان کرنے اور کاغذ پر لکھنے کے اعتبار سے تو بہت اچھا معلوم دیتا ہے
لیکن پاکستان کی کرپٹ بیوروکریسی ،سابقہ چلتے ہوئے سسٹم اور کمزور عدالتی
نظام میں اس منشور کے نکات کو عمل میں لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ۔بھٹو
صاحب نے 1970کے انتخابی جلسوں میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دے کر عوام میں
ایک جذباتی فضا پیدا کردی تھی اور اس فضا میں انتخاب میں کامیابی بھی حاصل
کرلی تھی لیکن ان کے دور میں عوام کو ان انتخابی وعدوں کے مطابق روٹی کپڑا
مکان تو کیا ملتا مہنگائی بھی قابو میں نہ رہ سکی بھٹو کے خلاف پاکستان
قومی اتحاد کی تحریک کی کامیابی کے اسباب میں ایک سبب وہ مہنگائی بھی تھی
جس کو بھٹو صاحب اپنے دور حکومت میں کنٹرول نہ کر سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ
پاکستان قومی اتحاد نے اپنے نشتر پارک کے انتخابی جلسے میں جب یہ اعلان کیا
کہ وہ برسراقتدار آ کر روزمرہ اشیاء کی قیمتوں کو 1970کی سطح پر لے آئیں گے
اس پر عوام نے تو بہت تالیاں بجائیں لیکن بعد میں ملک کے سنجیدہ حلقوں کی
طرف سے اس پر تنقید کی گئی کہ ایسا عملاَ نا ممکن ہے پیچیدہ معاشی عمل میں
پیچھے کی طرف نہیں جایا جا سکتا رفیق باجوہ صاحب کو ایسا اعلان نہیں کرنا
چاہیے تھا ۔جلسوں میں عوام کو جو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں تو کیا کوئی وسط
مدتی انتخاب کا کہیں فیصلہ ہو گیا ہے کہ اب تو پی پی پی بھی 18اکتوبر کو
کراچی میں اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے تقریباَ تمام بڑی
پارٹیاں کسی نہ کسی حوالے سے عوامی رابطے کا پروگرام بنا رہی ہیں ۔جماعت
اسلامی بھی 21,22,23, نومبر کو مینار پاکستان پر ایک بہت بڑا تین روزہ
عوامی اجتماع کا انعقاد کر رہی ہے جس میں جماعت کے ارکان،کارکنان،متفقین،
حامیان اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ پورے ملک سے عوام کی بہت بڑی تعداد کو
کو ساتھ لانے کی کوشش کی جائے گی اور شاید آخری دن یعنی 23نومبر کو جلسہ
عام بھی کیا جائے گا اس پروگرام کی کامیابی کے لیے امیر جماعت اسلامی جناب
سراج الحق نے پورے ملک میں دوروں کا پروگرام بنایا ہے آج کل وہ پنجاب کے
مختلف اضلاع میں عوام کے پاس جارہے ہیں جس میں وہ عوام کو اس تین روزہ
پروگرام میں شرکت کی دعوت دیں گے اس کے بعد سندھ اور پھر دیگر صوبوں میں
بھی جائیں گے ۔ایک اہم سوال جو اس موضوع کا عنوان بھی ہے کہ کیا یہ بڑے بڑے
جلسے انتخابات میں کامیابی کی ضمانت ہیں ۔میرے خیال میں اس کا جواب نفی میں
ہے ۔ہاں ایک حد تک یہ جلسے اثر انداز تو ہوتے ہیں ۔اگر سو فیصد ایسا ہوتا
تو پھر 1970کے انتخاب میں جماعت اسلامی کو کامیاب ہو جانا چاہیے تھا ،اس
لیے کہ انفرادی پارٹیوں کے عوامی شو کے لحاظ سے اب تک کی انتخابی اور سیاسی
تاریخ میں جماعت اسلامی کی طرف سے 31مئی1970کو ہونے والا "یوم شوکت
اسلام"سب سے بڑا عوامی شو تھا ۔بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہی شوکت
اسلام جماعت اسلامی کی ناکامی کا سبب بنا ۔ایک تو یہ کہ اس پروگرام کی
لمبائی چوڑائی اور فقید المثال حاضری نے اسلام بیزار عناصر کی نیندیں اڑا
دیں ۔دوسری وجہ( اس کی وجہ سے شکست کی )یہ ہے کہ یہ وقت سے بہت پہلے ہو گیا
جس کی وجہ سے مخالفین کو اپنی صفیں درست کرنے اور اپنے آپ کو منظم کرنے کا
موقعہ مل گیا بہر حال جلسوں میں حاضری سے وقتی طور پر سیاسی لیڈر کا دماغ
چوتھے آسمان پر پہنچ جاتا ہے جیسے کہ فیصل آباد کے جلسے میں مولانا طاہر
القادری نے کہا کہ فیصل آباد کی تمام قومی اور صوبائی کی نشستیں آئندہ
انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک کی ہوں گی ۔دوسری طرف عمران خان تو اپنے
آپ کو وزیر اعظم بنا چکے ہیں ۔ان کی تقریر بولی بدن اور ان کا انداز ایسا
ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں نواز شریف نے زبر دستی ان کے
منصب پر قبضہ کیا ہوا ہے بڑی پارٹیوں میں ن لیگ بھی کسی بڑے جلسے کا
پروگرام بنا سکتی ہے ،لیکن اس کی ساری توجہ اقتدار بچاؤ مہم کی طرف ہے اس
کے لیے وہ فوج سے اپنے تعلقات بہتر بنانے اور بہتر رکھنے کی کوشش کررہی ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے اشو پر وزیر اعظم کی تقریر اس کے
بعد سرتاج عزیز کا بانکی مون کو خط لکھنا جس میں کشمیر کے حوالے سے انھیں
یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دانوں کی روشنی میں کشمیر
کا مسئلہ حل کیا جائے ، پھر آج دوبارہ نواز شریف صاحب کا اس حوالے سے بیان
آیا ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جلد
ازجلد حل کیا جائے ۔فوج سے تعلقات کے حوالے سے پرویز مشرف فیکٹر بھی اہم ہے
لیکن ابھی اس موضوع پر حکومت کی طرف سے خاموشی ہے ۔ن لیگ کا ایک پروگرام یہ
بھی سننے میں آرہا ہے کہ شاید اگلے سال کے شروع میں پورے ملک میں یعنی تین
صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے جائیں ۔لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ
حکومت عوام کوکچھ دینا بھی چاہتی ہے اس کے لیے لوڈشیڈنگ کی دورانیے کو کم
کرنا چاہتی ہے ۔چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وہ وعدہ جو، ن لیگ نے
انتخابی جلسوں میں کیا تھا وہ اس کے لیے ایک آزمائش بن گیا ۔انتخابات کے
بعد وہ چھ ماہ والی بات بھول گئے اور اب کہا کے دوسا ل بعدلوڈشیڈنگ ختم کر
دیں گے ،جو اب بھی مشکل نظر آ رہا ہے یہ بات تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ
ان دھرنوں نے حکومت کے ہاتھ پاؤ پھلا دیے ہیں ۔ |
|