دھرنوں کا (کیا)فائدہ

ایک بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ اے،جی سنا آپ نے جس قاضی نے ہمارا نکاح پڑھایا تھا کل اس کا انتقال ہو گیا ۔شوہر نے کہا کہ ہاں بیگم برے کام کا برا ہی نتیجہ ہوتا ہے ۔یہ لطیفہ تو اس لیے پیش کیا کہ جس تلخ موضوع پر بات کرنے جارہے ہیں اس سے پہلے منہ کا مزہ کچھ میٹھا ہو جائے ۔آج کل یہ سوال اب مختلف نشستوں اور بیٹھکوں میں گردش کررہا ہے یا جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تواور سیاسی موضوع پر بات ہوتی ہے توپوچھا جاتا ہے کہ ان دھرنوں کا فائدہ کیا ہوا یا مختصراَ یہ کہ دھرنوں کا کیا فائدہ ؟دھرنوں کا کیا فائدہ یہ تو ایک عمومی مستقل سوال ہے ۔لیکن جو دھرنے اسلام آباد میں پچھلے دو ڈھائی ماہ سے دیے جارہے ہیں ان کا کیا نتیجہ نکلا ؟ اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ برے کام نتیجہ برا ہی ہوتا ہے کہ اب دھرنا دینے والوں کو شاید واپسی کا راستہ نہیں مل پا رہا ہے ۔ان دو ماہ کے دھرنوں کے کئی فوائد بھی ہوئے ہیں ہماری حکومت جو بگٹٹ بھارت سے دوستی کے گھوڑے پر سوار ہو کر پاکستانی عوام کے جذبات کو روندتے ہوئے دوڑی چلی جارہی تھی اس میں ایمر جنسی بریک لگ گیا ۔بلکہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ حکومت نے یو ٹرن لے لیا کہ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تواتر کے ساتھاتنی شدت سے ذکر کیا گیا کہ اس سے پہلے نوازشریف صاحب کی دو مرتبہ حکومت میں بھی نہیں کیا گیا تھا ۔ایک فائدہ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت سنجیدگی سے عوام کو کچھ ریلیف دینے کی فکر میں لگی ہوئی ہے اس دفعہ جو لوگ سرکاری طور پر حج کرنے گئے تھے وہ واپسی پر حکومتی کارکردگی پر بڑے خوش اور مطمئن تھے بلکہ جو لوگ دوبارہ گئے انھیں بہت فرق محسوس ہوا اور جو پہلی بار گئے وہ سابقہ ادوار میں سرکاری بد انتظامی کے خوف کے سائے میں گئے تھے ایک صاحب جو حج کرکے آئے انھوں نے بتایا کہ ہمیں عزیزیہ میں جگہ دور تو ملی تھی لیکن ہماری بلڈنگ کے سامنے ہر وقت سرکار کی طرف سے تین چار بسیں کھڑی رہتی تھیں جب وہ بس بھر جاتی تو ہمیں حرم شریف لے جاتی جب کہ بھارت کے حاجیوں کے لیے عزیزیہ میں ایک ہی اڈہ تھا جہاں لوگوں کو چل کر جانا پڑتا تھا اور پاکستان نے جن بسوں کو ہائر کیا تھا وہ مہنگی تو تھیں لیکن اچھی تیزرفتار اور کشادہ بسیں تھیں ،جب کہ اسی جگہ سے پرائیویٹ جانے والوں کو پندرہ ریال کرایہ دینا پڑتا اسی طرح ہر حاجی کو اس دفعہ واپسی پر اڑسٹھ ہزار روپئے واپس بھی کیے گئے حاجی اتنے خوش تھے کہ وہ نوازشریف کے لیے نعرے بھی لگا رہے تھے اور انھیں دعائیں بھی دے رہے تھے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا یہ کہنا ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کی دعاؤں سے حکومت کے سر سے استعفے کی بلا ٹل گئی جہاں وزیر امور اوقاف اور حج جناب سردار یوسف مبارک باد کے مستحق ہیں وہیں ہم اس کا کریڈٹ عمران خان اور طاہر القادری کو بھی دینا چاہیں گے کہ انھوں نے نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کاپریشر قائم رکھا ہوا ہے وہ حکومت کو عوامی ریلیف پہنچانے پر مجبور کیے ہوئے ہیں ۔جمہوری ملکوں میں حکومت کو راہ راست پر رکھنے کے لیے اپوزیشن کا موثر ہونا ضروری ہے۔ہمارے یہاں ہمیشہ سرکاری اپوزیشن رہی ہے ایوب خان کے زمانے میں ان کے بھائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے ۔یعنی دو بھائیوں میں ایک حکمران اور دوسرا اپوزیشن لیڈر ۔بھٹو کے دور حکومت میں حقیقی اپوزیشن تھی لیکن اس کے ساتھ بھٹو صاحب نے کچھ اچھا سلوک تو نہیں کیا تھا ایک موقع پر انھیں اسمبلی سے باہر اٹھا کر پھینک دیا گیا تھا لیکن اسی حقیقی اپوزیشن نے بھٹو صاحب کو اسلامی دستور بنانے پر مجبور کیا ،قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوایا،شراب پر پابندی لگوائی ،جمعہ کی چھٹی کا فیصلہ کرایا یہ تو وہ بڑے بڑے فیصلے تھے ۔اسمبلیوں میں روزمرہ کے بہت سے مسائل زیر بحث آتے ہیں جن پر موثر اور حقیقی حزب اختلاف کا ہونا ضروری ہے ۔بدقسمتی سے جب سے ہمارے یہاں دو جماعتی نظام کا غیر اعلانیہ سسٹم قائم ہوا ہے حقیقی اپوزیشن کا تصور ہی ختم ہو گیا ۔عمران خان کا یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ایک اقتدار میں ہوتا ہے تو دوسرا حزب اختلاف میں ۔اس لیے سرکاری اپوزیشن حکومت پر اتنا دباؤ نہیں بڑھاتی کہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں بس کچھ اخباری بیانات دے کر اپوزیشن ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے عمران خان اور مولانا طاہر القادری ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ان دھرنوں کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر نظر آتے ہیں عمران خان کی اگر دو نشستیں اور بڑھ جاتیں تو وہ ہی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہوتے ان دھرنوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ حکومت بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھا پا رہی ہے اسی طرح جو لوگ ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں اس میں بھی پہلے سے کچھ بہتری آئی خیر اس کے لیے تو خواجہ سعد رفیق شروع ہی سے انتھک محنت کررہے ہیں کہ سرکاری ملازمین سے جو عموماَآرام طلب اور کام چور ہو جاتے ہیں کام لینا کوئی آسان کام نہیں ہے خاجہ سعد رفیق پانچ سالوں میں ریلوے کی حالت بدلنا چاہتے ہیں اور اس نقصان میں جانے والے ادارے کو نفع والا ادارہ بنانا چاہتے ہیں ۔بہرحال یہ تو دھرنوں کا وہ فائدہ ہے ج جس سے عوام مستفیض ہو رہے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ عمران کی شخصیت ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ایک دانشور کی حیثیت سے بھی ابھر کر سامنے آرہی ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کا مطالعہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے اس ہفتے وہ کسی دن نوجوانوں کو خصوصی لکچر بھی دینے والے ہیں اس کے لیے وہ تیاری کررہے دوسری طرف مولانا طاہر القادری صاحب ایک اچھے مقرر اور مدرس کی حیثیت سے تو معروف تھے ہی اس دھرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ آپ ایک اچھے پیر بھی ہیں مریدین اب تک تھکے نہیں اور ان کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں ان دھرنوں نے دھرنے دینے والی پارٹیوں کے اندرونی اختلافات کو بھی عوامی سطح پر آشکارا کیا جلسوں کے اندر انتظامی صلاحیتوں سے بھی عوام کو آگاہی ہوئی کہ لوگ یہ سوچنے لگے کہ جو لوگ ایک جلسے اور اسٹیج کا ٹھیک سے انتظام نہیں کر سکتے وہ ملک کا انتظام کیا چلائیں گے ان دھرنوں سے یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ ان دھرنے والی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل ،آئندہ کی منصوبہ بندی ،قابل عمل منشور ،زندگی کے مختلف شعبوں میں کیا اصلاحات کی جائیں گی اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی ٹیم ان کے پا س نہیں ہے بس گلیمر ،مقناطیسی شخصیت ،متوسط طبقے کے مرد وخواتین اور حکومتی نااہلیت کی بنیاد پر مہم چلائی جارہی ہے دوسری طرف بھی یعنی مولانا کے پاس بھی عقیدت مند مریدوں کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ یہ لوگ بھی عوام کوکچھ دے نہیں سکیں گے عمران خان خود تو ایماندار ہیں لیکن ان کے پاس جو ٹیم ہے وہ اسی کرپٹ نظام کی پروردہ ہے کیا وہ ٹیم عمران خان کی مطلوبہ تبدیلی کے نعرے کو رو بہ عمل لا سکے گی ۔بہر حال ان دھرنوں سے عوام کو بہت ساری چیزوں کی آگاہی حاصل ہوئی ہے۔ ویسے اور بھی فوائد ان دھرنوں کے ہیں کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے ،آخر میں شروع میں دیے گئے لطیفے کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ صرف لطیفہ ہی ہے ورنہ تو نکاح ایک مقدس اسلامی عمل ہے اس انسان کا ایمان اور اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں جو بچوں کا گلدستہ گھروں میں سجتا ہے اس گلدستے کی اگ ہم دیکھ بھال یعنی بچوں کی تربیت اسلامی نہج پر کریں اور انھیں اﷲ کے دین کا سپاہی بنا دیں تو یہی ہماری دنیا و آخرت میں بھلائی اور سرخروئی کا سبب بن سکتے ہیں ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.