خوراک انسان کی ذندگی میں سب سے
ذیادہ ضروری شےء ہے۔انسان لباس ،مکان اور دیگر آسائش ِ ذندگی کے بغیر تو
ذندہ رہ سکتا ہے لیکن مناسب خوراک حاصل کئے بغیر اس کا ذندہ رہنا بالکل نا
ممکن نظر آتا ہے۔آج کے سائنسی دور میں جتنی بھی ٹیکنالوجی آ چکی ہے لیکن
ابھی تک کوئی ایسی چیز ایجاد نہیں ہوئی کہ جو ایک انسان کی بھوک کو بغیر
خوراک کے ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ دراصل خوراک انسان کو توانائی بخشتی
ہے۔اور نہ صرف انسان بلکہ ہر جاندار کے لئے یہ یکساں اہمیت کی حامل ہے ۔اور
خوراک اگر تازہ اور غذائیت سے بھر پور ہو تو کھانے کا مزہ دوبالا ہو جاتا
ہے۔کیونکہ خوش ذائقہ اور لذیذ خوراک کھانے سے انسان کو ایک روحانی خوشی
ملتی ہے۔انسان کو آنے والے دورمیں سب سے بڑا مسئلہ خوراک کی کمی کا ہی ہو
گا۔کیونکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خوراک کی طلب میں اتنا ہی
اضافہ ہورہا ہے اور ہر گزرتے لمحے انسان غذائی قلت کا شکار ہوتا جا رہاہے۔
''World Food Day'' ہر سال 16 اکتوبر کو دنیا بھر میں منا یا جاتا ہے۔اور
اس دن کو 150ممالک میں تقریبات رکھی جاتی ہیں۔اس دن کا مقصد یہ کہ انسان کو
خوراک کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا ہے ۔ کہ اس کے ذندہ رہنے میں خوراک
کتنی ضروری چیزہے تا کہ انسان غذاء کی پیداوار کو بڑھانے بارے مزیدسنجیدگی
سے غوروفکر کرے اورمستقبل میں غذائی قلت جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ابھی
سے حکمت عملی تیا ر کرے۔ یوں وہ آنے والی نسلوں کو اس عذاب سے بچا سکے۔اس
سال 2014 ء میں یہ دن اس تھیم یا مرکزی خیا ل کے ساتھ منا یا جائیگا
کہ۔ـ"Feeding the World,Caring for the Earth" عالمی سطح پر خوراک کی بڑھتی
ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا اشد ضروری ہے۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت 2 ارب لوگ خوراک میں ضروری وٹامنز اور
منرلز کی عدم دستیابی کا شکار ہیں اور 165 ملین بچے غذائی کمی کا ۔ اس بات
کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں بھی لوگ
بھوک و افلاس کا شکار ہیں ۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ رزق
کی قدر کی جائے۔کیونکہ روزانہ خوراک کا اچھاخاصہ حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔خاص
طور پر ہمارے ملک میں تو کچھ لوگ کھانا کھاتے ہوئے اپنے کھانے کا اتنا حصہ
آرام سے ضائع کر دیتے ہیں کہ اتنا کھانا کسی دوسرے انسان کی بھوک مٹانے کے
لئے کافی ہوتا ہے۔قدرت نے امیر اور غریب کو چاہے برابر کا رزق نہیں دیا
لیکن کھانے کی گنجائش یا حد تقریبا ایک ہی سی رکھی ہے جیسے کہ اگر کوئی شخص
کتنا ہی دولت مند کیوں نہ ہو لیکن ایسا نہیں کہ وہ ایک وقت میں 20 روٹیاں
کھا جائے گا وہ کھائے گا اتنا ہی جتنی اس میں گنجائش ہوگی۔ہر ملک میں زراعت
کے شعبے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو خوراک فراہم کرے اور غذا
کی پیداوار کو یقینی بنائے جن ممالک میں زراعت کا شعبہ ذیادہ متحر ک نہیں
ہوتا تو ان ممالک کو خوراک درآمد کرنا پڑتی ہے اورذرعی زمین تو قدرت کا بہت
بڑا عطیہ ہوتی ہیں اور ہمارے ملک اس نعمت سے مالا مال ہے۔پاکستان میں اس
وقت کل قابل کاشت زمین کا رقبہ تقریبا 55 ملین ہیکڑ ہے ۔لیکن افسوس کہ اس
زمین کا صرف آدھا رقبہ ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے جبکہ بقایا سرمائے کی
کمی ،پانی کی قلت ،سرکاری جاگیر اور دیگر مسائل کی وجہ سے بیکار پڑی
ہے۔لیکن پھر بھی ہمارے ملک میں زراعت کا شعبہ سب سے بڑا شعبہ ہے اور ملکی
پیداوار کا چوتھا حصہ اس سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن اس شعبے میں مزید بہتری
لا کرہم اپنی برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں ۔ہر سال کئی ہزار ایکڑ کی فصلیں
بارشیں،سیلاب یا کیڑے وغیرہ لگنے سے تباہ ہو جاتی ہیں ۔ جیسے فصلوں کا خاصا
حصہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی نذر ہو گیاہے۔ چلوں کالا باغ ڈیم نہ سہی
لیکن حکومت کم از کم چھوٹے چھوٹے ڈیم ہی بنائے تا کہ جہاں تک ہو سکے ان
فصلوں کو محفوظ کر کے بہتر خوراک حاصل کی جاسکے۔اور کسانوں کے لئے کیڑے مار
ادویات ،سپرے اور کیمیائی کھادیں وغیرہ کو معیاری اور سستا کیا جائے تا کہ
کسان ان کا استعمال کرکے فصلوں کی نشوونما کو مزید بہتر اور غذاء کے حصول
کو یقینی بنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٌٌ'world handwashing day' صابن کے ساتھ ہاتھ دھونے کا عالمی دن ہر سال 15
اکتوبر کو دنیا میں ستر سے ذائد ممالک میں منایا جاتاہے۔جس کا مقصد لوگوں
کو کھانا کھانے سے پہلے اور بیت الخلاء کے استعمال کے بعد صابن سے ہاتھ
دھونے بارے شعور بیدار کرناہے۔اور گندے ہاتھوں سے پھیلنے والی بیماریوں سے
بھی آگاہ کرناہے ۔کیونکہ کئی ایسے خطرناک جراثیم انسان اپنے ہاتھ نہ دھونے
کی وجہ سے اپنے ہی ہاتھوں اپنے اند ر پہنچا دیتا ہے جو بعد میں جان لیوا
مرض کی صورت میں سامنے آتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یوں تو ہاتھ صاف ستھرے
دکھائی دے رہے ہوں لیکن ان پر ہزاروں ایسے جراثیم لگے ہوتے ہیں کہ جو ایک
انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتے۔تمام دنیا میں ہر سال 35 لاکھ سے زائد بچے صرف
ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں
چلے جاتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر وہ بچے ہوتے ہیں کہ جو ابھی ماں باپ کے
ہاتھ سے کھاتے ہیں ۔تو یہاں ان والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو
صاف ستھر ارکھیں تا کہ خود بھی اور اپنے معصوم پھولوں کی ذندگیوں کو محفوظ
بناسکیں۔صاف ہاتھ جراثیموں کو پھیلانے سے روکتے ہیں۔بعض اوقات ایک انسان
دوسرے سے صرف ہاتھ ہی نہیں ملا رہا ہوتا بلکہ انتہائی خطرناک اور جان لیوا
قسم کی بیماریاں دوسرے کے ہاتھ میں تھما رہا ہوتا ہے۔کرنسی یا نوٹو ں کے
زریعے بھی جراثیم ایک دوسرے تک منتقل ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لوگ کھانے سے
پہلے گھرو ں میں تو شائد ہاتھ منہ دھوہی لیتے ہوں لیکن دیکھا گیا ہے کہ
ہوٹلوں میں ذیادہ تر افراد ہاتھ دھوئے بغیر ہی کھانا شروع کر دیتے ہیں اس
کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض اوقات نامی گرامی ہوٹلوں میں بھی
ہاتھ دھونے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا اگر ایسا ہو بھی تو وہاں صابن موجود
نہیں ہوتا۔ اگر صابن ہو بھی اور ارادہ بن جائے توپاکستان میں لوگوں کے ہاتھ
دھونے کے انداز بھی منفرد اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔جیسے کچھ لوگ تو ہاتھ
دھوتے ہوئے پانی کو ہاتھ لگانے کی زحمت ہی کرتے ہیں یعنی پہلی دو انگلیوں
کو انگوٹھے سے ہلکا سا ملا تھوڑا پانی بہایا اور بس۔اب دوسرے وہ جو ہاتھوں
کو پانی کے نیچے پوری طاقت کے ساتھ زور زور سے مَل رہے ہوتے ہیں لیکن پاس
پڑے صابن کو ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔اب تیسرے وہ جو صابن کو ہاتھ لگانے
کی جراء ت کر ہی لیتے ہیں اور ایک مہذب انداز سے ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتے
ہیں لیکن اس کے فورا بعد ہی پاس لٹکے ہوئے جراثیم ذدہ تولیے سے سلام دعا کر
لیتے ہیں ۔اب آخر میں وہ جو پہلے تو صابن سے اچھی طرح اپنے ہاتھ دھوتے ہیں
اور پھر بعدمیں ٹوٹی کو بھی اور پھر بعد میں کسی چیز سے پونچھتے بھی نہیں
یعنی خود بخود خشک ہونے دیتے ہیں۔ بس یہی ہاتھ دھونے والوں کی سب سے بہتر
ین قسم ہے۔حتی المکان کوشیش کی جائے کہ کھانے سے قبل ہاتھ دھونے کے بعد کسی
بھی چیز سے نہ پونچحے جائیں ۔ہوٹل کی دیواروں پر چھوٹے پوسٹر لازمی چسپاں
کئے جائیں کہ جن پر یہ لکھا ہو کہ’ ــــمہربانی ! کھانے سے پہلے ہاتھ دھو
لیں‘اورساتھ تصویری شکل بھی ہو ۔اور ہوٹل انتظامیہ پر لازم ہو کہ وہ ہاتھ
دھونے کا مکمل انتظام کرے اور اس کے علاوہ یہ فوڈ انسپکٹر کی ذمہ داری میں
اس کام کا اضافہ کیاجائے کہ وہ ہوٹلوں میں ہاتھ دھونے والی جگہ کا بھی
معائنہ کرے اور وہاں ہاتھ دھونے کا مناسب انتظام نہ ہونے اور پھر وہاں صابن
نہ ہونے پر بھی ہوٹل مالکان کو جرمانہ کرے۔اسی طرح کے چند چھوٹے سے اقدامات
اٹھانے سے انسان نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی بہت سی بیماریوں سے بچا
سکتا ہے اور لاکھوں ذندگیوں کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ |