فرسودہ نظام

عام طور پر سمجھا جاتاکہ بڑے مینڈیٹ کے نتیجے میں مضبوط حکومتیں بنتی ہیں۔یہ مفروضہ ماضی کے اچھے دنوں میں تو شاید کسی حد تک درست ہو جب معیشت کا بحران کم تھا اور جمہوری یا فوجی اقتدار نسبتاََمستحکم ہوا کرتے تھے۔ اگر پچھلی کچھ دھائیوں جائزہ لیا جائے تو بڑے مینڈیٹ کی حکومتیں، جن میں موجودہ حکومت بھی شامل ہے، مسلسل لڑکھڑاتی اور لرزتی ہوئی نظر آتی ہے معیشت کی بد حالی اور سماج کا خلفشار بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ،حکومت ہو یا نام نہاد اپوزیشن اس نظام زر کے نمائندوں کی سیاست میں گھٹیا قسم کی الزام تراشی ، اخلاق سے گری ہوئی بحث و تقرار اور بیہودگی کی آخری حدوں کو توڑتے ہوئے طعنوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔بیان بازیاں کھوکھلی اور بے معنی ہیں۔حکمران طبقے کا بر سر اقتدار دھڑا ہر مسئلے پر ہچکچاہٹ کا شکار نظرآتا ہے ۔فیصلے کرنے کا عتماد سرے سے نا پید ہے ۔ ریاستی جبر کے ذریعے اگر کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو خونریزی گلے پڑجاتی ہے اور حکومت پہلے سے زیادہ پسپائی کی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہوا ہے نہ مہنگائی کم ہونے کا کوئی امکان ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں اور بیروزگاری کے سمندر میں روزگارکے بچے کھچے جزائر بھی نجکاری کے ذریعے ختم کئے جا رہے ہیں۔روزانہ کے حساب سے قرض لے کر ملک چلایا جا رہا ہے ،80ممالک میں کئے گئے امریکی وزارت خزانہ کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کے عوام اپنی آمدن کا سب سے زیادہ حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔جہاں روٹی پوری نہیں ہو رہی وہاں تعلیم، اعلاج،رہائش،اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی کیا کیفیت ہوگی۔مرکز اور صوبوں میں حکمران جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے لوٹ مار کی انتہا کر رکھی ہے ،تھانہ کچہری کی سیاست ،جو غنڈہ گردی کے لئے منافقانہ سی اصطلاح ہے زوروں پر ہے۔عمران خان اور طاہر القادری صاحب کی آزادی اور انقلاب مارچ نے موجودہ حکومت کا رہا سہا بھرم بھی خاک میں ملا دیا،ایسے حالات میں ملک کی سب سے مظلوم دستاویز یعنی آئین کی شقیں بھی حکمرانوں کو یاد آجاتی ہیں۔فی الوقت محنت کش طبقہ سیاست سے بیگانہ ہے، سماج میں کوئی انقلابی تحریک موجود نہیں ہے ،لیکن یہ کیفیت ہمیشہ موجود نہیں رہے گی۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور سطح کے نیچے مچلتی ہوئی بغاوت نے پہلے سے لاغر اور کمزور حکمرانوں کے عدم اعتمادکو آخری نہج پر پہنچا دیا ہے ۔حکمران طبقے کی حرکتیں ثابت کرتی ہیں کہ ان کو اپنے نظام پر بھی اعتماد نہیں ہے ،اس مرتے ہوئے نظام پر ویسے بھی وہی حکمرانی کر سکتے ہیں جن میں ڈھٹائی ،بے حسی، عیاری، مکاری،ہوس، اور فریب کا ملغوبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو، تھوڑی آگے کی سوچ رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور اور حساس انسان ایسی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا۔ حقیقی صورت حال تو یہ ہے کہ زندہ ہونا تو کجا ہم ابھی ایک قوم بھی نہیں ہیں۔ہمارے حکمران طبقے نے جھوٹ بول بول کر عوام کو سچ کی پہچان ہی ختم کروا دی،اب تو اگر کوئی سچ بولے تو وہ جھوٹ لگتا ہے ،حکمران طبقے کا سچ بھی ہمیشہ ادھورا ، آدھا اور اپنی غرض سے مطابقت رکھنے والا ہوتا ہے ،اس لئے موجودہ عہد میں بھی اقتدار سے محروم حکمرانوں کے دھڑے پورے سچ سے خوف زدہ ہیں،وہ کھبی یہ اقرار کرنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ جس کو وہ آزادی کہتے ہیں وہ اصل میں عام آدمی کے ساتھ دھوکہ ہے ، عام آدمی اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا تعین تک کرنے میں آزاد نہیں۔اس کی تعلیم بلکہ نصاب تعلیم کا تعین تک اقلیتی طبقہ کرتا ہے۔غریبوں کی خوراک ،لباس، انکے انداز زندگی کے سارے پہلو انکی قوت خریدکے مطابق متعین کئے جاتے ہیں حتٰی کی کسی سماج میں کس قسم کی بیماریاں پھیلائی جائیں یہ بھی فطرت کے بجائے اب سرمایہ داری نظام کے نا خدا کرتے ہیں۔محنت کش طبقے کو زندگی کہ ہر ضرورت سے محروم کر دیا گیا رہنے کے لئے صاف ماحول، پینے کا پانی، وباو سے پاک زندگی تک چھین لی گئی ،محنت کے استحصال میں روز بروز شدت پیدا کی گئی ۔غربیوں کی تعداد بڑھا کر امیر اور غریب کے مابین خلیج میں گہرائی کو بڑھادیا گیا۔اب تو قوم قبیلے اور برادریوں کا دور ختم ہو کر صرف امیر اور غریب دو ہی قسم کی نسل کے انسان یہاں پر پائے جاتے ہیں۔جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگانے والے اصل میں اپنی ذات اور اپنے مفاد کو بچانے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہے ہیں، ورنہ کیا کسی کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جو غریب کے لئے اور اور امیر کے لئے لگ ہو.۔یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ جب سے یہ ملک دنیا کے نقشے پر آیا ہے تب سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ایک محدود طبقہ جو انگریزوں کے ہاتھوں کھیل رہا ہے ،اور عام آدمی کو وہ اپنے مفاد کی خاطر چولہے میں لکڑیوں کی طرح استعمال کرتا ہے ۔ یہاں قائم ہونے والی حکومتیں دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آتیں ہیں ۔اور آتے ہی ذاتی لوٹ مار کمیشن، ٹھیکوں کی بندر بانٹاور میگا پراجیکٹس کے ذریعے چند رشتے دار خاندانوں کی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی ان میں ترقی کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔بد قسمتی سے قتدار میں آنے والا طبقہ کسی بھی طرح سے قوم و ملک ،عوام اور عام آدمی سے مخلص نہیں ہوتا، بلکہ اس کی نظر صرف اور صرف ان خزانوں ،نوکریوں،اور وزارتوں پر ہوتی ہے جن کو وہ مختلف سیاسی چالوں سے اپنے نام کرتا ہے اور پھر ان ہی کو ترقی کہہ کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔جس طرح ایک انسان کو کچھ عرصہ بوکھا رکھا جائے اور پھر اسے کچھ شرائط پر باسی روٹی کے ٹکڑے کھانے کو دیے جائیں تو وہ سب کچھ ماننے کو تیار ہو جاتا ہے یہی حال یہ حکمران اس عوام کے ساتھ کرتے ہیں کہ اس کو اتنا مجبور اور بے بس کر دیتے ہیں کہ ان کے لئے بات کرنا بھی ان کو بہت بڑا عزاز لگتا ہے۔ راستے میں چلتے ہوئے کسی حکمران طبقے کی ہوا بھی غریب کو لگ جائے تو وہ اپنے آپ کو بہت بڑا کہنے لگتا ہے ،اور اسی نفسیاتی کمزوری کو سمجھتے ہوئے اس ملک کے سیاست دان ایک ہی بات کو دھائیوں تک ددراہا، دوراہا کر عوام سے ووٹ لیتے ہیں مگر عوام کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جو بات یہ دس سال میں پوری، یا سچ ثابت نہیں کر سکا اب کیسے کرے گا۔کیوں کہ عوام کو انہوں نے ایک نوالے کے چکر میں مجبور کر رکھا ہے۔اس نظام کو فرسودہ، جھوٹا،نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.